ایکٹ الائنس پاکستان نے مینگورہ میں سول سوسائٹی اور میڈیا کے ساتھ اک مکالمے کا انعقاد کیا، تا کہ غیر قانونی تجارت اور اس کے مقامی، صوبائی اور قومی معیشت پر مضر اثرات پر بات چیت کی جاسکے۔
تقریب میں مختلف شعبوں کے نمایندگان شامل تھے، جن میں کاروباری راہ نما، صحافی اور سول سوسائٹی تنظیمیں شامل تھیں۔ اس موقع پر غیر قانونی تجارت، ٹیکس چوری، اسمگلنگ اور جعلی مصنوعات کے سنگین معاشی چیلنجوں پر گفت گو کی گئی۔
مکالمے کے شرکا کو بتایا گیا کہ پاکستان میں غیر قانونی تجارت تشویش ناک حد تک پہنچ چکی ہے، جس کا سالانہ تخمینہ تقریباً 68 ارب ڈالر ہے، جب کہ ٹیکس چوری 21 ارب ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ دوسری طرف اسمگلنگ 3 ارب ڈالر سے زائد کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 80 فی صد مصنوعات، خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں، جعلی ہیں۔ یہ اعداد و شمار ان مسائل کے فوری حل کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔
ان مسائل کے فوری حل پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ بہت تشویش ناک صورتِ حال ہے۔ حکومتی اداروں کواس حوالے سے فوری کارروائی کرنی چاہیے۔
شرکا نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان سالانہ غیر قانونی تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے تقریباً 90 سے 100 ارب ڈالر کا نقصان اٹھاتا ہے۔ اس معاملے کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عبدالرحیم، صدر انجمنِ تاجران مینگورہ، نے غیر قانونی تجارت کے خلاف شعور اجاگر کرنے اور تعاون کو فروغ دینے میں ایکٹ الائنس کی کوششوں کی تعریف کی۔ انھوں نے کہا کہ مینگورہ کی تاجر برادری غیر قانونی تجارت کے چیلنجوں کو تسلیم کرتی ہے اور اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر تعاون کے لیے پُرعزم ہے۔
اس موقع پر مختلف شعبوں کی پاکستان میں جاری ٹیکس چوری کے اعداد و شمار پر بھی روشنی ڈالی گئی، جو مسئلے کی سنگینی کو اُجاگر کرتے ہیں۔ پٹرولیم کے شعبے کی ٹیکس چوری 996 ارب، رئیل اسٹیٹ کے شعبے کی 500 ارب اور تمباکو کے شعبے کی چوری 310 ارب روپے سالانہ ہے۔ ان پریشان کن اعداد و شمار کے باوجود حکومت نے غیر منصفانہ طور پر تمباکو کے شعبے سے زیادہ ٹیکس نکالنے پر توجہ مرکوز کی ہے، جو پہلے ہی بھاری ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ جب کہ مقامی کمپنیوں کی بڑی اکثریت ٹیکس چوری کرتی ہے۔
سول سائٹی کے راہ نماؤں نے اس عدم توازن پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور زور دیا کہ حکومت کو تمباکو مصنوعات کی غیر قانونی تجارت میں ملوث افراد کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنی چاہیے۔
ایکٹ الائنس کے نیشنل کنوینر مبشر اکرم نے شرکا کو ایک جامع پریزنٹیشن دی، جس میں غیر قانونی معیشت سے نمٹنے کے ممکنہ فوائد پر زور دیا گیا۔ مبشر اکرم نے اس موقع پر شرکا سے کہا: ’’اگر پاکستان غیر قانونی معیشت کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا صرف 50 فی صد بھی واپس حاصل کرلیتا ہے، تو اس سے قومی اور مقامی ترقیاتی منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی، جو بہ راہِ راست مینگورہ کے عوام کو بھی فائدہ پہنچائے گی۔‘‘
مبشر اکرم نے شرکا سے درخواست کی اور اس بات پر زور دیا کہ وہ غیر قانونی تجارت اور ٹیکس چوری کے معاملات پر مقامی سطح پر عوامی شعور کو بیدار کرنے میں مدد فراہم کریں۔
شرکائے محفل نے مشترکہ طور پر کام کرنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ غیر قانونی تجارت اور ٹیکس چوری کے پیچیدہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈروں، جن میں تاجران، سول سوسائٹی تنظیمیں، میڈیا اور حکومتی ادارے شامل ہیں، کی متحدہ کوشش کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے سنگین معاشی مسائل پر ہر شہری کو حکومتی اداروں کی مدد کرنی چاہیے۔
ایکٹ الائنس ایسے مکالمے پاکستان کے مختلف شہروں میں منعقد کرتا ہے، تاکہ سول سوسائٹی اور میڈیا کی مدد سے غیر قانونی تجارت اور ٹیکس چوری کے خلاف مہم میں عوامی شعور کو اُجاگر کیا جاسکے اور تعاون کو فروغ دیا جاسکے۔
الائنس کا مقصد اسٹیک ہولڈرز کے مضبوط نیٹ ورک کو تعمیر کرنا ہے، تاکہ پاکستان میں شفاف اور منصفانہ معاشی ماحول پیدا کیا جاسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔