تحریر: دیوان سنگھ مفتون
لاہور میڈیکل کالج کے پرنسپل کرنل سُدر لینڈ (جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے مہاراجہ دلیپ سنگھ کے داماد اور شہزادی بمبا دلیپ سنگھ کے شوہر تھے) نے ایک بار میڈیکل کالج کے طلبہ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے خوب کہا تھا: ’’ہندوستان عجیب ملک ہے کہ یہاں کے لوگ اپنے منھ کی صفائی کا تو خیال نہیں کرتے جہاں کہ جسم کی پرورش کے لیے غذا داخل کی جاتی ہے اور یہ اپنی مقعد کے متعلق بہت محتاط ہیں، جہاں سے غذا فضلہ بن کر نکلتی ہے۔‘‘
کرنل سُدر لینڈ کے اِن الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ ہندوستانی منھ کی صفائی نہیں کرتے۔ جہاں کہ غذا جسم کے لیے داخل کی جاتی ہے اور گندہ منھ ہونے کے باعث جب غذا اچھی طرح ہضم نہ ہو اور اس کا نتیجہ قبض کی صورت میں پیدا ہو، تو پھر یہ جلاب لے کر نکالتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے، تو کرنل سدر لینڈ کا یہ بیان بے معنی نہیں۔ ہندوستانیوں کی اپنی صحت کے متعلق فی الحقیقت پوزیشن یہی ہے۔ انسان کو اپنا منھ لازمی طور سے صاف رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ منھ اگر صاف نہ ہو گا، تو غذا منھ کی غلاظت کو ساتھ لے کر پیٹ میں جائے گی۔ منھ کی صفائی کے متعلق پبلک ایک بہت ہی بڑی غلطی میں مبتلا ہے اور وہ یہ کہ مسوڑوں کے متعلق پروا نہیں کی جاتی اور تمام کوشش دانتوں کی صفائی اور ان کو چمکانے پر صرف کی جاتی ہے۔ حالاں کہ دانتوں کی صفائی کے مقابلے میں مسوڑوں کا مضبوط ہونا زیادہ ضروری ہے۔ کیوں کہ مسوڑے اگر کم زور ہوں گے، یا سخت نہ ہوں گے اور اُن میں پلپلاہٹ ہوگی، تو یہ نہ صرف دانتوں کو اچھی طرح سے پکڑ نہ سکیں گے، بل کہ ان میں پایوریا (یعنی پیپ کا پیدا ہونا) بھی ہو جائے گا۔ اس لیے منھ کے متعلق سب سے پہلا سوال مسوڑوں کے مضبوط رکھنے کا ہے اور مَیں اپنے تجربہ کی بنیادوں پر منھ کو صاف کرنے کے متعلق رائے دیتا ہوں کہ سب سے پہلے پانی سے غرارے کیے جائیں اور اُنگلی سے مسوڑوں کی مالش کی جائے۔ تاکہ مسوڑوں کی غلاظت منھ سے باہر نکل جائے۔
دیوان سنگھ مفتون (ایڈیٹر ہفت روزہ ’’ریاست‘‘ دہلی)