یہ بدھ 7 اگست کی بات ہے۔ جناب وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے وزیرِ اعظم ہاؤس کے سبزہ زار میں پودا لگا کر شجرکاری مہم کا آغاز کیا۔
اس موقع پر اُنھوں نے فرمایا کہ ملک بھر میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے سے آب و ہوا صاف ہوگی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں کمی اور قدرتی حسن میں اضافہ ہوگا۔
جناب وزیرِ اعظم نے بتایا کہ موجودہ مون سون کے موسم میں 10 کروڑ سے زائد پودے لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس موقع پر وزیرِ اعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے شجرکاری مہم کے حوالے سے بتایا گیا کہ ماہِ جون کے دوران میں ملک بھر میں 2 ارب 20 کروڑ پودے لگائے جاچکے ہیں۔
قارئین! مَیں تب سے یہی سوچے جا رہا ہوں کہ یہ 2 ارب 20 کروڑ پودے کون کون سے مقام پر لگائے گئے ہیں؟ زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ ماہِ جون میں ہم نے شجرکاری کی ایسی کوئی مہم شروع ہوتے دیکھی ہی نہیں۔ سڑکوں کے کنارے پہلے کی طرح خشک اور ویران پڑے ہیں۔ کھیلوں کے میدانوں میں کسی نئے پودے کا وجود نظر نہیں آتا۔ نہروں کے کناروں پر بھی نئے پودوں کا کوئی اضافہ نظر نہیں آ رہا۔ کہیں خلا میں تو یہ پودے نہیں لگا دیے گئے؟
جناب وزیرِ اعظم کو اس بہت بڑے دعوے پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے کی بہ جائے تحقیقات کروانی چاہئیں کہ 2 ارب 20 کروڑ کوئی معمولی تعداد نہیں۔ اس بات کو آج ہفتہ ہوچکا ہے۔
جناب وزیرِ اعظم کے دعوے کے مطابق 10 کروڑ پودے لگانے کی مہم بھی کہیں نظر نہیں آ رہی، جب کہ مون سون اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک بھر میں درخت لگانا اس وقت ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے کہ موسمی تبدیلیوں کے شکار پاکستان کو اس کام کی اشد ضرورت ہے۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے چاول کی فصل کے بارے میں انتہائی تشویش ناک خبریں آ رہی ہیں۔ ان علاقوں میں گرمی کی شدت سے چاول کی فصل تباہ ہوچکی ہے۔ کم و بیش کپاس کے ساتھ بھی یہی صورتِ حال ہے۔ اس سال ہمارے ہاں درجۂ حرارت بڑا غیر معمولی رہا ہے۔ میدانی علاقوں میں اصل درجۂ حرارت 48 سے 50 ڈگری تک جا پہنچا، لیکن اصل نقصان "Feel like” درجہ حرارت نے پہنچایا، جو میدانی علاقوں میں 58 ڈگری سے بھی تجاوز کرگیا۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے چاول کی فصل کی پولی نیشن ہی نہیں ہو سکی۔
قارئین! اگر ہم نے زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر موسمی شدت کے آگے بند نہ باندھا، تو اس بات کا شدید خدشہ ہے کہ آنے والے سالوں میں موسمِ گرما میں ہمارے میدانی علاقوں میں کوئی فصل کاشت نہیں ہو سکے گی۔
کاغذوں پر اور خلاؤں میں کامیاب شجر کاری کی بہ جائے مناسب یہ ہے کہ عملی طور پر اس مہم کا سرکاری طور پر آغاز کر کے ذمے داری کا ثبوت دیا جائے، ورنہ آنے والے سالوں میں گرمی کی شدت انسانی زندگی کے لیے بھی بے حد خطرناک ثابت ہوگی۔ اس کے لیے مفت مشورے کے طور پر جناب وزیرِ اعظم کی خدمت میں قابلِ عمل تجویز پیش کی جا رہی ہے۔
پنجاب میں 15 اگست سے تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں۔ قومی شجر کاری مہم کے لیے اساتذہ اور طلبہ سے مدد لے کر اس مہم کو 100 فی صد کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔
محترم وزیرِ اعظم کو چاہیے کہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلا کی ہنگامی میٹنگ کال کریں اور انھیں اس مہم کے بارے میں بریفنگ دیں۔
وزرائے اعلا اپنے اپنے صوبے کے وزرا اور ایم پی ایز کا ہنگامی اجلاس طلب کریں اور تمام ایم پی ایز کو ہدایت جاری کریں کہ وہ اپنے حلقے کے تمام بوائز سکولوں اور کالجوں کے ہیڈماسٹروں اور پرنسپل صاحبان کے ساتھ میٹنگ کریں اور اُنھیں مہم کے بارے میں آگاہ کر کے اُن میں قومی جذبہ اُبھارتے ہوئے اُن کے ذمے یہ کام لگائیں کہ اپنے ایریا میں اساتذہ، طلبہ اور کمیونٹی کی مدد سے وہ سڑکیں، میدان، زمینیں اور کھیل کے میدان مارک کریں، جہاں پودے لگانے مقصود اور ضروری ہیں۔ ایک دن مقرر کیا جائے جس روز مقررہ جگہوں پر پودے لگانے کے لیے طلبہ کھڈے ماریں گے۔
محکمۂ جنگلات کو پابند کیا جائے کہ اسی شام کو متعلقہ سکولوں اور کالجوں میں مقررہ تعداد میں پودے پہنچائے جائیں۔ اگلے روز صبح 9 بجے تک تمام طلبہ اور اساتذہ پودوں اور پانی کی بالٹیوں سمیت ایک روز پہلے مارے گئے کھڈوں کے پاس پہنچ جائیں۔ ٹھیک 9 بجے یہ پودے کھڈوں میں لگا دیے جائیں۔ اسی ٹائم پر تمام سرکاری دفاتر، وزیرِاعلا اور وزیرِاعظم ہاؤس میں بھی یہ عمل بروئے کار لایا جائے۔ یوں ایک منٹ میں کروڑوں پودے لگانے کا ورلڈ ریکارڈ قائم ہوجائے گا۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اس مثبت سرگرمی کا اندراج ہوجائے گا اور ’’سرسبز پاکستان‘‘ کی جانب بڑھنے کا عملی طور پر آغاز بھی ہو جائے گا۔
اس عمل سے نہ صرف کروڑوں پودے اپنے حقیقی وجود کے ساتھ دھرتی پر لگے ہوئے نظر آئیں گے، بل کہ قومی یک جہتی کے جذبے کو بھی فروغ ملے گا۔
مون سون اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر یہ قومی مہم فوری طور پر شروع کر دی جائے، تو اس کے بڑے دور رس نتائج نکلیں گے۔ ہر چھے ماہ بعد شجرکاری کے موسم میں اس مہم کا اعادہ کیا جا سکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔