نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے لیے مشکلات

Blogger Syed Shahid Abbas Kazmi

خطۂ فارس کو اب یقینا سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ کیوں کہ اس کے دعوے صرف دعوے ہی ثابت ہو رہے ہیں…… اور کچھ بعید نہیں کہ یہی صورتِ حال رہی، تو جو رہی سہی کسر ہے، وہ بھی جاتی رہے۔ ایسا ہونا صرف قیاس بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ عملی طور پر جائزہ لیجیے، تو خطۂ فارس اس وقت سوائے بیانات کے کچھ نہیں کر پا رہا۔ بس کچھ عزت ’’پراکسی وار‘‘ کی مدد سے باقی ہے، جسے سنبھالنا ضروری ہے۔ اس سے پہلے بھی اہم شخصیات نشانہ بنتی رہی ہیں اور یہ نشانہ بھی اپنے مضبوط گڑھ اور اپنی ریاست کی حدوں میں بنتی رہی ہیں۔ سلیمانی کا نشانہ بننا ہو، یا دیگر اہم شخصیات، ہر لحاظ سے ناکامی ظاہر ہوتی رہی ہے۔ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر آپ کو دشمن آپ کے گھر میں عملی طور پر گھس کر مار رہا ہے، تو آپ صرف بیانات پہ گزارا نہیں کرسکتے۔
میاں بیوی کا ایک قصہ اکثر لطیفے کی صورت سننے کو ملتا ہے کہ میاں کے ہر تھپڑ پر بیوی بس اتنا غصے سے کہتی ہے کہ ’’اب کے مار کے دکھاؤ!‘‘ المیہ یہ نہ ہو کہ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہو، اور مقابلہ صرف زبانی کلامی ہی باقی رہ جائے۔ جس قدر قد آور شخصیت اپنے ہی دارلحکومت میں نشانہ بنی ہے،(وہ بھی نئے صدر کی تقریبِ حلف برداری سے صرف ایک دن قبل) تو یقینی طور پر ایک امتحان کی صورت ہے کہ جو آپ کی جنگ بھی کسی نہ کسی حد تک لڑ رہے ہیں، ان کو تحفظ اگر آپ کی سرزمین پر بھی نہیں مل رہا ہے، تو عملی چپقلش میں جہاں آپ کا نقصان ہوگا، وہاں پراکسی وار میں بھی آپ کو ایسا نقصان ہو رہا ہے، جس کا آپ نے سوچا بھی نہ ہوگا۔
نظام، ادارے، ایجنسیاں…… کاش! صرف زبانی جمع خرچ پہ دنیا میں اپنا وقار قائم کرسکتیں…… لیکن ایسا ہو نہیں سکتا اور اس کے لیے پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ جدیدیت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آلات، تکنیک اور مسائل سے نمٹنے کا رویہ، اور اس سے جڑے دیگر عوامل بہت اہم ہوتے ہیں۔ خطۂ فارس کے لیے جو سب سے بڑا مسئلہ اس وقت ہے، وہ قدامت پسندی اور اصلاح پسندی کی آپس کی چپقلش ہے۔ دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ ترقی کی نئی جہتیں متعارف ہو رہی ہیں۔ قدیم نظامِ دفاع کی جگہ اب مصنوعی ذہانت لے رہی ہے۔ رنگ، نسل، لسانیت، گروہی، علاقائی پہچان وغیرہ اہم ضرور ہیں، لیکن موجودہ عالمی حالات میں یہ ثانوی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اب دنیا حقیقی معنوں میں ایک عالمی گاؤں یعنی گلوبل ولیج سے بھی بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ اس دور میں آپ اگر چاہیں کہ صرف چہرے پہ شکنیں ڈالے، غصے سے معاملات حل کرلیں گے، تو ایسا ممکن نہیں رہا۔ ایک جدید گاؤں سے کٹ کر آگر آپ یہ تصور کرلیں کہ پہاڑ پر رِہ کر آپ وہی مقام پالیں گے، جو ایک جدید گاؤں کی تمام اکائیاں پا رہی ہیں، تو یہ ناممکن ہے۔ آپ کو جدیدیت کی طرف رجحان رکھتے ہوئے اپنا انتظامی و دفاعی ڈھانچا عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے…… اور اگر آپ ایسا کرنے میں ناکام رہتے ہیں، تو ناہآپ کے ملک میں آپ کا صدر محفوظ ہے اور نہ اہم مہمان شخصیت، کہ جس کے وجود سے پورے خطۂ عرب میں جاری مزاحمت کی تحریک جڑی ہوئی ہے۔
حب الوطنی کارڈ بھی زیادہ دیر اَب چلنا محال ہے ہر خطے کے لیے۔ آپ ملک میں قدامت پسندی کے رجحانات کے تحت جب معاملات چلائیں گے، تو آپ کے ذہین دماغ چھلنی کی طرف رخصت ہوتے جائیں گے۔
اصلاح پسند نئے صدر کے لیے پہلا ہی دن ہنگامہ خیز اس لیے ہے کہ یوں کَہ لیجیے کہ ’’سر منڈواتے ہی اولے پڑے‘‘ کے مصداق اقتدار سنبھالتے ہی ایک آفت نے آن گھیرا۔ ان کے بارے میں اندازے بہت مثبت ہیں…… لیکن اقتدار کی کرسی صرف اندازوں پہ چلنے سے رہی۔ ان کے سامنے دو آفتیں بانہیں پھیلائے کھڑی ہیں، جو انھیں جلد دبوچ سکتی ہیں:
٭ پہلی عالمی طاقتوں سے بہتری پہ معاملات استوار کرتے ہوئے ملک کی معاشی صورتِ حال بہتر بنانا۔
٭ دوسری، اہم مزاحمتی راہنما کے اپنے دارلحکومت جیسی محفوظ جگہ پہ نشانہ بن جانے کے بعد اس معاملے پہ رویے کا اظہار۔
اصلاح پسند صدر مسعود کے لیے یہ ایک زندگی کا اور اقتدار کا ٹرننگ پوائنٹ اس لیے بھی ہے کہ وہ قدامت پسندی کی مخالف سمت میں چلنے والے راہ نما کے طور پر اُبھرے ہیں۔ اس حالیہ واقعے پہ وہ اگر رویہ نرم رکھتے ہیں، تو ملک کے اندر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اور اگر اقتدار کے شروع میں ہی رویہ اس معاملے پر سخت اپناتے ہیں، تو عالمی طاقتیں مزید پابندیاں لگاسکتی ہیں۔
مزاحمتی راہ نما کا خطۂ فارس میں نشانہ بننا، نئے صدر کے لیے ایسا کڑا امتحان ہے کہ اگر وہ اس سے سرخ رو ہوجاتے ہیں تو نہ صرف ملک میں ان کا وقار بڑھے گا، بل کہ عالمی سطح پر بھی وہ ایک مضبوط راہ نما کے طور پر اُبھریں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے