ریاست کے تیسرے ستون عدلیہ کے حوالہ سے آئے روز نت نئی خبریں اور تجزیے دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں۔ بسااوقات کئی یوٹیوبر اپنے بے تکے تجزیوں میں دُور کی کوڑی لانے کی ناکام کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں بے چارے یوٹیوبروں کا بھی کوئی قصور نہیں۔ کیوں کہ ان کو صرف اپنے ’’وی لاگز‘‘ کی ’’ویور شپ‘‘ بڑھانے سے مطلب ہے۔
قارئین! حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان کی ریٹائرمنٹ کی مدت بڑھانے کی خبریں سننے کو ملیں۔ کہیں سے یہ فرمایش ہے کہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کو ڈائریکٹ بھرتی کرنے کی بہ جائے پبلک سروس کمیشن کی طرز پر ماتحت عدلیہ سے ججوں کو عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ تک پہنچایا جائے۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
کسی جانب سے ججوں کی تعیناتی کے طریقۂ کار کی بابت ممکنہ قانون سازی کی باز گشت سنائی دی۔ کچھ تجزیہ کار اور کالم نگار حضرات چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینئر ترین جج منصور علی شاہ سے اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ عدلیہ میں اعلا ترین عہدوں پر فائز یہ شخصیات ایسے احکامات جاری کریں کہ ڈائریکٹ ہائیکورٹ بھرتی کا راستہ بند ہوجائے اور میرٹ پر ججوں کو آگے لایا جاسکے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اعلا ترین عدلیہ میں ججوں کی اہلیت، تعیناتی اور ریٹائرمنٹ میں تبدیلیاں خواہشات کے تحت ممکن ہیں؟ آیئے! سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اعلا ترین عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کیسے کی جاتی ہے اور اس کا طریقۂ کار کیا ہے؟
سال 2010ء میں 18ویں اور 19ویں آئینی ترامیم کے بعدآئینِ پاکستان میں آرٹیکل 175A کا اضافہ کیا گیا۔ اس آرٹیکل کے تابع جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور پارلیمانی کمیٹی تشکیل کی گئی، جو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تعیناتی کے لیے سفارشات وزیرِاعظم پاکستان کو بھیجنے کی پابند ہیں اور وزیرِ اعظم یہ سفارشات منظوری کے لیے صدرِ مملکت کو ارسال کرتا ہے۔ بالآخر صدرِ مملکت ان سفارشات کی منظوری کے بعد جج کی تعیناتی کا حکم نامہ صادر کرتا ہے۔
اب آئیے، ججوں کی تعیناتی کے لیے لازم اہلیت کا مطالعہ کریں۔
٭ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 177 کے تحت سپریم کورٹ کے جج کی اہلیت:۔ کسی شخص کو سپریم کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا جائے گا، جب تک کہ وہ پاکستان کا شہری نہ ہو۔ یاد رہے کہ ججوں پر ممبرانِ پارلیمنٹ کی طرح دوہری شہریت پر پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا اور وہ کم از کم یا مجموعی طور پر 5 سال کی مدت کے لیے ہائیکورٹ کے جج کے طور پر خدمات سرانجام دے چکا ہو یا وہ کم از کم 15 سال تک ہائی کورٹ وکیل کے طور پر پریکٹس کرتا رہا ہو۔ آرٹیکل 179 کے سپریم کورٹ کا جج اُس وقت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا، جب تک کہ وہ 65 سال کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ سوائے اس کے کہ وہ جلد استعفا دے دے، یا آرٹیکل 209 کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
منصف خود انصاف کے طلب گار ہیں (فضل منان بازدا)
انتظامی ٹریبونلز اور خصوصی عدالتیں (ایڈوکیٹ محمد ریاض)
بھٹو ریفرنس، مستقبل کے مورخ کو مواد ہاتھ آگیا (سید فیاض حسین گیلانی)
دس جنوری ایک تاریخ ساز دن (ایڈوکیٹ محمد ریاض)
٭ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 193 کے تحت ہائیکورٹ کے جج کی اہلیت:۔ کسی شخص کو ہائی کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا جائے گا، جب تک کہ وہ پاکستان کا شہری نہ ہو۔ اس کی عمر 45سال سے کم نہ ہو۔ اور وہ 10 سال سے کم عرصے تک، یا مجموعی طور پر، ہائی کورٹ کا وکیل رہا ہو، یا اس پیراگراف کے لیے قانون کے ذریعے تجویز کردہ سول سروس میں کم از کم دس سال کی مدت کے لیے خدمات سرانجام دیتا رہا ہو، یا اُس نے کم از کم 3 سال کی مدت کے لیے ڈسٹرکٹ جج کے طور پر خدمات سرانجام دی ہوں، یا وہ کم از کم 10 سال تک پاکستان میں عدالتی عہدے پر فائز رہا ہو۔
٭ انتہائی اہم نوٹ:۔ اس مدت کی گنتی میں جس کے دوران میں کوئی شخص ہائی کورٹ کا وکیل رہا ہو یا عدالتی عہدے پر فائز رہا ہو، اُس مدت کو شامل کیا جائے گا جس کے دوران میں وہ وکیل بننے کے بعد عدالتی عہدے پر فائز رہا ہو، یا جیسا کہ معاملہ ہو، اس دورانیہ کو شامل کیا جائے گا، جس کا وہ عدالتی عہدہ رکھنے کے بعد وکیل رہا ہے۔ اس آرٹیکل میں ڈسٹرکٹ جج کا مطلب ابتدائی دائرۂ اختیار کی پرنسپل سول کورٹ کا جج ہے۔ آرٹیکل 195 کے مطابق ہائی کورٹ کا جج اُس وقت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا جب تک کہ وہ 62 سال کی عمر کو نہ پہنچ جائے، سوائے اس کے کہ وہ جلد استعفا دے دے، یا آرٹیکل 209 کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
درجِ بالا آئینی تقاضوں کے مطالعے کے بعد اس بات میں کسی قسم کی شک کی گنجایش ہی نہیں رہتی کہ اعلا ترین عدلیہ میں ججوں کی اہلیت، تعیناتی اور ریٹائرمنٹ کی عمر کا تعین آئینِ پاکستان میں واضح طور پر درج ہے۔ لہٰذا ججوں کی اہلیت، تعیناتی، ریٹائرمنٹ کی عمر میں کسی بھی قسم کی رد و بدل کے لیے آئینِ پاکستان میں ترامیم کرنا لازم ہے۔
آرٹیکل 239 کے مطابق آئینِ پاکستان میں کسی بھی قسم کی ترمیم کے لیے ایوان کے دونوں ایوانوں کی دوتہائی اکثریت کی جانب سے ترمیمی بل کو منظور کرنا لازم ہے۔
لہٰذا یوٹیوبروں، کالم نگاروں، تجزیہ نگاروں اور سیاسی قائدین کی من پسند اور من گھڑت باتوں کی طرف دھیان دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ اس وقت موجودہ ’’پی ڈی ایم ٹو حکومت‘‘ کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت موجود نہیں۔لہٰذا ججوں کی تعیناتی و اہلیت، ریٹائرمنٹ کے متعلق باتیں کرنا قبل ازوقت اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔