چھانگا مانگا، کچے پکے کے ڈاکو اور بے بس عوام

Blogger Fazal Manan Bazda

پاکستان اور خاص کر صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام کو پنجاب میں’’چھانگا مانگا‘‘ کے بارے میں اُ س وقت معلوم ہوا، جب سابق وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی۔
عدم اعتماد پر رائے شماری سے پہلے میاں محمدنواز شریف نے ممبرانِ قومی اسمبلی کو’’چھانگا مانگا ‘‘میں نظر بند کردیا تھا، تاکہ ممبران کو کوئی خرید کر اپوزشن کے ہاتھ نہ چڑھ سکے اور نہ تحریک ِ عدم اعتماد پر رائے شماری کے وقت غائب ہوں۔ جب اس عمل کے چرچے ٹی وی اور اخبارات میں ہونے لگے، تو تب بعض لوگوں کو معلوم ہوا کہ ’’چھا نگا مانگا ‘‘ کہاں واقع ہے؟
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
’’چھانگا مانگا ‘‘ضلع قصور کی ایک تحصیل کا نام ہے، جو غالباً لاہور سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ اپنی خوب صورتی کی بہ دولت بہت مشہور ہے۔
قارئین! شاید آپ کو یہ معلوم نہ ہوکہ اس علاقے یا اس کے جنگل کا نام ’’چھانگا مانگا‘‘ کیسے پڑا؟
چھانگا مانگا کا جنگل خود رو یا قدرتی نہیں بلکہ یہ انگریز سرکار نے1866ء میں انسانوں کی مدد سے پودے لگا کر بنایا تھا۔ اس علاقے کے دو بھائی جن میں ایک کا نام ’’ چھانگا‘‘ اور دوسرے کا ’’مانگا‘‘ تھا۔ دونوں نے مل کر شہریوں کو لوٹتے تھے، اور اسی جنگل میں روپوش ہوجایا کرتے تھے۔ جنگل ہی میں دونوں بھائیون نے اپنے لیے کمین گاہ بنا رکھی تھی۔ عوامی شکایات پر انگریز سرکار نے مذکورہ ڈاکو بھائیوں کو پکڑ نے کے لیے اپنے مخبر اُن کے پیچھے لگا دیے۔ بالآخر دونوں کو گرفتار کیا گیا، تب سے اِس علاقے اور جنگل کا نام ’’ چھانگا، مانگا ‘‘ پڑگیا ہے۔
(بہ حوالہ ’’انوارِ پاکستان‘‘ از ڈاکٹر ہارون رشید تبسم۔)
چھانگا مانگا کے ڈاکوؤں کے بعد پاکستان میں ڈاکوؤں کی مسلسل وارداتوں کی وجہ سے کچے کے علاقے کوشہرت ملی۔ کچے کے ڈاکو سرِ عام شہریوں، نجی و سرکاری اداروں، ریسکیو اور پولیس اہل کاروں تک کو اِغوا کرکے جسمانی تشدد کی ویڈیوز بناکر اُن کے اہلِ خانہ کو بھیج کر اُن سے کروڑوں روپے تاوان مانگتے اور وصول کرتے ہیں، جب کہ تاوان نہ ملنے کی صورت میں اِغوا کنندہ کو بے دردی سے قتل کرکے لاش ویرانے میں پھینک دیتے ہیں۔
پنجاب اور خاص کر سندھ پولیس کچے کے مذکورہ ڈاکوؤں پر قابو پانے میں تاحال ناکام ہے۔ کچے کے ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ، راکٹ لانچر، ڈرون، سندھ اور پنجاب پولیس سے چھینی گئی بکتربند گاڑیاں اور وائر لس سسٹم تک موجود ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
دو ڈاکوؤں کے نام سے مشہور تحصیل ’’چھانگا مانگا‘‘ 
کچے کے ڈاکو کتنے طاقت ور ہیں؟ 
کچے کے ڈاکو، سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان
اِغوا کاروں کے معروف حربے 
کچے کے ڈاکوؤں سے وفاقی ادارہ پوچھ سکتا ہے اور نہ دونوں صوبوں (سندھ اور پنجاب) کی پولیس اُن پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ اب خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ کچے کے ڈاکو کل کو تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، لشکرِ طیبہ اور بلوچ علاحدگی پسند جیسی کالعدم تنظیموں کی طرح ریاست کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جائیں، بڑی حد تک تو بن بھی چکے ہیں۔
جیسا کہ کچے کے ڈاکوؤں کی طرف سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں ایک ڈاکو کہتا ہے کہ اگر ہمارے پاس جنگی جہاز ہوتے، تو ہم اپنی ایک آزاد اور خود مختارریاست کا اعلان کرتے۔ مذکورہ ڈاکو نے یہ بھی دعوا کیا کہ یہ سب کچھ ہمیں اعلا سرکاری افسران اور سیاسی رہنما فراہم کر رہے ہیں (واللہ اعلم!)
قارئین! ماضی میں پنجاب اور سندھ سرکار نے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کا ڈراما بھی رچایا، مگر تاحال ایک ایٹمی ریاست کچے کے ڈاکوؤں کے سامنے کلی طور پر بے بس ہے۔ نام نہادآپریشنوں کے نام پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔ وزرا سمیت اعلا سرکاری حکام مورچوں کا دورہ کرکے پولیس اہل کاروں کو شاباش دیتے نظر آتے ہیں۔ اسلحہ اور گولہ بارود کی خریداری اور خصوصی الاؤنس کے نام پر بھاری رقوم خرچ کرنے کے اعلانات ہوتے رہتے ہیں، لیکن نتیجہ مرغی کی وہی ایک ٹانٹ کے مصداق ہی نکلتا ہے۔
حیرانی بلکہ شرم کی بات یہ ہے کہ انتظامیہ اعلانات کر رہی ہے کہ کچے کے ارد گرد کے علاقوں کے لوگ احتیاط برتیں۔ قومی شاہ راہیں اور موٹر وے تک محفوظ نہیں۔ گاڑیاں اِن شاہ راہوں پر دن کے وقت قافلوں کی صورت میں سفر کریں اور شام ڈھلتے ہی سفر کرنے سے گریز کریں۔
تو یہ بھی کوئی کرنے والی بات ہوئی!
پاکستان میں ’’ چھانگا مانگا‘‘ اور کچے کے ڈاکوؤں کے علاوہ پکے میں بھی ڈاکو موجود ہیں، جو 77 سالوں سے اس ملک میں ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ پکے کے ڈاکوکبھی جمہوریت، کبھی آمریت، کبھی مذہب اور کبھی قوم پرستی کے نام پر عوام کو سبز باغ دکھاکر اُن کی آنکھو ں میں دھول جھونکتے ہیں۔ سفید کپڑوں میں ملبوس پکے کے ڈاکو بجلی، گیس، پیٹرول اور نت نئے ٹیکسوں کی صورت میں غریب عوام کو لوٹتے ہیں۔ عوام کو دھوکا دینے کے لیے کبھی کبھار ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کرتے بھی نظر آتے ہیں، لیکن اندر سے یہ سب ایک ہیں، اور ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔ دوسری طرف خلائی مخلوق کبھی پکے کے کے مذکورہ ڈاکوؤں کے ایک گروہ کی مدد کرتے پائے جاتے ہیں، تو کبھی دوسرے گروہ کی مدد کرتے۔ پکے کے ڈاکو ؤں کو وارداتوں میں مصروف دیکھ کر پاکستان کے ازلی دشمن سامراجی طاقتیں، ہندوستان اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے اہل کار پاکستانی عوام کو قتل کر کے عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ عوام کی داد رسی والا تو ویسے بھی کوئی نہیں۔ قوم ہے کہ چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پِس رہی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے