بھٹو کی عملی سیاست کا آغاز

Blogger Akhtar Hussain Abdali

ذوالفقار علی بھٹو پانچ جنوری 1928ء کو متحدہ ہندوستان میں سندھ کے معروف سیاست دان سر شاہ نواز بھٹو کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم بمبئی سے حاصل کی۔ بارکلے (Barkley) اور آکسفورڈ (Oxford) یونی ورسٹی سے پولی ٹیکل سائنس (Political Science) کی اعلا تعلیم کے بعد ’’لنکن ان‘‘ سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد 1953ء میں واپس کراچی آئے اور قانون کے لیکچرار کے طور پر تعینات ہوئے۔ ساتھ ہی وکالت بھی جاری رکھی۔
اختر حسین ابدالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akhtar-hussain/
قارئین! اب چار اپریل 1979ء کو ریاستی جبر اور انتہائی متنازع عدالتی فیصلے کے بعد پھانسی پانے والے ذوالفقار علی بھٹو کے انتہائی قابلِ رشک سیاسی کیریئر کے عروج و زوال کا خلاصہ ملاحظہ ہو:
ذوالفقار علی بھٹو پہلی بار 25 نومبر 1954ء کو ’’سندھ یوتھ فرنٹ‘‘ (Sindh Youth Front) کے صدر کے طور پر سیاسی میدان میں اُس وقت نمودار ہوئے، جب اُنھوں نے ’’ون یونٹ سکیم‘‘(One Unit Scheme) کے قیام کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
ستمبر 1957ء میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو کی سرکاری خدمات سامنے آئیں، جب وہ اقوامِ متحدہ (United Nations) کی سلامتی کونسل (Security Council) کے ایک اجلاس میں شریک پاکستانی وفد میں شامل تھے۔ وہاں اُن کی تقاریر سے سرکاری حلقے اس قدر متاثر ہوئے کہ چھے ماہ بعد یعنی مارچ 1958ء میں جب پاکستان کا ایک اور وفد اقوامِ متحدہ کے جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے جارہا تھا، تو اُس وفد کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ دی گئی۔
7 اکتوبر 1958ء کو اُس وقت کے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا نے آئینِ پاکستان کو معطل کرتے ہوئے وزیرِ اعظم ملک فیروز خان نون کو گھر بھیجا۔ اسمبلیاں اور سیاسی پارٹیاں توڑیں اور ملک گیر مارشل لا لگاکر آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقررکر دیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ 24 اکتوبر 1958ء کو اسکندر مرزا نے جنرل ایوب خان کو وزیرِ اعظم بنایا، لیکن تین دن بعد یعنی 27 اکتوبر 1958ء کو ایوب خان نے اسکندر مرزا کو ملک بدر کیا اور خود عہدۂ صدارت پر براجمان ہوئے۔ پھر ایوب خان نے جس 11 رُکنی کابینہ کا اعلان کیا، اُس میں 3 فوجی جرنیلوں کے علاوہ 8 غیر سیاسی سویلین بھی شامل تھے، جن میں 30 سالہ نوجوان وکیل ذوالفقار علی بھٹو کو وزیرِ تجارت کا عہدہ دیا گیا تھا، جو اُس وقت تک پاکستان کے کم عمر ترین وفاقی وزیر تھے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
پراجیکٹ "فنش بھٹو” 
بھٹو کا قاتل کون؟ 
ذوالفقار علی بھٹو عام لیڈر نہیں تھے 
قصور وار بھٹو ہے! 
اپنے وہ کام جو پیپلز پارٹی کیش نہ کروا سکی 
بھٹو نے سوا سال کے عرصے میں اپنی کارکردگی سے ایوب خان کو اس قدر متاثر کیا کہ سات جنوری 1960ء کو ایوب خان نے اپنی 11 رکنی کابینہ میں وزارتوں کی تقسیمِ نو کی۔ ذوالفقار علی بھٹو وہ واحد وزیر تھے، جنھیں سب سے زیادہ یعنی 6 وزارتوں کے قلم دان سونپ دیے گئے۔ ان وزارتوں میں وزیرِ اطلاعات و نشریات، وزیرِ قومی تعمیرِ نو، وزیرِ دیہی ترقی، وزیرِ بلدیات، وزیرِ سیاحت اور وزیر برائے اقلیتی امور جیسی وزارتیں شامل تھیں۔ تین ماہ بعد پانی و بجلی اور قدرتی وسائل کی وزارت کی منصب پر بھی فائز ہوئے جب کہ 24 جنوری 1963ء کو وزیرِ خارجہ بنے۔
اس کے علاوہ قائم مقام وزیرِ صنعت، وزیر برائے امورِ کشمیر اور وزیرِ خوارک و زراعت کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ ان خدمات اور اعلا کارکردگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایوب خان نے 21 جون 1964ء میں بھٹو کو پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ہلالِ پاکستان سے نوازا…… لیکن 17 جون 1966ء کو ’’معاہدۂ تاشقند‘‘(Tashkent Agreement) پر اختلافات کی وجہ سے دونوں کی راہیں جدا ہوئیں۔
قارئین، 30 نومبر 1967ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی نئی سیاسی جماعت ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے قیام کا اعلان کیا۔ خود پارٹی کے بانی اور چیئرمین بنے۔ محض تین سال بعد یعنی دسمبر 1970ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں شان دار کام یابی حاصل کی۔ پی پی پی نے 138 میں سے 81 نشستوں پر کام یابی حاصل کی…… جب کہ بھٹو خود 5 حلقوں سے منتخب ہوئے تھے۔
مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی ’’عوامی لیگ‘‘ نے 300 میں سے 160 سیٹیں جیتی تھیں اور حکومت بنانے کی حق دار تھی…… لیکن پاکستان کا مختارِ کل آمر جنرل یحییٰ خان اقتدار سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ کیوں کہ وہ انتقالِ اقتدار نہیں بلکہ شرکتِ اقتدار چاہتا تھا۔ یوں ملک دو لخت ہوا…… لیکن یحییٰ خان پھر بھی اقتدار سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔ جب 20 دسمبر 1971ء کو یحییٰ خان نے استعفا دیا، تو بھٹو نئی آئین بننے تک پاکستان کے صدر رہے۔ 1973ء میں جب آئین بنا، تو بھٹو وزیرِ اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے ۔
قارئین، ذوالفقار علی بھٹو چار اپریل 1979ء کو نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے مقدمے میں تختۂ دار پر لٹکا دیے گئے۔ اللہ تعالا مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے