ہمارے یہاں سوات میں کئی بزرگوں کے نام ایسے ہیں، جنھیں سن کر عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ ایسے ناموں میں خچن، چڑی، بدے، خڑے اور ہمارے دادا (مرحوم) کا نام ’’بزوگر‘‘ شامل ہیں۔
اولاد اچھی ہو، تو صدقۂ جاریہ کے مصداق والدین کے لیے دعاؤں کا ذریعہ بنتی ہے۔ بری ہو، تو اولاد کے ساتھ والدین بھی برے الفاظ سے یاد کیے جاتے ہیں۔ خچن حاجی صاحب ہی کو لے لیجیے۔ اولاد نیک ہے، تو اُن کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ مجھ سمیت ہمارے خاندان میں کوئی ایسا فرد نہیں جو دادا (مرحوم) کی نیک نامی کا سبب بنا ہو۔ اس لیے اُن کا نام گالی گردان دیا گیا۔ کہانی طول طویل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ یہ تحریر دادا (مرحوم) کا مجھ پر ایک قرض ہے، جسے اُتارنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
رزق، ملبوس، مکاں، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہوگیا انساں انھی افکار کے بیچ
کامریڈ امجد علی سحاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
13 اگست 1975ء کو جاری ہونے والے قومی شناختی کارڈ نمبر 114-33-146702 کے مطابق دادا (مرحوم) کی تاریخِ پیدایش 1933ء ہے۔ اُن کا اصل نام محمد تھا۔
قارئین! یہ تحریر پڑھتے وقت چند نام بار بار پڑھنے کو ملیں گے، جیسے ’’بابا‘‘، ’’داجی‘‘، ’’حاجی صاحب‘‘ اور’’ترہ دادا‘‘۔ مذکورہ ناموں کو پڑھتے وقت ذہن میں رکھیے گا کہ یہ محمد المعروف بزوگر حاجی صاحب کے لیے استعمال میں لائے گئے ہیں۔ مَیں، میرا چھوٹا بھائی اور چچیرے سب اُنھیں ’’بابا‘‘ کَہ کر مخاطب کرتے۔
میری والدہ محترمہ، بابا (مرحوم) کی عرفیت (بزوگر) کے حوالے سے فرماتی ہیں: ’’اللہ بخشے ایک دن مَیں نے اپنی ساس سے پوچھا تھا کہ داجی کا نام محمد تھا، تو یہ عرفیت کیسے پڑی؟ ساس (مرحومہ) جواباً کہنے لگیں کہ حاجی صاحب کے والدین کے ہاں اولاد پیدا ہوتے ہی انتقال کرجایا کرتی تھی۔ ایک دن گھر کے سامنے بکریوں کا ریوڑ گزر رہا تھا۔ ریوڑ کی رکھوالی کرنے والے اُن خانہ بہ دوشوں میں ایک خاتون تھیں۔ اُس نے حاجی صاحب کی ماں سے پینے کا پانی مانگا۔ باتوں باتوں میں خانہ بہ دوش خاتون کو پتا چلا کہ گھر میں میاں بیوی کے علاوہ صرف ایک شیر خوار بچہ ہے، باقی جو دنیا میں آیا انتقال کرگیا۔ یہ شیر خوار بچہ کب تک جیے گا…… کچھ خبر نہیں۔ خانہ بہ دوش خاتون نے یہ سنا، تو دوسرے ہی لمحے بچے کو گود میں لیا۔ اُسے سینے سے لگایا اور اپنا دودھ پلا کر واپس ماں کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ یہ لمبی عمر پائے گا۔ آج سے اِسے پیار سے ’بزوگر‘ (چرواہا) پکارا کریں۔‘‘
والدہ محترمہ فرماتی ہیں: ’’داجی کے دو بھائی اور تھے۔ سب سے بڑے محمد المعروف بزوگر حاجی صاحب (مرحوم)، منجھلے اسفندیار (مرحوم) اور سب سے چھوٹے احمد (مرحوم) تھے۔‘‘
مجھے باباکے ساتھ اُن کے دونوں بھائی بھی یاد ہیں۔ اسفندیار بابا کے دو بیٹے گلیار المعروف نانا، مختیار اور چار بیٹیاں ہیں، جب کہ احمد بابا کے بھی دو بیٹے پروفیسر ڈاکٹر محمد ساجد،محمد اسلم اور تین بیٹیاں ہیں۔ میری تربیت میں میرے نانا ہیڈ ماسٹر (ر) غلام احد، ماموؤں خورشید علی اور افتخار حسین کے بعد پروفیسر ڈاکٹر محمد ساجد کا بڑا ہاتھ ہے، جن کے لیے میں اُن کا تادمِ آخر احسان مند رہوں گا۔ بقولِ عدیلؔ زیدی
احسانِ رب، محبتیں اتنی ملیں عدیلؔ
اِس عمرِ مختصر میں نہ لوٹا سکیں گے ہم
دیگر متعلقہ مضامین:
فلائنگ کوچ مولوی صیب
نوابِ دیر شاہ جہان خان اور تعلیم و صحت
تاریخی ودودیہ سکول کے اولین طلبہ
امیر چمن خان (نائب سالار ریاستِ سوات)
رہبرِ تحریک خان عبدالولی خان
آمدم برسرِ مطلب، بابا نے تین شادیاں کی تھیں۔ والدہ محترمہ فرماتی ہیں کہ سب سے بڑی دادی لڑکی کو جنم دیتے وقت انتقال کرگئی تھیں۔ اُن کے بعد بڑی دادی تھیں جنھیں ہم سب پیار سے ’’خوگہ‘‘ (یعنی پیاری یا میٹھی خاتون) پکارتے تھے۔ اُن کے بطن سے ہمارے تایا علی خان (جنھیں خاندان میں احتراماً مشر دادا پکارا جاتا) نے جنم لیا۔ چھوٹی دادی کے بطن سے ہمارے والدِ بزرگوار فضل رحمان المعروف علی رحمان، پُردل خان (شمال)، رسول خان، ایوب خان اور تین پھوپیوں نے جنم لیا۔
ہمارے محلے کے بزرگوں کے مطابق بابا سیلف میڈ انسان تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے پردادا ’’دانش بابا‘‘ اپنی جائیداد بیچنے کے بعد اپنے ہی خیل والوں کی نظر میں معتوب ٹھہرے، اُنھیں وہاں (تختہ بند، نویکلے) سے کوچ کرنا پڑا۔ اُس کے بعد دو بھائی یعنی بابا اور اسفندیار بابا مینگورہ میں رزق کی تلاش میں مصروف ہوگئے جب کہ اُن کے چھوٹے بھائی احمد بابا پشاور منتقل ہوگئے۔
بابا ریاستی دور میں ملیشا (ریاستِ سوات کی فوج) کا حصہ تھے۔ اس حوالے سے سوات کیپ ہاؤس کے مالک ’’ملک اورنگزیب‘‘ نے ایک دن مجھے اپنی دُکان سوات کیپ ہاؤس بلاکر بڑی حیرت سے پوچھا تھا: ’’سحابؔ! تم بزوگر حاجی صاحب کے پوتے ہو؟‘‘ مَیں نے اثبات میں سر ہلایا، تو کہنے لگے: ’’خدا بخشے، تمھارے دادا ریاستی ملیشا کا حصہ تھے۔ زندگی کے سرد و گرم نے اُنھیں ایک ماہر درزی بنایا تھا۔اس لیے وہ سپاہیوں کے لیے وردی سینے کے کام پر مامور تھے۔‘‘
والدِ محترم کے چچیرے رشید علی، جو کسی دور میں عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رُکن تھے، غالباً مینگورہ سٹی کے نائب صدر ہونے کے علاوہ یونین کونسل لنڈیکس ملکانان کے کسان کونسلر بھی رہ چکے ہیں۔ اُن کے بقول بابا ریاستِ سوات کے ملیشا کا حصہ ہونے کی بنا پر 1965ء کی جنگ لڑنے گئے تھے۔ وہ بابا کو ’’ترہ دادا‘‘ یعنی ’’تایا محترم‘‘ پکارتے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’میری عمر بہ مشکل پانچ چھے سال ہوتی ہوگی۔ مجھے خال خال یاد پڑتا ہے کہ ترہ دادا جنگ سے غازی بن کر واپس آئے، تو اُن کے ساتھ ڈھیر سارے کارتوس تھے۔‘‘
جانان می جنگ کی تورہ اوکڑہ
ماتہ ہمزولی پہ تندی سلام کوینہ
اس حوالے سے والدہ محترمہ اپنی ساس یعنی میری دادی کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتی ہیں: ’’65ء کی جنگ میں مینگورہ سے داجی کے ساتھ لنڈیکس بنگلہ دیش کی جانی پہچانی شخصیت فاتح جان بھی تھے۔‘‘
مَیں نے مذکورہ جنگ کے حوالے سے اُستاد الاساتذہ ڈاکٹر سلطانِ روم سے بات کی، تو اُنھوں نے فرمایا کہ سوات سے 1965ء کی جنگ میں حصہ لینے والے تمام افراد ریاستی ملیشا(ریاستِ سوات کی فوج) کا حصہ تھے۔ نیز ڈاکٹر صاحب نے رواج نامہ کا حوالہ بھی دیا۔
میرے ہاتھ جو رواج نامہ آیا، اُس کے ٹائٹل پیج پر ’’رواج نامۂ سوات‘‘ رقم ہے۔ اس کے مؤلف ’’فیضان ادیبِ سوات‘‘ اور مرتب کنندہ ’’جنید خان‘‘ (سابقہ ڈپٹی کمشنر سوات) ہیں۔ مذکورہ رواج نامے کے صفحہ نمبر 390 اور 391 پر ’’جہادِ کشمیر کے شہدا کے لیے عوضانہ‘‘ کے عنوان سے حکم نمبر 617 اِن الفاظ میں درج ہے: ’’یہ حکم صرف جہاد کشمیر کے شہدا کے لیے مخصوص ہے۔ جہاد کشمیر کے لیے درجِ ذیل شرح کے مطابق معاوضہ دیا جاتا ہے۔
1 ۔ سپاہی = مبلغ ایک ہزار روپے (1000)
2۔ حوالدار = مبلغ بارہ سو روپے (1200)
3۔ جمعدار = مبلغ پندرہ صد روپے (1500)
4۔ صوبیدار = مبلغ ڈھائی ہزار روپے (2500)
5۔ صوبیدار میجر = مبلغ چار ہزار روپے (4000)
6۔ کپتان = مبلغ چھے ہزار روپے (6000)
سپاہی سے لے کر صوبیدار تک جو ملازم شہید ہوجائے اور اس کا کوئی وارث سرکاری ملازمت میں لے لیا جائے۔ تو موجودہ فصل کی برات بھی دی جائے گی۔ اگر اس کا کوئی وارث ایسا موجود نہ ہو۔ جو ملازمت کا قابل ہو، تو اس کے دیگر ورثا، کو رقم عوضانہ کے علاوہ برات بھی دی جائے گی۔
جب کبھی حکومت پاکستان کی طرف سے شہداء کے لیے عوضانہ کی رقم منظور ہوجائے اور یہ عوضانہ درج بالا رقومات سے زیادہ ہو۔ تو اس صورت میں صرف یہی زیادہ رقم شہید کے ورثا کو ادا کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اور رقم نہیں دی جائے گی۔ (مورخہ 21-09-1965)‘‘
اس کے علاوہ صفحہ 391 اور 392 پر ’’فوج کے لیے جہاد کشمیر میں ہفتہ وار فیلڈ الاؤنس‘‘ کے زیرِ عنوان ایک طویل حکم بھی موجود ہے، جسے تحریر کی تنگ دامنی کی وجہ سے جگہ نہیں دی جاسکتی۔
مجھے اپنے بچپن کا دور یاد ہے۔ یہاں تک کہ 85، 86ء کا دور دھندلے عکس کی طرح ذہن کے کینوس پر اب بھی محفوظ ہے۔ وہ ہمارے خاندان کا ایک طرح سے سنہری دور تھا۔ محض پانچ یا چھے سال کی عمر میں بابا مجھے اپنی گردن پر یوں سوار کرتے کہ میرے دونوں پاؤں اُن کے سینے پر لٹکے رہتے۔ مَیں اُن کی چوڑی پیشانی کو اپنے ننھے ہاتھوں سے مضبوطی سے پکڑے رہتا۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہمارے محلہ وزیر مال والے پرانے گھر جہاں مَیں نے جنم لیا تھا، میں ایک بڑا سٹور نما کمرا تھا۔ بابا صبح سویرے جیسے ہی چابی لے کر تالا کھولتے، مَیں معاونت کرنے آدھمکتا۔ سٹور کے اندر گُڑ، دال، لوبیا اور اِس قبیل کی دیگر ضروری اشیا سے بھری بوریاں پڑی ملتیں۔ ہمارا چوں کہ بڑا خاندان تھا جو بڑی اور چھوٹی دادی کے علاوہ میرے تایا، والدِ بزرگوار، تین چچا، ہم دو بھائی، چار تایا زاد بھائی اور چار تایا زاد بہنوں کے علاوہ گھر کی خواتین کو ملا کر لگ بھگ 20، 22 افراد پر مشتمل تھا۔ ہر روز دادا (مرحوم) سٹور سے آٹا، چاول، گھی، مسالا، گڑ وغیرہ تول کر دیا کرتے۔ ذکر شدہ اشیا دو وقت کے کھانے اور تین وقت کی چائے کے لیے کافی ہوتیں۔
لڑکپن تک پہنچا، تو پتا چلا کہ بابا کا شمار محلے کے قابلِ قدر کاروباری اور متمول حضرات میں ہوتا تھا۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں دادا (مرحوم) روئی کے کاروبار میں اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔ 90 ء کی دہائی مجھے خوب یاد ہے۔ محلہ امان اللہ خان میں عظیم خان (مرحوم) کے حجرے کے ساتھ ہماری روئی کی مشین تھی جہاں رضائیاں (بڑستنے، تولایانے، توشکی) تیار کی جاتی تھیں۔ والدہ محترمہ فرماتی ہیں: ’’داجی رستم (مردان) اور فیصل آباد سے بڑی مقدار میں روئی خرید کر لاتے اور سارا سال اسے بیچتے رہتے۔‘‘
بابا کی ایک عادت اُنھیں سب سے ممتاز کرتی۔ اُنھیں دیوانوں سے خاص رغبت تھی۔ نہ صرف دیوانوں کو کھلاتے پلاتے بلکہ اُنھیں اُس وقت کے مطابق کچھ رقم بھی تھماتے۔ مینگورہ شہر کا مشہور دیوانہ ’’ایاز لیونے‘‘ ہر صبح چائے بابا کے ساتھ پیتا تھا۔ ایاز لیونی کا یہ مشہور جملہ میری عمر کے مینگروال کو اَزبر ہوگا: ’’ماما! زما چائے خوخ شی!‘‘
اس طرح بابا خواتین سے بڑے احترام سے پیش آتے۔ اُنھیں احتراماً ’’گلونو‘‘ مخاطب کرتے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ایک بیو ہ کو وزیر مال محلے والے ہمارے پرانے گھر کی دوسری چھت پر قائم ایک حجرہ نما کمرے میں رہنے کی اجازت دی تھی۔ اُس بیوہ کا ہمارا ہم عمر ایک بیٹا تھا، جس کا نام غالباً محمد علی تھا۔ ماں کے ساتھ ساتھ چھوٹی عمر میں محمد علی بھی چھوٹا موٹا کام کرکے دو تین پیسے جوڑ لیتا تھا۔ بعد میں ماں بیٹا دونوں کراچی نقلِ مکانی کرگئے۔
بابا کے ذوق کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ 1975ء میں حج کی سعادت حاصل کرنے گئے، تو واپسی پر آبِ زم زم اور کھجور کے ساتھ ایک عدد بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی بھی اُٹھا لائے۔ بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ وزیر مال محلے میں ملکانان کے بعد دوسری فیملی ہماری تھی، جہاں ٹی وی جیسی نایاب شے موجود تھی۔
ٍ بابا خوش خور تھے۔ جب تک زندہ رہے، خوب کھایا پیا۔ مجھے یاد ہے ہمارے گھر میں دریائے سوات کی مچھلی سرسوں کے تیل میں ایک بڑے توے پر تیار کی جاتی تھی۔ سردی کے موسم میں پیتی، کڑی، لیٹئی، دیسی گھی میں تیار شدہ دیسی مرغ، گھر کا تیار کردہ پلاو اور دیسی انڈے شوق سے تناول فرماتے۔ سرِ شام نشاط چوک کے مشہور ’’ملوک تکو والے‘‘ سے تکا کڑاہی اور ’’بار بی کیو‘‘ (سیخان) شوق سے کھاتے۔ بسیار خوری کی وجہ سے عمر کے آخری حصے میں دل کے عارضے میں مبتلا ہوئے۔ ذاتی معالج اُن پر پرہیز کے لیے زور ڈالتے، مگر بابا اُن کی ایک نہ سنتے۔ اس وجہ سے سنہ 1996ء کو اُنھیں دل کا دورہ پڑا، جو جان لیوا ثابت ہوا۔
دادی (مرحومہ) فرماتی تھیں کہ انتقال سے دس پندرہ دن پہلے ایک تکیے سے کور نکال کر اُس میں ڈھیر سارے نوٹ ڈال دیے۔ دادی (مرحومہ) کے بقول: ’’ پوچھا کہ حاجی صاحب! اتنی بڑی رقم کہاں لے کر جا رہے ہیں؟ تو جواباً کہا کہ کچھ کام عاقبت سنوارنے کے لیے ہوا کرتے ہیں۔ اتنا کہنے کے بعد پیسوں سے بھرا تکیے کا کور ساتھ لے گئے۔‘‘
اُن دنوں تبلیغی مرکز کے لیے تختہ بند کے مقام پر ایک بڑی عمارت زیرِ تعمیر تھی۔ گمان کیا جاتا ہے کہ بابا نے مذکورہ رقم مرکز کی انتظامیہ کے حوالے کی ہوگی۔
1996ء میں اچھی خاصی نقد رقم، زبردست کاروبار اور جائیداد (چار رہایشی گھر، پرانی سبزی منڈی میں ایک قیمتی دُکان اور وزیر مال محلہ میں زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا) جس کی مالیت کا اندازہ اُس وقت کروڑوں میں لگایا جاتا تھا، محض چار سال بعد یعنی 2000ء میں نہ صرف پورا خاندان اپنی نااہلی کی بنا پر تتر بتر ہوا، بلکہ باقاعدہ مقروض ہوا۔
زمینِ چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔