سال 2008ء اور سال 2018ء کے عام انتخابات جوڈیشل اور ایگزیکٹو افسران کے تحت منعقد ہوئے تھے۔ حیرانی اس بات پر ہورہی ہے کہ تحریکِ انصاف آیندہ انتخابات جوڈیشل افسران کے تحت منعقد کروانے کا مطالبہ کررہی ہے، مگر سال 2013ء کے انتخابات جو مکمل طور پر جوڈیشل افسران کے تحت منعقد ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں دھاندلی کا سب سے زیادہ شور بھی تحریکِ انصاف نے ڈالے رکھا اور انتخابات کا نام ہی آر اُوز کا الیکشن رکھ دیا گیا تھا۔ عمران خان نے سال 2013ء انتخابات میں اُس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، سپریم کورٹ کے جج خلیل الرحمان رمدے پر براہِ راست دھاندلی کے الزامات عاید کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشہورِ زمانہ 126 روزہ دھرنا بھی جوڈیشل افسران کی زیرِ نگرانی منعقدہ انتخابات کے خلاف ہی دیا تھا۔ ایک طرف انتخابی شیڈول جاری کرنے کی تاریخ قریب آئی۔ اُدھر تحریک انصاف نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر عمیر خان نیازی نے رٹ پٹیشن دائر کی کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 5 0(1) (b) اور سیکشن 5 1(1) جن کے تحت ایگزیکٹوز یعنی وفاقی/ صوبائی حکومتی افسران کو بھی ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران مقرر کیا جاسکتا ہے۔ آئینِ پاکستان سے متصادم ہیں لہٰذاالیکشن ایکٹ کے مذکورہ سیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
اس پیٹشن پر لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل یک رُکنی بینچ کی جانب سے عام انتخابات ایگزیکٹوز سے کروانے کے الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کو معطل کرنے کے حکمِ امتناعی نے پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کردیا۔ فروری میں ہونے والے عام انتخابات کی بابت غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہوگئی۔ تحریکِ انصاف کے حامی ایک طرف ہائیکورٹ کے حکم نامہ کو اپنی فتح قرار دے رہے تھے، جب کہ اس کے برعکس ہائیکورٹ کے حکم نامہ سے عام انتخابات کے انعقاد میں مزید تاخیر کا شکار ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔
عدالت نے انتخابات ایگزیکٹو سے کروانے کے خلاف درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل دینے کی سفارش کی، یعنی جب تک لاہور ہائیکورٹ کا لارجر بینچ عمیر خان نیازی کی رٹ پٹیشن پر حتمی فیصلہ جاری نہ کرے، تب تک الیکشن کمیشن نہ تو الیکشن شیڈول جاری کرپاتا اور نہ انتخابات کے لیے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کو متعین کرنے کا نوٹیفکیشن جاری ہوسکتا۔
حیران کن امر یہ ہے کہ سال 2017ء سے لے کر آج تک تحریکِ انصاف یا کسی اور جماعت نے الیکشن ایکٹ کے مذکورہ سیکشن پر کوئی اعتراض نہیں اُٹھایا۔ یاد رہے سال 2018ء کے عام انتخابات سے لے کر آج تک ہونے والے تمام ضمنی انتخابات الیکشن ایکٹ کے مذکورہ سیکشن کے تحت ہی منعقد ہوئے تھے۔ اس ناگہانی صورتِ حال میں چیف الیکشن کمشنر نے چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کی اور اُنھوں نے سپریم کورٹ ججوں کو لاہور ہائیکورٹ کے حکمِ امتناع سے متعلق آگاہ کیا۔ اس ملاقات کے فوراً بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت لاہور ہائیکورٹ کے حکمِ امتناع کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کردی گئی۔ ہنگامی بنیادوں پر اس درخواست کی شنوائی کے لیے سپریم کورٹ کا کمرہ نمبرایک کھول دیا گیا اور پھر ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے جاری کردہ حکمِ امتناع کو معطل کردیا۔ سپریم کور ٹ کے حکم نامہ نے جہاں ایک طرف 8 فروری انتخابات کو یقینی بنانے پر مہر ثبت کردی، وہیں پر انتخابی پراسس میں رکاوٹ ڈالنے کی پاداش میں بیرسٹر عمیر خان نیازی کی درجِ ذیل الفاظ میں سرزنش کی:
بیرسٹر عمیر خان نیازی جو ایک بیرسٹر بھی ہیں اور ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے کا دعوے دار بھی اور اپنی جماعت کے دورِ حکومت میں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل، پنجاب کے طور تعینات رہ چکا ہو،تو ایسے شخص سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ آئین سے بخوبی واقف ہوں گے اور اُنھوں نے سپریم کورٹ کا 8 فروری انتخابات کا فیصلہ بھی پڑھا ہوگا۔ جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ’جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے کسی کو کوئی بہانہ پیش کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔‘ ایسے شخص کا طرزِ عمل وضاحت طلب ہے کہ کیوں نہ ایسے فرد کے خلاف آئین کے آرٹیکل 204 اور توہینِ عدالت آرڈیننس 2003ء کے تحت توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کی جائے؟
دیگر متعلقہ مضامین:
انتخابات بہر صورت 8 فروری کو ہوں گے
انتخابات کے التوا کا خدشہ
ایک ملین ڈالر کا سوال، انتخابات بروقت ہوں گے؟
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا الیکشن کمیشن جوڈیشل افسران کے علاوہ ایگزیکٹوز کو ضلعی ریٹرننگ افسران تعینات کرسکتا ہے؟ اس کا جواب ہے: ’’جی ہاں!‘‘ الیکشن کمیشن ایگزیکٹوز کو بھی ریٹرننگ افسر تعینا ت کرسکتا ہے۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 50 اور 51 الیکشن کمیشن کو بااختیار کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن اپنے محکمہ کے اپنے افسران کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کی جانب سے مہیا کردہ افسران اور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت کے ساتھ ماتحت عدلیہ یعنی ضلعی عدالتوں کے جوڈیشل افسران کو ڈسٹرک ریٹرننگ اور ریٹرننگ افسران تعینات کرسکتا ہے۔
سماعت کے دوران میں الیکشن کمیشن کے وکلا نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران کے تعین کے لیے پاکستان کی پانچوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو درخواستیں ارسال کیں کہ آیندہ انتخابات کے لیے جوڈیشل افسران فراہم کریں اور کسی بھی چیف جسٹس نے ایسا کرنے پر رضامندی ظاہر نہیں کی۔ اس درخواست کے جواب میں لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک خط میں خصوصی طور پر کہا گیا ہے کہ جوڈیشل افسران کوالیکشن ڈیوٹی کے لیے مہیا نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ ماتحت عدالتوں میں تقریباً 13 لاکھ مقدمات زیرِ التوا ہیں اور ایسے میں جوڈیشل افسران کی الیکشن کمیشن کو فراہمی سے زیرِ التوا مقدمات میں اضافہ ہوگا، جس کا سب سے زیادہ نقصان سائلین کو ہوگا۔
یاد رہے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 55 کے تحت الیکشن ڈیوٹی کے لیے متعین جوڈیشل یا وفاقی یا صوبائی ایگزیٹوز افسران کے خلاف انتخابی مراحل کے دوران میں ہر قسم کے مس کنڈکٹ کی صورت میں الیکشن کمیشن تادیبی کارروائی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔لہٰذا اگر کسی فرد کو ریٹرننگ افسران کے خلاف کوئی شکایت ہو، تو وہ الیکشن کمیشن یا کسی بھی عدالتی فورم پر شکایت درج کرواسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ کسی افسر کے خلاف ایسی کوئی بھی شکایت کسی بھی فورم پر درج نہیں کروائی گئی۔ بہرحال ہنگامی بنیادوں پر سماعت اور حکم نامہ جاری کرنے کی بنا پر عام انتخابات میں تاخیر کی سازش کو سپریم کورٹ نے ناکام بنا دیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔