ذیابیطس (شوگر)، خاموش قاتل

Blogger Rana Ijaz Hussain Chohan

آج دورِ جدید میں شوگر ( ذیابیطس) کے مرض کی تشخیص تو ممکن ہے، مگر اس کا موثر علاج جس سے یہ مرض بالکل ختم ہوجائے، اَب تک ایجاد نہیں ہوسکا ہے۔
شوگر (ذیابیطس) وہ مرض ہے جو دیمک کی طرح خاموشی سے انسانی جسم کے اندرونی اعضا کو چاٹ جاتا ہے اور اگر اس کے بارے میں بروقت معلوم نہ ہوسکے، تو یہ بینائی کی محرومی سے لے کر گردوں کے فیل ہونے اور دیگر لاتعداد طبی مسائل کا سبب بنتا ہے۔ ماہرینِ امراض، ذیابیطس نے انکشاف کیا ہے کہ تقریباً ہر چوتھا بالغ پاکستانی اس بیماری کا شکار ہوچکا ہے اور یہ مرض ایک خاموش قاتل بن چکا ہے۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
ایک اندازے کے مطابق صرف پاکستان میں ہر سال تقریباً 4 لاکھ افراد کے پیر کاٹ دیے جاتے ہیں۔ کیوں کہ ذیابیطس کے مرض میں پاؤں کا زخم ہونا ایک بنیادی پیچیدگی ہے۔
ماہرینِ صحت کے مطابق ذیابیطس کے اسباب فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ کا استعمال، موٹاپا، تمباکو نوشی اور ورزش نہ کرنا ہے…… جب کہ ذیابیطس کا مرض جسم میں انسولین کی مقدارغیر معتدل ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔
درحقیقت انسان جو بھی خوراک کھاتا ہے، اُس کا اکثر حصہ خاص طور پر میٹھی اور نشاستہ دار اشیا شوگر میں تبدیل ہوتی ہیں۔ اُس شوگر کو گلوکوز کہتے ہیں، اور یہ گلوکوز جسم کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ انسانی جسم میں معدہ سے ذرا نیچے لبلبہ (Pancreas) ہوتاہے، جو انسولین نامی ہارمون پیداکرتا ہے، جو گلوکوز کی مقدار کو حدود میں رکھتا ہے، اور ساتھ ہی یہ ممکن بناتا ہے کہ ہمارے عضویات خون کے ذریعے سے گلوکوز حاصل کرسکیں، اگر ایسا نہ ہو تو پھر انسانی جسم میں شامل چربی ہی توانائی کا ذریعہ رہ جاتی ہے۔
ذیابیطس کا مرض لاحق ہونے پر بنیادی طور پر یہ ہوتا ہے کہ لبلبہ صحیح کام نہیں کرتا اور ضروری مقدار میں انسولین خارج نہیں ہوتی، یا پھر یہ ہوتا ہے کہ خلیات انسولین کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خون میں گلوکوز کی مقدار متوازن میں نہیں رہتی، جس کے نتیجے میں تمام عضویات پر برا اثر پڑتا ہے، جب کہ سب سے برا اثر خون کی شریانوں پر ہوتا ہے۔
بنیادی طور پر ذیابیطس کی دو قسمیں ہیں:
٭ اول جس میں جسم میں انسولین قطعاً نہیں بنتی۔ یہ بیماری کبھی بھی نمودار ہو سکتی ہے، مگر عموماً بچپن سے ہی لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کا علاج مستقل انسولین لیتے رہنا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ خون میں گلوکوز کی مقدار سے آگاہ رہنا بھی ضروری ہے، تاکہ انسولین کی صحیح مقدار لی جاسکے۔ کچھ صورتوں میں خون میں گلوکوز کی مقدار بہت زیادہ یا بہت کم ہو سکتی ہے، لہٰذا محتاط رہنے کی ضرورت رہتی ہے۔
٭ دوسری قسم کی ذیا بیطس میں یہ ہوتا ہے کہ خلیات اور ٹشوز میں انسولین کے ساتھ کام کرنے والے کیمیائی اجزا صحیح طریقے سے اپنا عمل سرانجام نہیں دے پاتے، جس کے نتیجے میں وہ نظام جس کو انسولین کی آمد کے بعد کام کرنا ہوتا ہے، یہ اندازہ نہیں لگا پاتا کہ انسولین کی مقدار کتنی ہے؟ نتیجے میں جسم کو گلوکوز کی صحیح مقدار حاصل نہیں ہو پاتی۔ نتیجہ گلوکوز کی زیادتی یا کمی دونوں صورتوں میں نکل سکتا ہے۔ ذیابیطس کی یہ قسم زیادہ عام ہے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کس ملک کی آبادی شوگر سے سب سے زیادہ متاثر ہے؟ 
پاکستان میں شوگر کے مریضوں میں خطرناک اضافہ 
بلڈ شوگر کو کنٹرول میں رکھنے کا ٹوٹکا 
شوگر فری مصنوعات نظامِ ہاضمہ کے مسائل کا باعث بنتے ہیں
ذیابیطس کی عمومی علامات میں دھندلا نظر آنا، چکر آنا، مستقل پیاس لگنا، تیزی سے وزن گرنا، بھوک لگتے رہنا اور بہت زیادہ پیشاب آنا شامل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان علامات کا خیال رکھا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ذیابیطس پر نظر رکھی جائے اور وقتاً فوقتاً ذیابیطس کا ٹیسٹ کروایا جائے، جب کہ 40 سال سے زیادہ عمر کے خواتین و حضرات کو ذیابیطس سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذیابیطس موروثی اثرات کی بنا ہ پر بھی ہوسکتا ہے، یعنی ماں باپ یا ان کے والدین اگر ذیابیطس کے مریض رہے ہیں، تو اگلی نسل میں ذیابیطس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ذیابیطس کے اثرات پورے جسم پر پڑتے ہیں اور لمبے عرصے میں خاصی مشکلات پیش آ سکتی ہیں، جیسے آنکھوں اور بینائی پر اثرات، بلند فشارِ خون یا ہائی بلڈ پریشر اور ان کے نتیجے میں دل کی بیماریاں، جلد کی بیماریاں، پورے جسم خصوصاً ٹانگوں پر چوٹوں کا ٹھیک نہ ہونا، گردوں کی بیماریاں، اس کے علاوہ یہ رگوں اور شریانوں پر بھی اثر انداز ہو تا ہے…… اور بہت سی جان لیوا بیماریوں کی وجہ بن سکتاہے۔
بظاہر ذیابیطس اور دل کے عوارض دو مختلف چیزیں ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ذیابیطس میں مبتلا افراد کی اکثریت کئی ایک پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ ان پیچیدگیوں میں امراضِ قلب سر فہرست ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس دونوں میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ معاملے کا سنگین پہلو یہ ہے کہ جب یہ دونوں بیماریاں مل جائیں، تو سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ یہ دونوں امراض، ایک دوسرے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر پر کنٹرول اس اعتبار سے اہم ہے کہ بہت سی صورتوں میں صرف احتیاط ہی سے یہ مرض کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
ذیابیطس سے بچنے کے لیے ذیل میں دیے گئے اقدامات ضروری ہیں:
وزن کو بڑھنے نہ دینا، پوری نیند لینا، دن میں جاگنا رات میں بروقت سونا، غذا میں توازن رکھنا، سبزیوں کے استعمال سے پروٹین کا مناسب حصول، زیادہ چکنائی اور نشاستہ سے بھری غذاؤں سے اجتناب کرنا، گوشت، جمنے والی چکنائیوں، مکھن، بناسپتی گھی اور مارجرین وغیرہ کا استعمال ترک کرنا…… کیوں کہ ان سے کولیسٹرول کی سطح بڑھ سکتی ہے۔ مناسب یہی ہے کہ مغزیات جیسے مونگ پھلی، زیتون کاتیل، کینولا کا تیل، چکنی یا روغنی مچھلی وغیرہ کھائے جائیں۔
خصوصاً روزانہ کم ازکم 30 منٹ کی ورزش کی عادت اپنائی جائے۔ تمام معا لجین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر شوگر کا مریض ورزش کو اپنے معمول کا حصہ بنالے، تو وہ شوگر کے اثراتِ بد سے محفوظ رہ کر پُرلطف زندگی گزار سکتا ہے۔ کیوں کہ ورزش سے اس مرض کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے، اور ورزش بالواسطہ طور پر لبلبے کو تحریک دے کر انسولین کے افراز میں اضافہ کرتی ہے اور انسانی جسم میں انسولین لیول متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے