بدقسمتی سے ملکِ عزیز میں جمہوریت کا حال ماضی سے لے کر حال تک مخدوش اور پتلا رہا ہے۔ مستقبلَ قریب میں بھی اس میں بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے کہ ہمارے اداروں اور سیاست دانوں نے ماضی کے تجربات اور غلطیوں سے سبق حاصل کرنے اور ذمے داروں کے انجام سے سیکھنے کی بجائے اسی روش کو اپنا رکھا ہے۔ قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی مائنس پلس کا گندا کھیل شروع ہوگیا تھا، جس نے آج تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ سیاست دان جمہوریت کی بقا اور مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتے تھے، مگر اُنھوں نے اپنی باری کا انتظار کرنے کی بجائے مہرہ بننے اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا عمل شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست دان مہرے بن کر رہ گئے۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور جانے کب تک جاری رہے گا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف جی بھر کر سازشیں کیں۔ اقتدار کے لالچ میں غیر سیاسی قوتوں سے مصافحہ کے ساتھ ساتھ معانقہ بھی کیا۔ ایک دوسرے کو مائنس کرنے کے لیے دونوں پارٹیاں دوسروں کے ہاتھ میں اپنی ڈوریں تھما کر پتلی کی طرح رقص کرتی رہیں۔ ملکی مفاد پر ذاتی اور پارٹی کے مفاد کو ترجیح دی جاتی رہی۔ نتیجے کے طور پر ملک اور سیاسی ادارے کم زور ہوتے چلے گئے۔ سیاسی میدان کو ان مذکورہ پارٹیوں نے اس قدر حبس زدہ کر دیا کہ بالآخر ان کا اپنا دم بھی گھٹنے لگا۔ دونوں پارٹیاں نیم مردہ یا نیم جاں ہوگئیں۔ بقولِ شاعر
لڑتے لڑتے ہوگئی گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دم
دُم اور چونچ کٹوانے کے بعد اُنھیں احساس ہوا کہ ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں تماشا بن کر رہ گئے۔ بھرم بھی ختم ہوگیا اور بے در بھی ہوگئے۔ بہت کچھ لٹانے کے بعد اُنھیں ہوش آیا کہ اپنی طاقت پر گھمنڈ کرتے ہوئے بے کار میں ایک دوسرے کے ساتھ برسرِ پیکار رہے۔ طاقت ور تو کوئی اور ہے
پُتلی کی طرح ’اُس‘ کے اشاروں پہ چلے ہم
اِک بار کہا اُس نے سو بار ہوئے رقصاں
بے گھر اور بے در ہونے کے بعد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو اپنی غلطیوں کا ادراک ہوا اور 14 مئی 2006ء کو پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ’پاکستان مسلم لیگ ن‘ اور ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ کے درمیان لندن میں میثاقِ جمہوریت کے نام سے آٹھ صفحات پر مشتمل معاہدہ ہو گیا۔ اس معاہدے میں مشرف حکومت کی طرف سے متعارف کرائی گئی آئینی ترامیم، جمہوریت میں فوج کی حیثیت، نیشنل سیکورٹی کونسل، احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں دونوں جماعتوں کے مشترکہ نکتۂ نظر کو بیان کیا گیا۔ جولائی 2007ء میں نواز لیگ کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی پارٹیوں میں صدر کی وردی کے معاملے اور استعفا دینے کی بات پر اختلافات سامنے آئے، جس کے بعد پیپلز پارٹی کے بغیر نواز شریف نے اے پی ڈی ایم بنائی اور اس طرح سے دونوں سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کا نتیجہ صفر رہا، مگر اس سے دونوں پارٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا ایک موقع ضرور ملا، جس نے دونوں طرف نرم گوشہ پیدا کیا۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا، تو آصف زرداری نے ماضی کی روایات کے برعکس بردباری اور تدبر سے کام لیا۔ حالاں کہ آصف زرداری بذاتِ خود اندھے سیاسی انتقام کا نشانہ بن کر 11 سال جیل میں گزار چکے تھے، مگر 2008ء تا 2013ء پیپلز پارٹی کے دَور میں کوئی ایک سیاسی مقدمہ نہیں بنا اور نہ کوئی سیاسی گرفتاری ہی ہوئی۔ اس دور کی سب سے بڑی یادگار 18ویں ترمیم تھی، جس نے صوبوں کو بہت زیادہ بااختیار بنا دیا۔ مسلم لیگ ن نے اپوزیشن کا کردار نبھایا اور اس پر ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا ٹھپا بھی لگایا گیا، مگر اس نے حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہی تاریخ 2018ء میں برسرِ اقتدار آنے والی مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران میں دہرائی گئی۔ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کا مثبت کردار نبھایا۔
دونوں دلہنوں کے اس اتحاد سے ’’پِیا‘‘ ناراض ہوچکا تھا، لہٰذا اُن دونوں کو طلاق دے کر تیسری دلہن بیاہی گئی۔ اب کے مہرہ عمران خان بنے تھے۔ اُنھوں نے اقتدار میں آنے کے بعد واجب اور غیر واجب تمام قرض چکانے شروع کر دیے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اُنھوں نے اپوزیشن پارٹیوں کو دیوار سے لگانے کے لیے پورا زور لگا دیا۔ عمران خان نے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کی میثاقِ معیشت کی پیش کش کو نہ صرف حقارت سے ٹھکرا دیا، بلکہ کسی بھی قسم کے قومی یا سیاسی معاملے پر بات چیت تک کرنے سے یہ کَہ کر انکار کر دیا کہ وہ چوروں کے ساتھ کبھی نہیں بیٹھیں گے۔ سیاست میں یہ سراسر غیرسیاسی رویہ تھا، مگر وہ اپنے آپ کو ’’سدا سہاگن‘‘ سمجھنے کی غلطی کرتے کرتے اپنے آپ کو سچ مچ کا حکم ران بھی سمجھنے لگ گئے۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ اُن سے وقتی علاحدگی کا فیصلہ کیا گیا، تاکہ وہ سکون سے بیٹھ کر غور و فکر کرسکیں، مگر وہ نچلے بیٹھنے والے تھے ہی نہیں۔ چناں چہ شدید احتجاج نے اُنھیں 9 مئی تک پہنچا دیا اور نوبت علاحدگی سے طلاق تک پہنچ گئی۔
2008ء سے 2018ء تک جو سکون رہا تھا، اب وہ سکون پھر بے سکونی میں بدل چکا ہے۔ عمران خان کو اُنھی کے سکوں میں جواب دینے کے لیے مخالفین نے ’’رجوع‘‘ کر لیا ہے۔ نگران وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے یہ بیان دے کر کہ الیکشن عمران خان کے بغیر بھی ہو جائے گا، ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ان کے بیان سے یہ تاثر لیا جا رہا ہے کہ عمران خان کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ ابھی اس بیان سے اُٹھنے والے طوفان کی گرد تھمی بھی نہ تھی کہ اُنھوں نے لندن میں تازہ بیان دے دیا ہے کہ اگر تحریکِ انصاف بیلٹ پیپر پر نہ بھی ہو، تو انتخابات قانونی ہوں گے۔ دیکھا جائے، تو یہ بیان الارمنگ ہے۔ اس سے یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ تحریکِ انصاف کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ میاں نواز شریف کے خلاف عمران خان نے جو سازش کی تھی، آج خود اُسی کا شکار ہیں۔ شاید یہ مکافاتِ عمل ہے یا وقت کا جبر کہ آج وہ اڈیالہ جیل کے اُسی سیل میں قید ہیں، جہاں اُن کی حکومت میں نواز شریف قید تھے، جب کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
سیاست دانوں نے بہت کچھ گنوا کر اور بہت کچھ سیکھ کر بھی کچھ نہیں سیکھا۔ سیاست دان پھر پرانی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔ کردار بدل گئے ہیں، مگر روایات وہی ہیں۔ ’’مائنس ون‘‘ کا فارمولا ایک مرتبہ پھر اپنایا جا رہا ہے جس نے ماضی میں پاکستان کا بہت نقصان کیا تھا۔ سیاسی اختلاف، سیاسی مخالفت سے ہوتا ہوا اب سیاسی دشمنی میں بدل چکا ہے۔ یہ صورتِ حال ملک کے لیے کسی طور فائدہ مند نہیں۔ پاکستان کی ترقی، بقا اور خوش حالی اسی میں ہے کہ مائنس ون کا فارمولہ سیاست سے مائنس کردیا جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔