ماسٹر محمد جان لوہارؔ کے فرزندِ ارجمند بخت سلیمان شہاب کی یاد میں 1975ء میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا ،جس کی صدارت سوات کے نامی گرامی شاعر خانے قصاب نے کی تھی۔ مہمانِ خصوصی پاکستان نیشنل سنٹر مینگورہ اے آر ڈی عنایت اللہ خان تھے۔ سٹیج سیکرٹری رحیم شاہ رحیمؔ تھے۔ اس مشاعرے کا اہتمام ’’سوات پختو ادبی ٹولنہ‘‘ کی جانب سے کیا گیا تھا۔ نور محمد شاہ غوبہ جان استاد نے تلاوتِ کلام پاک سے مشاعرے کا آغاز کیا۔ اس کے بعد رحیم شاہ رحیمؔ نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ جہان زیب کالج کے پروفیسر محمد ہیراج ایرجؔ بخت سلیمان شہاب کی قبر پر شاعری کی زبان میں یوں گویا ہوئے:
تش گوگل زہ پہ بورجل کے د جوندون ناست یم
پہ تکل کے د اجل نن پرون ناست یم
اے ایرجہؔ جگر گوش د محمد جان لو ہار لاڑ شو
فضل محمود روخان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-e-mahmood-rokhan/
اس کے بعد قوی خان غمگینؔ، بابوزے خاورینؔ، ملا طوطی رحمان اور نعمت اللہ اخون نے یکے بعد دیگرے اپنا کلام سنایا۔ اس کے بعد غوبہ جان استاد نے اپنا کلام پیش کیا:
دا ارام لاڑ شو زمانہ کہ مے جان لاڑ شو
چی می پری سترگی خوگیدے ہاغہ انسان لاڑ شو
غوبہ جان استاد کے بعد محترم میاں سید بادشاہ باچا نے اپنا کلام یوں پیش کیا:
دا آرام لاڑ شو زمانہ کہ مے جان لاڑ شو
فرزند غوخے د زڑگی د محمد جان لاڑ شو
محترم عبدالغنی قصاب نے اپنا مرثیہ پیش کیا۔ پھر محترم میاں ہمیش گل مخلصؔ کچھ اس انداز سے گویا ہوئے:
ہمیشہ چی پرے گلونہ د گلشن وو تازہ
ہم ہاغہ گلشن تہ ناساپہ خزان لاڑ شو
اس کے بعد محترم عزیز الرحمان عزیزؔ طالب نے اپنا کلام ترنم میں پیش کیا:
لگ خبر می کڑئی دَ حالہ دَ لوہار خلقہ
لا جوندے دے کہ پہ لور د گورستان لاڑ شو
’’ٹولنہ‘‘ کے ناظمِ اعلا رحیم شاہ رحیمؔ نے اپنے شاعرانہ جذبات کو یوں زباں دی:
آ شہاب چی منور ئے پہ رنڑا وہ جہان
یو پڑق سرہ زمونگ نہ ناگہان لاڑ شو
فیضانِ سوات فضل الرحمان فیضانؔ نے اپنے اشعار یوں سنائے
تہ بخت دَ سلیمان وے، خو لوہار لرہ نہ
تہ لعل وے د ہیرو خو د چا ہار لرہ نہ
تہ خکلے یو فر زند وے خو خپل پلار لرہ نہ
وجود دے قیمتی وو خو ارزان لاڑ شو
محمد جان لوہارؔ نے بھی اپنا مرثیہ پیش کیا جس نے حاضرین کو رونے پر مجبور کیا۔
اُن کے بعد محترم حلیم سرحدی نے بھی اپنا مرثیہ حاضرین کے گوش گزار کیا۔ دیگر شعرا جن میں دلاور خان، انعام اللہ، محمد حسن، جہانگیر، ندیم، محمد زرین، رشید اور حسن زیب نے اپنے اپنے مرثیے سنائے اور اس طرح یہ محفل ملا طوطی رحمان بابا کے دعائیہ کلمات اور اس امید پر اختتام پذیر ہوا کہ آیندہ کسی خوشی کے موقع پر دوسری ادبی محفل کا انعقاد ہوگا۔
یہ ٹپہ بھی محفل میں پیش کیا گیا تھا کہ
خاوندہ مرگ د زوانئ راکڑے
چہ جنازہ می دَ ڈولئی پہ شانے وڑینہ
قارئین! 1975ء کے مذکورہ مشاعرے کی روداد لکھنے سے میری مدعا یہ ہے کہ اُن شعرا میں سے اب چند زندہ ہیں۔ باقی اس فانی دنیا سے کوچ کرگئے ہیں اور اب ہماری دعاؤں کے محتاج ہیں۔
ایک بات اور بتانا چاہوں گا کہ مَیں اُس دور میں ادب سے کوسوں دور تھا۔ مجھے اس مشاعرے کا پتا بھی نہیں تھا۔ یہ تو میرا ایک جاننے والا تھا جس نے مجھے ایک بوسیدہ سا کتابچہ عنایت کیا تھا جو بنام ’’نیم خوا جوند ادبی پختو ٹولنہ سوات‘‘ کی طرف سے شائع کیا گیا تھا۔
اس روداد کو لکھنے کی تحریک مذکورہ کتابچے نے دی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔