سوات، انتخابات کی تیاریاں اور بدامنی پھیلانے کی کوشش

Politics in Swat

اگلے عام انتخابات کے لیے ملک بھر کی طرح سوات میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے انتخابی مہم اور سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے، لیکن جیسے ہی سابقہ حکومت ختم اور نگران حکومت آئی ہے…… سوات میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے ایسی حرکتیں سامنے آرہی ہیں، جن کے اثرات آنے والے انتخابات اور ٹرن آو ٹ پر ضرور پڑیں گے۔
فیاض ظفر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz-zafar/
صوبہ خیبر پختون خوا میں پشاور کے بعد سب سے زیادہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں سوات اور مردان میں ہیں…… جس کی وجہ سے تمام سیاسی جماعتوں کی نظریں پشاور کے بعد ان دو اضلاع پر ہوتی ہیں۔
سوات میں قومی اسمبلی کی 3 اور صوبائی اسمبلی کی 8 نشستیں ہیں۔ سوات کو سیاست میں اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ سابق وزیرِ اعلا محمود خان اور مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام کا تعلق بھی یہاں سے ہے۔
اس وقت سوات میں تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں اپنی انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کرچکی ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سابق مرکزی عہدے دار اور سابق صوبائی وزیر واجد علی خان کے لیے جب پارٹی کے صوبائی صدر نے پارٹی میں جگہ تنگ کی، تو اُنھوں نے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ شمولیتی تقریب میں صوبائی صدر امیر مقام کا خطاب ایک طرح سے سوات میں انتخابی مہم کا آغاز تھا۔
تحریکِ انصاف کے سابق ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی ڈاکٹر حیدر علی خان کی جانب سے پیپلز پارٹی میں شمولیت اور انتخابی جلسے میں اُس وقت کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شرکت کو بھی انتخابی مہم کا آغاز سمجھا گیا۔
اے این پی کی جانب سے تقریباً تمام حلقوں پر امیدواروں کے ناموں کے اعلان اور گذشتہ روز مدین میں اے این پی کے ورکز کنونشن سے سابق وزیرِ اعلا امیر حیدر خان ہوتی کا خطاب بھی اے این پی کی جانب سے انتخابی مہم کا آغاز تھا۔
جماعتِ اسلامی بھی سوات کے تمام حلقوں میں امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرچکی ہے۔ سال 2008ء میں جب عام انتخابات ہورہے تھے، تو اُس وقت سوات میں دہشت گردوں کا راج تھا اور ٹرن آوٹ نہ ہونے کے برابر تھا۔
اب جب دوبارہ عام انتخابات قریب آرہے ہیں، تو ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) سوات اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی اُو) سوات نے مل کر دوبارہ سوات میں بد امنی پھیلانے کی کوشش شروع کردی ہے، جس کی وجہ سے سوات کے سیاسی حلقوں اور عام لوگوں میں خوف وہراس پایا جاتا ہے۔
سوات پولیس اور ڈپٹی کمشنر کی جانب سے سیاسی جماعتوں کے سابق ممبرانِ اسمبلی اور موجودہ منتخب بلدیاتی نمایندوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مینگورہ شہر (بابوزئی) کے 40 ہزار ووٹ لینے والے میئر شاہد علی خان سے سوات پولیس نے سیکورٹی واپس لے لی ہے…… اور اُن کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اُن کے خلاف متعدد ایف آئی آریں درج کردی گئی ہیں، جن میں اُن کے خلاف ایک ایف آئی آر اس وجہ سے درج کی گئی ہے کہ اُنھوں نے 14 اگست کو جشنِ آزادی کے موقع پر پاکستان کا جھنڈا اُٹھا کر آزادی کی خوشی میں ریلی نکالی تھی۔
دوسری طرف سوات کے ڈپٹی کمشنر جس کو اَب سوات کے لوگ ’’تھری ایم پی اُو ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں، اُس نے اتنے سیاسی افراد کو تھری ایم پی اُو میں جیل میں بند کیا ہے، جس کی سوات کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔
سوات پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور عہدے داروں کو متواتر ہراساں کیا جارہا ہے۔ تحریکِ انصاف کے بعض عہدے داروں اور کارکنوں کو ماورائے عدالت گھروں سے اُٹھا کر پولیس کے عقوبت خانوں میں رکھ کر اُنھیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سابق اراکینِ اسمبلی کی گرفتاری، اُن کے گھروں پر چھاپے، چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرنے جیسے افعال تو سوات میں عام ہوچکے ہیں، لیکن چند دن قبل سادہ لباس میں ملبوس سوات پولیس کے اہل کار بغیر سرچ وارنٹ کے کانجو ٹاؤن شپ میں دیواریں پھلانگ کر انجینئر اسرار الدین کے گھر داخل ہوئے۔ اُن کو بیڈ روم سے اُٹھا کر اِغوا کرلیا۔
اُسی رات پولیس اہل کاروں نے بانڈئی سے خورشید احمد دادا کو بھی اُن کے بیڈ روم سے اِغوا کیا، نامعلوم مقام پر لے گئے اور چند دن تشدد کا نشانہ بنا کر ہی اُن کو چھوڑ دیا۔
سبزی منڈی کے قریب دو پولیس اہل کاروں کا بھرے بازار میں قتل، تلیگرام پولیس چوکی ملم جبہ روڈ پر پولیس چوکی پر حملہ، مصروف ترین مینگورہ کالام روڈ پر فضاگٹ کے مقام پر نامعلوم افراد کی جانب سے موٹر کار پر فائرنگ اور پھر لاشوں کو گاڑیوں میں ساتھ لے جانا، کالام سے مٹلتان تک کالعدم تحریک طا لبان کی جانب سے ’’وال چاکنگ‘‘ جیسے واقعات کو لوگ سوات پولیس کے موجودہ سربراہ سے جوڑتے ہیں۔
لوگوں کا خیال ہے کہ کچھ ملک دشمن عناصر آیندہ انتخابات سے پہلے سوات کے امن کو خراب اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلانا چاہتے ہیں۔
اس تمام تر صورتِ حال میں جب صحافیوں نے حقیقت منظرِ عام پر لانے کی کوشش کی، تو ڈپٹی کمشنر سوات نے ڈی پی اُو کی درخواست پر ایک صحافی کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر تھری ایم پی اُو کے تحت ایک ماہ کے لیے سوات جیل بھیج دیا، لیکن نگران وفاقی حکومت، وزیرِا طلاعات، چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کے حکم پر ڈپٹی کمشنر سوات نے اگلے دن اپنا حکم واپس لے کر صحافی کو رہا کردیا۔ اس کے اگلے روز ڈی پی اُو نے ایک اور سینئر صحافی امجد علی سحابؔ کے خلاف تھانہ مینگورہ میں ایف آئی آر درج کرادی، جو اِس وقت ضمانت قبل از گرفتاری پر ہیں۔
اب سوات کے عوام کا مطالبہ ہے کہ آیندہ انتخابات سوات میں پُرامن ماحول میں کرانے اور ٹرن آؤٹ میں اضافے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ ڈپٹی کمشنر سوات اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر دونوں کو معطل کرکے ایک کمیشن قائم کیا جائے، جو اس بات کی تحقیقات کرے کہ دونوں نے سوات میں امن و امان خراب کرنے کی کوشش کیوں اور کس کے کہنے پر کی۔
نیز کیا اس میں دشمن ممالک بھی شامل ہیں، جو سوات کا امن و امان خراب کرنا چاہتے ہیں؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے