توروالی موسیقی کا مقدمہ

مصوری اور مجسمہ سازی کی طرح موسیقی اور رقص بھی فن ہیں۔ کیوں کہ ان کا تعلق بھی انسانی جذبات اور جمالیات سے ہے…… لیکن مجسمہ سازی یا مصوری کے برعکس موسیقی اور رقص تین جہتوں میں کسی بولی کی طرح ہوتے ہیں۔ کسی جملے کی طرح موسیقی اور رقص کی بھی ایک ابتدا، درمیاں اور انتہا ہوتی ہے۔ ایسا مصوری کے ساتھ نہیں ہوتا کہ اس کی کوئی ابتدا ہوتی ہے اور نہ انتہا۔ یہ زماں کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ ایک بار ہوگئی تو تا ابد رہ سکتی ہے، جب کہ موسیقی اور رقص غیر مرئی ہوتے ہیں۔ یہ اپنے اظہار کے لیے ادائی "Performance” کی مرہون منت ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کاخیال موسیقی یا رقص کے اس آلے میں کہیں پنہاں ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ صرف اسی صورت میں وجود رکھتے ہیں جب اس کی ادائی ہو۔ ایک بار یہ ادائی ختم ہوگئی، تو یہ بھی ساتھ معدوم ہوجاتے ہیں، جب تک انھیں محفوظ (Eecord) نہ کیا جائے۔ یہ کسی شاعر یا افسانہ نگار کے خیال کی طرح موسیقار یا رقاص کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں، لیکن کوئی طبعی صورت نہیں رکھتے، جب تک ان کو تحریر میں نہ لایا جائے یا ادا نہ کیا جائے۔ اسی لیے اب تو کئی معاشروں میں موسیقی کو باقاعدہ تحریر بھی کیا جاتا ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
چھوٹے سماجوں (Small Scale Societies) میں موسیقی اور رقص بھی شاعری اور داستان گوئی کی طرح ایک نسل سے دوسری نسل میں زبانی منتقل ہوتے ہیں۔ رقص اور موسیقی کا تعلق کسی سماج کی ’’کلتوری‘‘ یعنی ثقافتی روایات سے ہوتا ہے۔ اسی لیے اکثر ماہرین رقص یا موسیقی کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کلتوری روایات، موسیقی اور رقص کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ایک ختم ہو جائے، تو ساتھ دوسرا بھی ختم ہوجاتا ہے…… یا پھر بیرونی اثرات کے تحت یہ اپنی ہیئت اور ساخت بھی تبدیل کردیتے ہیں۔
پاکستان میں 76 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اُردو، پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی کے علاوہ دیگر زبانوں کے بارے میں لوگ کم جانتے ہیں۔ ان زبانوں میں 27 ایسی ہیں کہ جن کو یونیسکو نے خطرے سے دوچار زبانوں کی فہرست میں ڈالا ہے۔ زبان کے ساتھ ساتھ ان لسانی قومیتوں کی ثقافت خصوصاً موسیقی اور رقص کو بھی کئی خطرات لاحق ہیں۔ یہ موسیقی نہ تو ریکارڈ کی جاتی ہے اور نہ اس کے اظہار کا کوئی موثر نظام ہی موجود ہے۔ ایک طرف اگر کٹر مذہبی سوچ کی ترویج ان لسانی کمیونیٹیز کو اپنے ’’کلتور‘‘ سے نفرت پر اُکساتی ہے، تو دوسری طرف ان کے ساتھ پاکستان میں بسنے والی بڑی قومیتوں کی ثقافت ان کو زیر کرتی ہے اور اب تو ابلاغِ عامہ اور تفریح کے طاقت ور ذرائع کے شکنجوں میں یہ دیسی ثقافتیں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہیں۔
پاکستان کی ہر چھوٹی لسانی کمیونٹی اس کرب سے گزر رہی ہے۔ کس طرح جدیدت (Modernity) اوراس کے نتائج مذہبی انتہا پسندی، نئی جیو سٹریٹجیک فکر (Geo-strategic Policies) نے ان چھوٹی لسانی قومیتوں کو متاثر کیا ہے، اسی طرح کی ایک کمیونٹی کی موسیقی پر ایک سرسری نظر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔
پاکستان کی بہشتی وادی ’’سوات‘‘ کے فردوسی علاقے تحصیلِ بحرین جس کو سوات کا کوہستان بھی کہا جاتا ہے، میں 2 لاکھ کی آبادی سوات کی دو قدیم قومیتوں ’’توروالی‘‘ اور ’’گاؤری‘‘ پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ بحرین، کالام اور مدین کی وادیوں میں پہاڑوں پر اور دریا سوات کے آس پاس رہتے ہیں۔ دونوں قومیتوں کی الگ الگ مگر بہت ہی مشابہ زبانیں توروالی اور گاؤری ہیں۔ ارضیات اور بشریات کی جدید تحقیق ان دو قومیتیوں کو سوات اور دیر کے اصل باشندے مانتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سوات میں دیگر قوموں نے اپنی آمد کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بہ تدریج زیر کرکے اپنے مذاہب سے بہرہ ور کیا۔ یہ عمل اپنی نوعیت میں ایسا ہی رہا جیسا کہ اب چترال میں بسنے والے کلاش لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کو فتح کرنے کے لیے پہلے تلوار کو استعمال کیا گیا اور جو لوگ اس سے بچ نکلے، ان کو پھر اپنی طرح مہذب اور مقدس بنانے کے لیے سماجی دباؤ کے ساتھ ساتھ درس و تدریس اور تبلیغ کے طریقوں کو اپنایا گیا۔ اس وقت کے حملہ آوروں نے سوات کو قبضہ کرکے اصل باشندوں کو آہستہ آہستہ پہاڑوں میں دکھیل کر ان کو کوہستانی یا ’’کوھستانے‘‘ کا نام دیا۔
مفتوح اقوام ہمیشہ فاتح اقوام کے طور طریقے اور عادات اپناتی ہیں۔ اسی طرح یہاں کے ان اصل باشندوں نے آہستہ آہستہ وہ القابات و خطابات اپنائے جو ان کو ان فاتح قوموں نے دیے۔ ان کی اصل شناخت بھی اسی آخری بدنصیب نسل کے خاتمے کے ساتھ مرگئی۔ زبان و ثقافت کی معدومی کے نتیجے میں یہ لوگ اپنی اصل شناخت بھی کھوگئے اور آگے آنے والی نسلوں نے شناخت کے اس بحران سے نکلنے کے لیے کئی زبانی نظریات گھڑلیے۔ کسی نے اپنے آپ کو عرب کہا، تو کسی نے اپنا شجرہ پٹھانوں سے ملادیا۔
ایسے میں جدید تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کی زبانیں کسی حد تک بولنے تک محدود رہیں۔ کیوں کہ پہاڑوں میں دھکیلنے کے بعد ان سے فاتح اقوام کا رابطہ بہت ہی کم رہا۔ اسی وجہ سے ان کی اپنی دیسی روایات بھی کسی حد تک برقرار رہیں۔
موجودہ توروالی اور گاؤری اقوام کی بقا میں اس علاقے کے جغرافیے اور سال میں ایک فصل کی کاشت نے بڑا کردار ادا کیا۔ حملہ آوروں کو یہاں لڑائیاں لڑنے میں ایک طرف دشواری کا سامنا رہا، دوسری طرف ان کی دلچسپی کم ہوئی۔ کیوں کہ اس علاقے میں اس وقت پورے سال میں صرف ایک فصل اُگتی تھی۔ انھی رُکاوٹوں کی بدولت یہاں لوگ کافی حد تک مکمل طور پر نگل جانے سے بچ گئے اور ان کا حملہ آوروں کی ثقافت میں ضم ہونا آہستہ پڑ گیا، جس کی وجہ سے کچھ کلتوری روایات اور زبان کافی حد تک محفوظ رہی۔
ان کلتوری روایات میں سب سے زیادہ نمایاں شاعری رہی۔ شاعری کسی بھی زبان کا پہلا ادب ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے میں انفرادی اور کسی حد تک اجتماعی اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے۔
توروالی شاعری کسی حد تک خود کو زبانی حد تک زندہ رکھ سکی۔ توروالی شاعری میں سب سے اہم اور مقبول صنف ’’و‘‘ (ژو اصل میں ’’ر‘‘ کے اوپر چار نکتے کرکے لکھا جاتا ہے) کی ہے۔
دوسری اہم صنف ’’پھل‘‘ ہے۔ دونوں کی کئی اقسام ہوجاتی ہیں، مگر یہ اقسام کسی موضوع، ہیئت اور ساخت سے زیادہ گائیگی کے انداز سے تعلق رکھتی ہیں۔ ’’و‘‘ اور ’’پھل‘‘ کے گانے کے مواقع مختلف ہوتے ہیں۔ مختلف تقریبات مثلاً شادی بیاہ، تہوار یا ہشر کے موقعوں پر یہ شاعری گائی جاتی تھی۔ اپنی ہیئت میں ’’و‘‘ اُردو قطعہ سے مشابہ ہے اور پشتو ٹپہ کی طرح عوامی ہے۔
’’و‘‘ کے گانے کے چھے مختلف طریقے ہیں۔ اسی طرح ’’پھل‘‘ بھی تین مختلف طریقوں سے گایا جاتا ہے ۔
٭ توروالی شاعری کے تین ادوار:۔
توروالی شاعری اور موسیقی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
٭ کلاسکی (قدیم) دور:۔ یہ دور ’’و‘‘ کے لیے بہت شان دار تھا۔ اس کی کوئی ابتدا معلوم نہیں کی جاسکتی۔ البتہ اسے ہم قدیم اور طویل دور کَہ سکتے ہیں۔ رسم الخط نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے تاریخی اور کلاسیک ’’و‘‘ معدوم بھی ہوچکے ہیں کہ جن سے شائد اس قوم کی تاریخ آسانی سے معلوم کی جاسکتی تھی۔ کئی نامعلوم شعرا اور شاعرات کے ’’و‘‘ اب بھی بطورِ ضرب المثل پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ وہی دور ہے جس میں خواتین شعرا کی تعداد زیادہ تھی۔ یہ مرد اور خواتین شعرا ایک دوسرے کو ’’و‘‘ میں جوابات بھی دیتے تھے۔ اگر کوئی شاعر ایک قطعہ کہتا، تو دوسرا اُس کا جواب دیتا۔ خاتون شاعرہ بھی کسی مرد شاعر کو ’’و‘‘ میں جواب دیتی اور اُس کو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ اس دور میں مختلف موقعوں کے لیے پھل نے بھی رواج پایا۔ ’’و‘‘ میں مثنوی اور رمزیہ کہانیاں بھی گائی جاتیں۔
٭ ٹیپ ریکارڈر والا دور:۔ ٹیپ ریکارڈر کی آمد نے توروالی شاعری پر مثبت اور منفی دونوں اثرات ڈالے۔ البتہ مثبت اثرات زیادہ نمایاں رہے، جو کہ حیران کُن بھی ہیں۔ کیوں کہ اکثر نئی ٹیکنالوجی نے دیسی ادب اور فن کو تباہ ہی کیا ہے۔ یہ دور 1970ء تا 2000ء تک محیط ہے۔ اسی دور کی ابتدا میں توروالی شاعری اور موسیقی نے بڑی تیزی دکھائی۔ علاقے کے لوگوں میں ٹیپ ریکارڈر "Tape recorder and player” روزی کمانے کی خاطر سفر کرنے والوں کی وجہ سے متعارف ہوا۔ یہ لوگ جب مزدوری سے گھر واپس آتے، تو ان کے پاس ٹیپ پلیئر ضرور ہوتا، جس کے ذریعے وہ پردیس یعنی کوئٹہ، حیدر آباد، کراچی یا دیگر شہروں میں سخت مزدوری کے دوران میں اپنا دل لبھاتے۔ یہ ’’انڈیوال‘‘ چوں کہ محفلیں بھی سجاتے، اس لیے بسا اوقات اپنی موسیقی کو ٹیپ کیسٹ پر ریکارڈ بھی کراتے۔ ان مزدوروں کو اکثر گھروں سے کیسٹیں بھی آتیں، جن میں اپنے پیاروں کی آوازیں ہوتیں…… اور گھر، گاؤں اور علاقے کے احوال بھی۔ واپسی میں یہ مزدور ایسی ہی کیسٹیں (Cassettes) اپنی آواز میں ریکارڈ کراکر گھروں کو ڈاک یا پھر کسی ساتھی کے ہاتھوں بھیجتے۔ اس سے پہلے خطوط لکھے جاتے جہاں پیاروں کی آواز نہیں ہوتی، مگر ٹیپ ریکارڈر نے آواز بھی محفوظ کرادی اور یوں اپنے ایک دوسرے کو زیادہ قریب محسوس کرنے لگے۔
گاؤں میں یا پردیسی میں لوگ بیٹھکوں یا دیروں میں محفلیں سجاتے اور اُن محفلوں میں گائے ہوئے ’’ژو‘‘ کو آسانی سے ٹیپ کیسٹ میں محفوظ کرلیتے۔
اسی دور میں کئی نئے گلوگاروں نے جنم لیا اور اُنھوں نے ’’و‘‘ کو بہت مقبولیت بخشی۔ ایسے گلوکاروں میں محمد زیب اور حلیم خان وغیرہ گیتال نے بہت شہرت پائی۔ محمد زیب نے کوئی 100 کیسٹیں یا والیمز (Volumes)ا ور حلیم خان نے 70 کے قریب کیسٹیں گائیں۔ ان کے ساتھ کئی دوسرے گلوکاروں نے بھی کیسٹیں بھرنے یعنی "Volumes” نکالنے شروع کیے۔ پردیس میں بیٹھے مزدروں نے بھی اپنی دل کی بھڑاس ’’و‘‘ اور ’’پھل‘‘ کے ذریعے نکالا اور اسی طرح اپنے لوگوں سے ایک جذباتی ربط بھی قائم رکھا۔
اسی دور میں بحرین بازار میں کیسٹوں کی واحد دُکان ’’و‘‘ کو اونچی آواز میں ٹیپ ریکارڈرز پر لگاتی اور راہگیر بڑے محظوظ ہوجایا کرتے۔ محمد زیب کی درد بھری آواز میں ’’و‘‘ کی وہ تاثیر ہم نے دیکھی ہے جب لوگ سنتے ہی ایک طرح سے مبہوت ہوجاتے اور ان کی آواز بھر آتی۔ یہ تاثیر اس وقت دوگنا ہوجاتی جب ’’و‘‘ کو ستار کے ساتھ گایا جاتا۔ ہم جیسے دیسی لوگوں پر تو اب بھی یہ ’’و‘‘ سکتہ طاری کرتا ہے۔
اس شان دار دور کے اواخر میں ہی اس موسیقی کا زوال شروع ہوا تھا۔ یہ زوال صرف توروالی موسیقی تک محدود نہیں بلکہ اس کی زد میں پشتو موسیقی بھی بری طرح آگئی۔ افغان جہاد کے شروع ہوتے ہی پورے خیبرپختونخوا میں پناہ گزینوں کے روپ میں جہادیوں کی آمد شروع ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے اُن علاقوں کا رُخ بھی کیا جہاں مقامی مولویوں کی تعداد کم تھی۔ یہ جہادیے ایسے علاقوں میں جاکر مولوی بنے اور مسجدوں میں امام بن کر رہنے لگے۔ اس دوران میں پاکستانی مذہبی جماعتوں کو بھی خوب چربی لگادی گئی۔
افغانستان میں پشتو اور دیگر علاقائی موسیقی کے مراکز کو تباہ کرنے کے بعد افغان جہاد کے اثرات پورے پاکستان خاص کر خیبر پختونخوا میں بہت گہرے پڑے۔ 80ء کی دہائی کے بعد پورے صوبے خیبرپختونخوا میں محمد ابنِ عبدالوہاب (1703-92ء) کی کٹر وہابی مذہبی سوچ نے بہت شہرت حاصل کی۔ مقامی طور پر مولویوں کی ایک پود اُبھر آئی اور اُنھوں نے ابنِ عبدلوہاب کی افکار کو چہار سو پھیلایا۔ اکثر مقامی شعرا توبہ تائب ہوگئے۔بعض نے سماجی دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔
مذہب میں اسی جدید سوچ کے ساتھ ساتھ جدیدت نے بھی یہاں کی مقامی موسیقی کو بری طرح متاثر کیا۔ ٹیپ پلیئرز کے ساتھ وی سی آر (VCR) آگیا۔ توروالی کلتوری مرکز بحرین میں کئی ایک افراد نے وی سی آر کا کاروبار شروع کیا۔ وہ وی سی آر، کیسٹ اور ٹی وی کو کرائے پر دیتے۔ اسی طرح اُنھوں نے اپنی دکانوں کے پچھواڑے میں وی سی آر پر شوز بھی شروع کیے، جہاں ’’بولی ووڈ‘‘ (Bollywood) کی فلمیں دکھائی جاتیں۔ بڑی تعداد میں جوانوں نے اُن دُکانوں کا رُخ کیا اور اطراف کے گاؤں میں بسنے والوں نے ان وی سی آر اور ٹی وی کو کرایہ پر لینا شروع کیا۔
چوں کہ بصری اور تصویری (Visuals) چیزیں سمعی (Audio) چیزوں سے زیادہ پُرکشش ہوتی ہیں، اس لیے ٹیپ ریکارڈرز کی جگہ وی سی آر نے لی اور یوں مقامی موسیقی کی محفلیں اس یلغار کے آگے نہ ٹھہر سکیں۔ اُسی دور ہی میں صاحبِ ثروت لوگوں نے ’’سیٹیلائٹ‘‘ (Satellite) ٹی وی لگائے جن پر زیادہ تر انڈین فلمیں اور ڈرامے دِکھائے جاتے۔ اُن ڈراموں اور فلموں کا اثر اتنا گہرا ہوا کہ کئی لوگوں نے اپنے نومولود بیٹوں اور بیٹیوں کے نام اُن فلمی اداکاروں اور اداکاراؤں کے ناموں پر رکھ لیے۔ اُن ڈراموں میں کرداروں کے نام لوگوں کو ازبر ہونے لگے۔
اِس زوال کی انتہا اُس وقت ہوئی جب توروالی علاقے سمیت پورے سوات پر طالبان کا قبضہ ہوگیا۔ پورے سوات میں اس خوف کی وجہ سے موسیقی کی دکانیں بند ہوگئیں اور کئی موسیقاروں، گلوکاروں اور رقاصاؤں کو یا تو قتل کردیا گیا، یا پھر علاقہ یا ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ خوف کے یہ سائے سوات کے کوہستان میں بھی پھیل گئے اور بحرین میں موسیقی بیچنے والی واحد دکان بھی بند ہوگئی۔
٭ توروالی شاعری اور موسیقی کا تیسرا دور:۔ توروالی کلتور اور موسیقی کی احیا کی کوششیں ایسے میں بحرین کے چند نوجوانوں نے علاقے کی مربوط ترقی اور اپنی آبائی ثقافت اور زبان کے تحفظ اور فروغ کے لیے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا۔ اُس ادارے نے ایک طرف توروالی زبان مین سکول کی اور دیگر کتابیں چھاپنا شروع کیں، تو دوسری طرف اپنی آبائی ثقافت کو بھی محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو فروغ دینے کی کوششیں بھی بروئے کار لائیں۔
٭ ’’سیمام نامی آبائی ثقافت کا میلہ‘‘:۔ سیمام توروالی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معانی عظمت، سنگار اور انتظام کے ہیں۔ مذکورہ ادارے نے سوات کے تباہ کن سیلاب کے ایک سال بعد جولائی 2011ء میں بحرین میں ایک سہ روزہ میلے کا اہتمام ’’سیمام‘‘ کے نام سے اُس وقت کی خیبر پختونخوا حکومت کے مالی تعاون سے کیا۔ اس میلے میں تین دن لوگوں نے اپنی ثقافتی کھیلوں، موسیقی اور بحثوں میں بھرپور طور پر حصہ لیا۔ مقامی شاعروں، موسیقاروں اور فن کاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس میں 5 دہائی پہلے متروک کھیلوں اور رقصوں کو بھی زندہ کیا۔ اس میلے میں مینگورہ، کالام، اتروڑ، اباسین کوہستان، چترال اور گلگت سے بھی لوگوں نے حصہ لیا اور اپنی اپنی ثقافت کی نمایندگی بھی کی۔ سیمام چوں کہ لوگوں کی اپنی ثقافت کا میلہ تھا، اس لیے اس میں ہر طبقے، عمر اور مکتبِ فکر کے لوگوں نے شمولیت کی۔ سیمام کے آخری دن سیمینار کا اہتمام کیا گیا، جس میں پشاور، مینگورہ، اسلام آباد اور لاہور سے دانش وروں اور محققین نے بھی شرکت کی۔
٭ ’’ اینان نامی کتاب کی اشاعت‘‘:۔ اس سماجی ترقیاتی تنظیم نے 2012ء میں توروالی کے کلاسکی ’’و‘‘ پر مشتمل اینان (قوسِ قزح) نامی کتاب چھاپی جس میں توروالی کے اُن قدیم قطعات کو اُردو ترجمے کے ساتھ پیش کیا گیا۔ یہ کتاب قارئین میں بہت مقبول رہی اور پاکستان کے بڑے اخبارات اور بی بی سی نے اس پر مضامین شائع کیے۔ توروالی شاعری کو تحریر میں لانے کی یہ پہلی کوشش تھی۔ اس کتاب کا دوسرا حصہ ’’اینان دوم‘‘ کے نام سے 2021ء میں شائع کیا گیا۔
٭ توروالی موسیقی کو نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش:۔ یہ ایک جاری کوشش ہے ۔ اس کی ابتدا بحرین میں مقیم مذکورہ ادارے نے 2015ء میں کی۔ اس کوشش کے تحت توروالی ’’و‘‘ اور ’’پھل‘‘ کے مختلف طرز کو ایک اچھے سٹوڈیو میں ریکارڈ کرایا گیا اور ’’منجُورا‘‘ کے نام سے البم پیش کیا گیا۔ اس البم میں جدید طرز کے گیت اور گانوں کو بھی ریکارڈ کیا گیا۔ پھر اس موسیقی کو وڈیو سمیت ڈی وی ڈی میں پیش کیا اور اسے منجُورا یعنی ’’تحفے‘‘ کا نام دیا گیا۔
توروالی موسیقی کی کم از کم 400 آڈیو کیسٹیں موجود ہیں۔ مذکورہ ادارہ اپنے طور پر اُن کیسٹوں کو جمع کر رہا ہے اور پھر اُن کو ڈی وی ڈی میں منتقل کر رہا ہے، تاکہ یہ عوام کے لیے آسانی سے میسر ہوں۔ کیوں کہ ٹیپ پلیئرز کی جگہ اب سی ڈی اور ڈی وی ڈی پلیئرز نے لی ہے۔
آبائی ثقافتوں اور زبانوں کی ایسی ساری کوششیں اپنی جگہ نہایت قابلِ تعریف و قابلِ تقلید ہیں لیکن عالمگیریت اور جدیدت کے اس دور میں یہ کوششیں شائد اتنی پائیدار نہ ہوں، کیوں کہ ’’تہذیب‘‘ اور معیشت کے مراکز کہیں اور واقع ہیں اور جن کی باگیں کارپوریٹ سیکٹر اور ’’کارپوریٹ حکومتوں‘‘ کے ہاتھ میں ہیں۔ ایسے میں توروالی جیسی ’’چھوٹی‘‘ قومیتی اکائیاں کس طرح اپنی ثقافت، شناخت اور زبان کو زندہ رکھ سکتی ہیں…… اس کا امکان زیادہ روشن نہیں۔
پاکستانی ریاست کو ’’مصنوعی یکسانیت‘‘ کے خود ساختہ نظریات سے جان چھڑانا ہوگی، اور پاکستان میں بسنے والی ساری زبانوں اور ثقافتوں کی سرکاری سرپرستی کرنا ہوگی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے