ظفر اللہ پوشنی کی یاد میں

پیدایش:۔ 05 مئی 1926ء
انتقال:۔ 08 اکتوبر 2021ء
ظفر اللہ پوشنی صاحب سے رابطہ یعنی پہلا تعارف اُن کی کتاب ’’زندگی زِنداں دلی کا نام ہے‘‘ ہی کے توسط سے ہوا۔
وہ کراچی میں ایڈورٹائزنگ ایجنسی مین ہٹن میں "Creative Director” تھے۔ وہ "Copy Waiter” سے ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچے تھے۔ بہت سادہ اور معصوم سے انسان تھے۔ انگریزی زبان پر اُردو سے بھی زیادہ عبور رکھتے تھے۔ ذات کے کشمیری تھے۔ پیشہ ورانہ طور پر فوج میں کیپٹن رہے۔ پھر فیض احمد فیض ؔکے ساتھ ’’پنڈی سازش کیس‘‘ میں پکڑے گئے۔ ’’زندگی زِنداں دلی کا نام ہے‘‘ اُسی جیل کے زمانے کی روداد ہے۔ 100 فی صد سچ۔
ڈاکٹر عرفان احمد خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irfan-khan/
بائیں بازو سے اُن کا خاصا تعلق رہا۔ مذہب کو کبھی ہتھیار نہیں بنایا، نہ مذہب کے سامنے ہتھیار ہی ڈالے۔ صاف سُتھری سادہ زندگی گزاری۔ اپنی زندگی کے تجربات اور مین ہٹن والی نوکری کے حوالے سے ناول: ’’دوڑتا چلا گیا‘‘ لکھا۔ یہ ناول میں نے کئی بار پڑھا ہے۔ ناول اے ون ہے، مگر ناول نام سے مار کھا گیا۔ چوں کہ اُن کا فکشن لکھنے کا زیادہ تجربہ نہیں تھا۔ اس لیے اس ناول میں ایک آنچ کی کسر باقی رہ گئی۔
ویسے بھی اَدب اُن کا روزگار نہیں تھا۔ وفات سے کچھ پہلے تک بھی اُنھوں نے اپنی نوکری جاری رکھی۔ میرے پسندیدہ رائٹرز میں سے ایک خشونت سنگھ جی نے 99 سا ل کی زندگی پائی۔ اُن کے بعد سب کی نظریں ظفراللہ پوشنی صاحب کی سنچری کی طرف تھیں، مگر اللہ کو یہ منظور نہیں تھا۔
ظفراللہ پوشنی مجھ پر بہت مہربان تھے۔ اُنھوں نے مجھے ’’زندگی زِنداں دلی کا نام ہے‘‘ کے حقوقِ اشاعت بھی دے رکھے تھے اور کتاب کے 2013ء (سال فیض احمد فیضؔ) میں میرا نام، پتا اور فون نمبر بھی دیا تھا اور مَیں نے ہی اس ایڈیشن کی ’’سالِ فیض‘‘ کی مناسبت سے فرمایش بھی کی تھی۔ چھوٹے، بڑوں سے ضد کرکے اپنی منوالیتے ہیں۔ اُنھوں نے بھی میری یہ ضد پوری کی۔
مَیں روزانہ اُنھیں صبح ’’گڈ مارننگ‘‘ کا ایس ایم ایس کرتا تھا اور وہ باقاعدگی سے جواب بھی دیتے تھے۔ پھر اُن کی صحت بے قاعدہ رہنے لگی۔ بچوں کے کہنے پر انہوں نے ’’ٹچ سیٹ‘‘بھی لے لیا۔ انہیں ’’ٹچ سیٹ‘‘ کا استعمال ٹھیک سے نہیں آتا تھا۔
دسمبر 2019ء دورۂ کراچی کے دوران میں اُن سے ملنے مین ہٹن کے مرکزی آفس بالمقابل مہوٹہ پیلس، کلفٹن بھی گیا۔ میری بڑی پذیرائی کی۔ ہم نے لنچ کیا اور کافی بھی پی۔ بڑے خوش اور مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔ "OXFORD” نے اُن کی کتاب: ’’زندگی زِنداں دلی کا نام ہے‘‘ انگلش میں بھی شائع کر دی تھی۔ اُنھیں بہت اچھا فیڈ بیک بھی آرہا تھا۔ وہ مجھے کتاب دستخط کر کے دینا چاہتے تھے، مگر ملازم نے بتایا کہ کتاب ختم ہوچکی ہے۔ اُنھوں نے مجھ سے معذرت کی۔ وہاں سے واپسی پر مَیں نے مہوٹہ پیلس بھی پوشنی صاحب کے بہانے دیکھ لیا۔
پھر ایک روز اچانک سندھی دوست اکبر سومرو نے اُن کی وفات کی خبر دی۔ بہت صدمہ ہوا۔ اُن کی سال گرہ 5مئی کو ہوتی تھی۔ وہی دن محسن نقوی کی سال گرہ کا بھی تھا، بلکہ ہماری خالہ بلقیس بانو کی وفات بھی کراچی میں اسی روز ہوئی۔
مَیں نے ظفراللہ پوشنی جیسا مجسمۂ شرافت آج تک نہیں دیکھا۔ لاہور میں اُن کی بہن کا گھر میسن روڈ پر تھا۔ وہ ایک پرانی وضع کا بہت ہی خوب صورت گھر تھا۔ مَیں کئی بار اُس گھر میں اُن کی نجی محفلوں میں بھی شریک ہوا اور سکون پایا۔ دوست گیا تو سب کچھ گیا۔
رہے نام اللہ کا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے