پاکستان میں مقامی سیاحوں سے استدعا

شہروں میں بڑھتی ہوئی گرمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، بہت سے لوگ پاکستانی شہروں کے ہنگاموں، گرمی کی لہروں، روزمرہ کے دباو اور گندگی سے کچھ دن دور گزارنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے اُن کے لیے شمالی پاکستان منزل بنتا ہے۔ جو لوگ چند راتیں گزارنے اور سفر کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں، وہ شمالی پاکستان کے مختلف سیاحتی مقامات کا دورہ کرتے ہیں۔ اُن جگہوں میں سڑک کے ذریعے سفر کم ہونے کی وجہ سے کچھ کم لاگت آتی ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ کئی پاکستانی اشرافیہ گرمیاں گزارنے کے لیے یورپ یا شمالی امریکہ جاتے ہیں، جب کہ ہمارے معاشرے کے نچلے طبقے کے لوگ شمالی پاکستان کے کسی بھی سیاحتی مقام پر جاتے ہیں۔ شمالی پاکستان سے یہاں مراد بالائی خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ کی وادیاں۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
جب کہ غیر مقامی لوگ اِن مشہور سیاحتی مقامات کا دورہ کرتے ہیں، تو بہت سے مقامی اور غیر مقامی لوگ یہاں اُونچے درجے کی چراگاہوں، جھیلوں، گزرگاہوں اور گھاس کے میدانوں کا رُخ کرتے ہیں۔ بلند چراگاہوں کو چند سال پہلے صرف چرواہے جاتے تھے، اب نیچے کی وادیوں سے اکثرعام لوگ یہاں آتے ہیں۔
حکومت اور فوج شمال کے کچھ معروف مقامات پر بھی کسی نہ کسی قسم کے ’’تہواروں‘‘ کا انعقاد کر رہی ہوتی ہیں۔ حال ہی میں اُنھوں نے "Shandur Festival” منعقد کیا ہے۔ اس طرح کے چھوٹے پیمانے کے تہوار کالام، کمراٹ، ملم جبہ، مدخلشت، کاکلاشٹ وغیرہ میں بھی منعقد کیے گئے ہیں۔
بہت کم سیاح اور مقامی لوگ شمالی پاکستان میں ایک ضلعے سے دوسرے یا خیبر پختون خوا سے گلگت بلتستان کے علاقوں میں اُن پہاڑی گزرگاہوں سے ہوکر جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں ٹریکنگ، پیدل سفر اور اونچی چوٹیوں کو سر کرنا ایک بہترین کھیل ہے جب کہ سوات، چترال، دیر اور کچھ حد تک کوہستان جیسے علاقوں میں ٹریکنگ اور پیدل سفر اتنا عام نہیں، لیکن بہت سے لوگ عموماً الپائن لکیر کے اوپر والے علاقوں کا سفر کرتے ہیں اور جھیلوں، چراگاہوں، گلیشیرز اور چھوٹی چوٹیوں کو دیکھنے کے لیے وہاں جاتے ہیں۔
سڑک پر آنے والے سیاحوں، ٹریکروں اور پیدل سفر کرنے والوں کی اس بڑھتی ہوئی آمد کے ساتھ کئی مسائل کو دیکھا گیا ہے۔ شائد سب سے بڑا مسئلہ ماحول کو تباہ کرنا ہے۔ 15 سال قبل کالام سوات میں مہوڈنڈ (جھیل) بہت صاف ہوا کرتی تھی۔ بالائی دیر کی وادیِ کمراٹ کا بھی یہی حال تھا۔ چترال اور غذر کی سرحد پر واقع شندور کا بھی یہی حال تھا۔ سیاحوں کے بڑھتے ہوئے بہاو اور یقینا تہواروں کے ساتھ یہ مقامات اب واقعتا بڑے کوڑے دان میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ مہوڈنڈ جھیل ایک اُداس تصویر پیش کر رہی ہے۔ کمراٹ میں سفید جھاگ والے پانی کی ندیوں اور جنگلات کا بھی یہی حال ہے۔ شندور بھی اب کچرے سے بھرا ہوا ہے۔
بحرین سوات کی مانکیال وادی میں کوشوجین چوٹی کی گود میں چوگیل (عام طور پر اسے چوکیل کہا اور لکھا جاتا ہے، مدیر) چراگاہ چند سال پہلے تک سب سے صاف ستھرا ہوا کرتی تھی۔ اس گھاس کے میدان میں چرواہوں کی 100 سے زیادہ جھونپڑیاں ہیں۔ ان کے پاس ایک مقامی ضابطہ ہے، جو موسم گرما میں جون کے آخر تک کسی بھی چرواہے کو مویشیوں کے ساتھ چراگاہ میں جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ جب یہ پابندی ختم ہوجاتی ہے، تو تمام چرواہے اپنے ریوڑ اور فیملی کے ساتھ وہاں جاتے ہیں۔ چند سال قبل جب چوگیل کو انٹرنیٹ صارفین کے سامنے پیش کیا گیا، تو لوگ جنت کے اس ٹکڑے کی طرف دوڑے چلے آئے اور اب یہ بھی کچرے سے بھرا ہوا ہے۔
کالام شہر اور اوشو کے درمیان مشہور دیودار کے جنگلات میں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں اور اب یہ جنگل مجھے اُداس کرتا ہے۔ کیوں کہ یہ ہر طرف پھیلے ہوئے کچرے سے اَٹا پڑا ہے۔
2015ء میں جب ہم نے پہلی بار کمراٹ کا دورہ کیا، تو وہاں ایک دو ٹینٹ ہوٹل تھے، جو بہت صاف اور محفوظ تھے۔ اُس کے بعد ہم نے تقریباً ہر سال اُس کا دورہ کیا اور بہت سی ناقص قسم کی تعمیرات کھڑی دیکھیں۔ نیز جنگلات کوڑے سے بھر گئے۔ باڈگوئی کے اوپر اور اُس کے آس پاس کے نام نہاد دشتِ لیلیٰ پر بھی ایسا ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
عید کی تعطیلات میں مینگورہ سے مہوڈنڈ براستہ مدین، بحرین اور کالام جانے والی سڑک کو عملی طور پر کچرے کی لائن بنا دیا جاتا ہے اور اُس کے دونوں اطراف کچرے کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ دریائے سوات ہر گزرتے سال کے ساتھ کچرے سے بھرتا جا رہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بہت سے ملکی سیاح اُن علاقوں میں ایک مخصوص ذہنیت کے ساتھ آتے ہیں۔ شہروں میں رہتے ہوئے یہ لوگ ایک خاص قسم کی برتری کا سنڈروم پیدا کرچکے ہیں۔ حالاں کہ ہم سب اپنے بڑے شہروں کے عمومی حالات جانتے ہیں جو عام طور پر بڑھتی ہوئی سڑکوں اور دیگر جرائم کے علاوہ زیادہ آلودگی کی دوڑ میں پہلے نمبر پر آتے ہیں۔ اَب بھی شہروں کو ’’مہذب‘‘ سمجھا جاتا ہے، جب کہ ’’ہنزہ‘‘ اور ’’پھسو‘‘ میں رہنے والوں کو دوسری صورت میں غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔ یہ سیاح پہاڑوں پر آتے ہیں، لیکن اُن پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں کچھ دقیانوسی سوچ رکھتے ہیں۔ سوات اور ہنزہ میں سیاحت کے عروج کے دنوں میں ہم اکثر سیاحوں اور مقامی لوگوں کو لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ہنزہ اور کالاش دیش کے بارے میں اُن سیاحوں کی اپنی ذہنیت ہے، جو اُنھیں بتاتی ہے کہ یہ لوگ بہت کھلے عام، کافر، شراب اور رم بنانے والے ہیں اور اقدار سے عاری ہیں۔ سوات اور دیر کے پہاڑی لوگوں کے لیے پاکستان کے مقامی سیاحوں کا یہ تصور ہے کہ یہ لوگ وحشی اور غیر مہذب ہیں۔ اس طرح کے احمقانہ قسم کے سیاح، جو ہمارے پاس بہت سے ہیں، کالاش دیش اور ہنزہ میں عجیب و غریب مطالبات کرتے ہیں، جو ظاہر ہے کہ مقامی لوگوں کو مشتعل کرتے ہیں اور جب وہ مقامی اُن مطالبات کی مخالفت کرتے ہیں، تو سیاح اُن پر چیختے ہیں اور اُن کے پورے قبیلے کی توہین کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ لڑائی کی صورت میں نکلتا ہے جس میں سیاحوں کو کو خوب سبق سکھایا جاتا ہے۔
یہی حال دوسرے پہاڑی لوگوں کے ساتھ بھی ہے۔ سیاح کسی ایک مقامی کے ساتھ کسی معاملے میں اُلجھ جاتے ہیں اور گالیاں پورے علاقے اور قوموں کو دیتے ہیں۔ نتیجتاً اپنے حصے کا سبق اُن کو یہاں بھی ملتا ہے۔
تیسرا، اُن میں سے بہت سے گھریلو سیاح بعض عوامی مقامات پر ایسی سرگرمیاں کرتے ہیں، جس سے مقامی خواتین کی روزمرہ کی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ یہ سیاح اکثر گھر والوں کی پیشگی اجازت کے بغیر کالاش کی وادیوں میں گھروں میں گھس کر خواتین کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ سوات اور دیر جانے والے بہت سے لوگ عموماً اُن گھروں کے سامنے تفریح کرتے ہوئے یا وہاں کی ندیوں میں نہاتے ہوئے گھر کے ماحول کا خیال نہیں رکھتے۔ بہت سے ٹریکر عام طور پر چراگاہوں میں جاتے ہیں، مثال کے طور پر، پابندی کے خاتمے کے بعد چوگیل جاتے ہیں اور وہاں کی جھونپڑیوں میں خاندان رہتے ہیں۔ وہاں کی خواتین کو پانی لانا پڑتا ہے یا گھروں سے باہر اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے اور سیاحوں کی موجودگی اُن کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے۔
آخر میں، چند سیاح ضرور ہوں گے جو درحقیقت ان علاقوں کی مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ شہروں سے بہت سے بلاگرز آتے ہیں اور مقامی لوگوں، اُن کی زبانوں اور ثقافتوں کے بارے میں بغیر کسی علم کے "Vlogs” کرتے ہیں۔ بہت سے "Vloggers” بالکل نوآبادیات کی طرح برتاو کرتے ہیں اور اُن لوگوں اور زبانوں کے بارے میں مسخ شدہ حقائق پیش کرتے ہیں۔
جب ہم کسی چراگاہ یا جھیل کی تصویر پوسٹ کرتے ہیں، تو پاکستان اور بیرونِ ملک ہمارے کچھ اچھے دوست عموماً پریشان ہو جاتے ہیں۔ وہ ہم سے اُن جگہوں کو کوڑے دانوں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے کہتے ہیں۔ وہ اُن گھریلو سیاحوں کو کوڑے دان کہتے ہیں۔
ہم صرف اپیل کر سکتے ہیں اور یہ اپیل بہت کم لوگوں تک جاسکتی ہے۔ سیاحوں کا بڑا ریوڑ کوڑے دان اور چھیڑ چھاڑ کرنے والے اب بھی وہی سلوک کریں گے جس کے خلاف ہم یہ استدعا کرتے ہیں۔ ہم پسند کریں گے کہ ہر کوئی ہمارے ساتھ پہاڑوں کا دورہ کرے، لیکن ایک چھوٹی سی نصیحت کے ساتھ کہ یہاں اپنے قدموں کے نشانات کے سوا کچھ نہ چھوڑنا اور تصویروں اور دلکش یادوں کے علاوہ کچھ نہ لینا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے