پیدایش:۔ 14 اگست 1933ء
وفات:۔ 20 جنوری2021ء
آغا امیر حسین ایک نظریہ تھے، ایک تحریک تھے۔ اُن سے میرا پہلا تعارف چین (باتصویر) کے ذریعے ہوا۔ چین 80ء کی دہائی میں بھی بہت ہانٹ کرتا تھا اور اَب تو وہ ماشاء اللہ پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے۔ تسبیح اور جائے نماز تک وہاں تیار ہو رہی ہیں۔ او رتو اور قرآنِ پاک بھی وہاں سے لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو کر آرہے ہیں۔
ڈاکٹر عرفان احمد خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irfan-khan/
چین کو پاکستان میں متعارف کروانے کا سہرا ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگر کسی شخصیت کے سر ہے، تو وہ شخصیت جناب آغا امیر حسین صاحب کی ہے۔ مَیں اُن کی تعریف میں کسی بُخل سے کام ہرگز نہیں لوں گا۔ ہر بڑی شخصیت ہیرے کی طرح کئی ایک روشن پہلو رکھتی ہے۔ آغا صاحب بھی ایسا ہی ایک ہیرا تھے۔ بہت سے نئے رائٹرز کو انھوں نے اپنے ماہنامہ ’’سپوتنک‘‘ میں شائع کیا اور پاکستان میں اَدبی پنیری لگائی۔ اُن کے احسانات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ خود مجھ پر بھی اُن کے ڈھیر سارے احسانات ہیں۔ وہ درویش صفت انسان تھے۔ احسان جتانا خاندانی لوگ پسند نہیں کرتے، نہ کسی کو چھوٹے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ مَیں نے اُن کے ساتھ کئی بار کھانا بھی کھایا اور چائے بھی پی۔ اُن کے منتظم کردہ فنکشنز میں کئی بار شرکت بھی کی۔
’’کلاسیک‘‘ وہ سُرخ چھتری ہے جہاں سُرخ کبوتر ہی آکر بیٹھتے ہیں۔ دائیں بازو کے لوگ تو یہاں صرف آگ لگانے ہی آتے تھے، حالاں کہ آگ بھی سُرخ ہوتی ہے۔ بائیں بازو کے دوستوں کا ساتھ دینے پر آغا صاحب کو نقصانات بھی اُٹھانے پڑے، مگر اُنھوں نے سب کے سب خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔ اللہ نے انھیں فراخ پیشانی عطا کی تھی۔ وہ ٹھنڈے دماغ اور دبنگ لہجے کے مالک تھے۔ اُنھوں نے ایک عام اخبار فروش کے طور پر ریگل چوک لاہور سے ترقی کی اور ’’کلاسیک‘‘ جیسے خوب صورت شو روم کے مالک بن گئے، جس کا ریٹ اُن کی زندگی میں 15 کروڑ روپے لگ چکا تھا۔
خانگی سطح پر ترقی کے لیے اللہ تعالا نے انھیں 3 فرزند عطا کیے۔ آغا راشد اور آغا ندیم شو روم پر ہوتے ہیں۔ آغا رضوان نے اپنی اعلا تعلیم انگلینڈ سے مکمل کی۔ آغا صاحب نے اُن کے ’’کانووکیشن‘‘ میں بھی شرکت کی۔
آغا امیر حسین اول تا آخر نظریاتی ہی رہے، ورنہ ڈاکٹرحسن عسکری جیسے بائیں بازو کے نقاد زندگی کے آخری ایام میں جماعتیے بن گئے تھے، یعنی لیفٹ سے رائٹ ہو گئے تھے۔ آغا امیر حسین جیسی ثابت قدمی اور نظریاتی امارت کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ PNA کی تحریک (1977ء) جسے وقت نے ’’ڈالر تحریک‘‘ بھی ثابت کیا۔ اُسی تحریک کے دوران میں اُن کی دُکان پاکستان پیپلز پارٹی سے وفاداری کی سزا کے طور پر جلا دی گئی، مگر اس نقصان اور دہشت گردی کے باوجود پیپلز پارٹی سے الگ نہ ہوئے اور ہمیشہ وفادار رہے۔ انھوں نے بائیں بازو کی سیاست میں کیا کھویا…… کیا پایا؟ یہ سوال لوگوں کے ذہن میں ضرور اُٹھتا ہوگا۔ میرے محدود علم کے مطابق اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے اشاعتی ادارے ’’کلاسیک‘‘ کی زمین انھوں نے ایک اخبار فروش ہی سے چند ہزار میں خریدی تھی۔ اب اُس جائیداد کی قیمت اگر کروڑوں میں ہے، تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ لاہور میں ہر جگہ زمین کی قیمت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر ہماری 475 روپے فی مرلہ خریدی ہوئی زمین کی قیمت آج ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے، تو پھر لاہور کی سب سے مرکزی شاہ راہ پر کمرشل جگہ کی قیمت اتنی زیادہ ہونا کیا کوئی حیرت کی بات ہے؟
بھٹو کی کتاب ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ جیل سے قسطوں میں باہر آئی اور پھر ہندوستان سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کو پاکستان سے شائع کرنا بڑی دلیری او رجرات کی بات تھی جو آغا امیر حسین نے دکھائی، مگر انھیں ’’تمغائے جرات‘‘ نہیں ملا۔ ہاں! لوگوں کی محبتیں اُنھیں بے پناہ ملیں اور اُنھیں ہی وہ اپنا سرمایہ سمجھتے تھے۔ بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ میں پھانسی کی سزا دلوانے والا مولوی مشتاق کس قدر گھٹیا بندہ (مَیں نے ’’انسان‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے جان بوجھ کر گریز کیا ہے) اس کا قصہ آغا امیر حسین لاہور ہائی کورٹ کے سامنے سڑ کے پار بیٹھ کر اپنے ہر ملاقاتی کو سناتے تھے۔ مولوی مشتاق نے آغا صاحب کی دکان سے ہائی کورٹ جانے والے تمام اخبارات اور رسائل بند کر دیے تھے۔ مولوی کا خیال تھا کہ آغا بھوکا مر جائے گا۔ آغا امیر حسین کا سفرِ آخرت تو مولوی مشتاق کے مقابلے میں بہت بہتر رہا۔ مولوی مشتاق کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا تھا۔ انھیں فُل کورٹ ریفرنس پیش کیا گیا تھا۔ لوگ جنازہ سڑک پر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور مولوی مشتاق کی کفن میں لپٹی لاش بے پردہ ہو گئی تھی۔ جنرل ضیا کا ساتھ دینے والوں کے لیے اس سے بڑی ذلت اور شرمندگی اور کیا ہو سکتی تھی؟
آغا امیر حسین مشنری یعنی نظریاتی انسان تھے۔ وہ اسی شان کے ساتھ جیے اور پھر اللہ نے انھیں اپنے پاس بلا لیا۔ نام کام سے بنتا ہے اور آغا صاحب اپنے گراں قدر اَدبی کاموں کے باعث زندہ رہیں گے۔ وہ ایک نیک رُوح تھے جو لاہور سے رخصت ہوئی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔