قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ تبارک و تعالا نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے: ’’قسم ہے فجر کی ،اور دس راتوں کی۔‘‘
مفسرین کے مطابق ان دس راتوں سے مرادذی الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں۔ اللہ عزوجل کا کسی شے کی قسم کھانا اس کی عظمت و فضیلت کی واضح دلیل ہے کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں کس قدر خصوصی اہمیت کاحامل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کو سب سے اعلا و افضل قرار دیا ہے۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
ذی الحجہ کے دس دنوں میں اللہ تعالا کو نیک عمل جتنا محبوب ہے، اس کے علاوہ دیگر دنوں میں نہیں۔ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ اور دنوں میں بندے کا عبادت کرنا اللہ تعالا کو اتنا محبوب نہیں، جتنا ذوالحجہ کے عشرہ میں محبوب ہے۔ اس عشرہ کے ہر دن کا روزہ سال بھرکے روزوں کے برابر اور اس کی ہر رات کے نوافل شب قدر کے نوافل کے برابر ہیں۔‘‘ (ترمذی)
ایک دوسری حدیث میں خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’ دنیا کے افضل ترین دن ایام العشر(یعنی ذوالحجہ کے دس دن) ہیں۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا: ’’کیا اللہ کے راستے میں جہاد بھی (ان دنوں کے عمل سے بڑھ کر نہیں؟) فرمایا:’’نہیں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ سوائے اُس شخص کے جواپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹا (یعنی شہید ہوگیا)‘‘
حج جیسی عظیم عبادت کا رکنِ اعظم یومِ عرفہ بھی انہی ایام میں ہے۔ اسی مناسبت سے اس مہینے کا نام ذوالحجہ ہے یعنی حج والا مہینا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جس شخص نے اللہ کے گھرکا حج کیا اور بے ہودگی و فسق سے بچا رہا، تو اس حالت میں لوٹے گا جیسے آج ہی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو۔‘‘
قمری سال کا آخری مہینا ذی الحج حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ اس کے پہلے عشرے میں یومِ عرفہ انتہائی شرف و فضیلت کا حامل ہے۔ یہ گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے آزادی کا دن ہے۔ اگر اول عشرہ ذی الحجہ میں سوائے یومِ عرفہ کے اور کوئی قابل ذکر یا اہم شے نہ بھی ہوتی، تو یہی اس کی فضیلت کے لیے کافی تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالا جس قدر عرفہ کے دن لوگوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہے، اس سے زیادہ کسی اور دن آزاد نہیں کرتا۔‘‘
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’شیطان یومِ عرفہ کے علاوہ کسی اور دن میں اپنے آپ کو اتنا چھوٹا، حقیر، ذلیل اور غضب ناک محسوس نہیں کرتا جتنا اس دن کرتا ہے۔ یہ محض اس لیے ہے کہ اس دن میں وہ اللہ کی رحمت کے نزول اور انسانوں کے گناہوں سے صرفِ نظر کا مشاہدہ کرتا ہے۔‘‘
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’عرفہ کے دن کے روزے کے متعلق میں اللہ تعالا سے پختہ اُمید رکھتا ہوں کہ وہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔‘‘ (صحیح مسلم)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عرفہ کے دن کا ایک روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نوروزے، دس محرم اور ہرمہینے کے تین دن (ایامِ بیض) کے روزے رکھتے تھے۔ واضع رہے کہ عشرہ ذی الحجہ میں روزے نو ذی الحجہ تک ہی رکھے جاسکتے ہیں، دس ذی الحجہ کو عید ہوتی ہے جس کا روزہ رکھنا جائز نہیں۔ اسی طرح عید الاضحی کے بعد 11، 12، 13 ذی الحجہ جو ایامِ تشریق کہلاتے ہیں اُن میں بھی روزہ رکھنا جائز نہیں ۔ حج کے بعد مسلمانوں کی دوسری بڑی عید، عید الاضحی بھی ماہ ذی الحجہ کی 10تاریخ کو ہوتی ہے۔
عید کا دن جہاں خوشی ومسر ت کا دن ہوتا ہے، وہیں عید کی رات انعام و الطاف کی رات ہوتی ہے اور اللہ تعالا کی خصوصی رحمت اور نوازش عید کی رات میں ہوتی ہے۔ چاہے وہ عید الفطر کی رات ہو یا عید الاضحی کی رات، دونوں نہایت ہی اہمیت والی راتیں ہیں اور انسانوں کے لیے سعادت کا ذریعہ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہ جس شخص نے عید یدن کی راتوں میں اللہ کی رضا اور ثواب کے حصول کی خاطر قیام کیا، تو اس کا د ل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔‘‘ ( ابن ماجہ)
قربانی جیسا عظیم اور مہتمم بالشان عمل بھی اسی مہینے میں انجام دیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اہم وعظیم قربانی کی وجہ سے قربانی کو سنتِ ابراہیمی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالا کے حکم پر اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی عظیم سنت قیامت تک جاری رہے گی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ذی الحجہ کی 10 تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالا کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لواور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو،تو وہ اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے۔‘‘
یہ حکم مستحب ہے اور ان لوگوں کے لیے جو قربانی دینے والے ہوں۔ چاند دیکھنے سے لے کر جب تک کہ اُن کی طرف سے قربانی نہ ہوجائے، اُس وقت تک سر کے بالوں اور دیگر بالوں کو نکالنے اور ناخن کاٹنے سے احتیاط کرنا چاہیے۔
جو لوگ قربانی دینے والے نہیں، اُن کے لئے یہ حکم نہیں۔ عشرہ ذی الحجہ میں تکبیر و تسبیح اور ورد کی تلقین فرمائی گئی ہے…… اور بطورِ خاص ایامِ تشریق میں تکبیرا تِ تشریق پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تکبیرِ تشریق 9 ذی الحجہ کی فجر سے 13 ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے پڑھنا مرد و عورت دونوں پر واجب ہے۔ البتہ عورت بلند آواز سے نہ کہے۔جس شخص کی اما م کے ساتھ رکعتیں رہ گئی ہوں، اُسے اپنی نما ز پوری کرکے سلام پھیر نے کے بعد تکبیرِ تشریق پڑھنی چا ہیے۔ واح رہے کہ تکبیرِ تشریق صرف فرض نماز کے بعد پڑھنے کا حکم ہے۔ سنت اور نفل کے بعد نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔