تحقیق و تحریر: محمد افتخار شفیع
امجد اسلام امجدؔ نے شاعری، ڈراما نگاری اور کالم نویسی کے میدان میں شہرت حاصل کی، لیکن عام طورپرایک مترجم کے طور پر اُن کے اوصاف نمایاں نہ ہوسکے۔
امجد اسلام امجدؔ شعرا کی اُس محدود تعداد میں شامل ہیں جنھوں نے محمد کاظم کی معاونت سے براہِ راست عربی کے نام ور شعرا کی نظموں کا اُردو میں منظوم ترجمہ کیا۔ وہ جن شعرا سے متاثر ہوئے، اُن میں عبدالوہاب البیاتی، نزار قبانی، نازک الملائکہ، محمود درویش، سمیح القاسم اور فدویٰ طوقان کے نام شامل ہیں۔
امجد اسلام امجدؔ اپنے ترجمہ نگاری کے اس فن کے پس منظر میں ایک نظریۂ زندگی کا مکمل احساس و ادراک رکھتے ہیں۔ اپنی ترجمہ شدہ نظموں کے مجموعے عکس کے ابتدائیے میں وہ لکھتے ہیں: ’’مَیں نے یہ نظمیں، ترجمہ برائے ترجمہ، کی خاطر نہیں کیں۔ میرے سامنے ایک واضح مقصد تھا اور وہ یہ کہ بیسویں صدی کے نصف آخر کے ایک شاعر کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ مَیں شاعری کے ذریعے اپنے وطن، قوم اور عالمی انسانی برادری سے نہ صرف اپنا تخلیقی تعلق قائم کروں بل کہ دنیا میں برپا عظیم اقداری کش مکش میں بھی ترقی پسند، عوام دوست اور انقلابی قوتوں کا ساتھ دوں۔‘‘
ان تراجم کے لیے فلسطینی شاعری کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا؟ اس کے لیے شاعر کے سامنے سیاسی اور طبقاتی بیداری کے عمل میں فلسطین کا بطورِ انسانی المیے کے سب سے نمایاں ہونا ہے۔ تیسری دنیا کے عوام کی عظیم جد و جہدِ آزادی میں مقدور بھر حصہ لینے کے ساتھ ساتھ امجد اسلام امجدؔ کے پیشِ نظر وہ ملی شعور بھی کئی سطحوں میں کارفرما دکھائی دیتا ہے، جو اُردو شعرا کی اس نسل کے حصے میں آیا ہے۔ ابتدائیے ہی میں آگے چل کے وہ رقم طراز ہیں: ’’باقی رہی فلسطینی شاعری کے انتخاب کی بات وہ یوں ہے کہ ایک پاکستانی مسلمان ہونے کی حیثیت سے عالمی انسانی جد و جہد میں فلسطینی عوام کی جد و جہد میرے لیے، پاکستان کے بعد سب سے اہم تاریخی استعارہ ہے۔‘‘
امجد اسلام امجدؔ کو اس بات کا اعتراف ہے کہ عربی زبان سے اُن کا تعلق بس واجبی نوعیت کا ہے، لیکن انھوں نے اس کام کو شوق سے زیادہ فرض سمجھ کرکیا ہے۔ زیرِ بحث نظموں کے نثری تراجم سید محمد کاظم نے کیے، انھوں نے صرف نثری تراجم پر ہی اکتفا نہیں کیا…… بل کہ ایک ایک نظم کے سماجی اور لسانی پس منظر کے حوالے سے شاعر کے ساتھ کئی کئی گھنٹے تبادلۂ خیال بھی کیا۔
خود محمد کاظم، امجد اسلام امجدؔ کے تراجم کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بیروت کے ’الآداب‘ میں جب مَیں نے اس مجموعے کی پہلی نظم’’بکا الی شمس حزیران‘‘ پڑھی، تو اُس نے مجھے غیر معمولی طور پر متاثر کیا اور مَیں نے اس کا نثری ترجمہ کرکے امجد اسلام امجدؔ کو دیا…… اور اس نے اسے ایک دو روز کے اندر ہی اُردو نظم میں ڈھال لیا۔ مَیں نے امجدؔ کی اس نظم کو ایک تنقیدی نظر سے دیکھا۔ مجھے ایک خوش گوار حیرت ہوئی کہ اُردو میں آکر بھی بیاتی، بیاتی ہی رہا تھا۔ ‘‘
تراجم کا یہ سلسلہ چلا تو عربی شاعری کے خوب صورت اُردو تراجم پر موقوف ہوا۔ شاعری کے بارے میں یہ بات کسی حد تک ضرور مبنی برحقیقت ہے کہ اس کا ترجمہ دنیا کی کسی دوسری زبان میں ممکن نہیں، اور بالفرض اگر ایسا کر بھی لیا جائے، تو وہ فنی نزاکتیں، علمی موشگافیاں اور جادوئی عنصر جو اصل زبان کا جزو ہوتا ہے…… دوسری زبان میں منتقل ہونے سے عموماً رہ جاتا ہے۔ امجداسلام امجدؔ نے کمال پختگی سے یہ تراجم اس انداز میں کیے ہیں کہ بعض اوقات وہ اسی ماحول کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔ محمد کاظم ان تراجم کے معیار کو پرکھتے ہوئے گواہی دیتے ہیں کہ میں عربی اور اُردو دونوں طرف کی نظموں کو سامنے رکھ کر یہ کَہ سکتا ہوں کہ امجدؔ نے اُردو نظم میں ہر جگہ اصل شاعر کی جذباتی کیفیت اور مزاج اور طرزِ احساس کو کہیں مخل نہیں ہونے دیا…… چناں چہ جذباتی اور احساسی کیفیت دونوں زبانوں میں ایک ہی ہے۔
امجد اسلام امجدؔ نے اپنے تراجم میں کہیں بھی اصل شاعر کی بات کے ابلاغ کو قاری کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بل کہ کوئی لفظ یا ٹکڑا اضافی لانا پڑا ہے یا کہیں کوئی لفظ حذف بھی کرنا پڑا ہے، تو ترجمے کا شعری موڈ برقرار رکھنے کے لیے انھوں نے ایسا کیا ہے۔
مثال کے طور پر محمود درویش کی نظم ’’امرأۃ جمیلۃ فی سدوم‘‘ کے ترجمے کا اقتباس دیکھیں:
یاخذالموت جسمک شکل المغفرۃ
وبودی لواموت
داخل اللذہ یاتفاحتی
یاامرأتی المنکسرہ
وبودی لواموت
خارج العالم فی زوبعۃ مندثرہ!
(ترجمہ):
تمھارے بدن کے خم و پیچ پر مغفرت کی طرح موت وارد ہوئی!
کاش میری بھی اس طور ہی موت ہو!
تلذد کے لمحے میں اے میری جاناں!
میری پر شکستہ، پری چہرہ عورت
کاش میری بھی اس طور ہی موت ہو
فنا و بقا کی حدوں سے ادھر
اک بگولے کے بکھرے ہوئے انت میں
جون 1967ء کی جنگ کے اثرات جدید عربی شاعری پر نہایت گہرے ہیں۔ یہ شکست ایک آفت کی شکل میں نمودار ہوئی۔ جون کی شکست کے اثرات بعد کی عربی شاعری پر نمایاں اور قابلِ شناخت ہیں۔ اس صورتِ حال میں ایک طرح کا احساسِ رائیگانی بھی پیدا ہوا، محمد کاظم کے خیال میں:
’’سب سے زیادہ مایوس کن ردِعمل اس عرصے میں یہ دکھائی دیتا ہے کہ شاعر کا خود اپنے وجود کے جواز پر سے ایمان جاتا رہا اور وہ اپنے فن اور اس کی ضرورت و منفعت کے بارے میں سوال اٹھانے لگا۔ اُسے بہت شدت سے اِس امر کا احساس ہوا کہ الفاظ کی جنگ (حرب الکلمات) کی پہلی شکست کے بعد سے برابر لگا ہوا تھا۔ مادی اور حقیقی نتائج کے اعتبار سے اس کی قوم اور وطن کے لیے ایک سعیِ رائیگاں ثابت ہوئی تھی۔ یہ اثرات اُس عہد کے بعد کی عربی شاعری پر واضح انداز میں اثر انداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً: سمیح القاسم کی ’’نظمقطرات دم علی خریطۃ الوطن العربی‘‘ کے ایک بند میں یہ موضوع آیا ہے اور مترجم نے کس خوب صورتی سے اِس کو اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے:
وقفت فی الدود
لکی اشتری خبز الاطفالی
و مسرت سینن
وحین صار الدورلی
قبلوا مافی یدی من عملۃ
ساخرین
تبدلت عملتنا یاحزین!
ترجمہ:
برس ہا برس
آنے والے دنوں کے چمک دار خوابوں میں کھویا ہوا
میں قطارِ فنا میں قدم در قدم آگے بڑھتا رہا
اور جب میں زمانے کی دکان پر
اپنے گھر کے لیے روشنی مول لینے کی خاطر گیا
تو مرے حال پر تیرگی ہنس پڑی
میرے ہاتھوں میں سِکّوں کا انبار تھا
پر دکانِ جہاں کی کرنسی نہ تھی
تراجم ایک تہذیب کو دوسری تہذیب سے متعارف کرانے کا عمل بھی ہے۔ مصنف کی روح کا ترجمہ شدہ مواد میں حلول کر جانا ضروری ہے۔‘‘
ڈاکٹر جمیل جالبی کے خیال میں: ’’مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں زبانوں پر کامل دسترس رکھتا ہو۔ نفسیاتی اعتبار سے مترجم کو دوہرے کرب اور فکری بے قراری سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ دوئی خود مترجم کی شخصیت کو توڑ دیتی ہے۔‘‘
ایک مترجم کے طور پر امجد اسلام امجدؔ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے کہیں پر بھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ اُن کی عربی دانی کسی حد تک سہی، محمد کاظم کے مرہونِ منت ہے، جس چابُک دستی اور مہارت سے اُنھوں نے عربی نظموں کے تراجم کیے ہیں، اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زبان سے مکمل آشنائی نہ رکھتے ہوئے بھی اُس کے مزاج، استعاروں اور علامتوں کے نظام سے خوب واقف ہیں۔
فدویٰ طوقان کی ایک نظم میں امجد کے ترجمے کا انداز دیکھیے :
وما قتلوا منتہی
وما صلبوہا
ولکنما خرجت منتہی
تعلق اقمار افراجہافی السماء الکبیرہ
وتعلن ان المطاف القدیم انتہی
وتعلن ان المطاف الجدید ابتدا
ترجمہ:
منتہیٰ لاش ہے پر اُسے قتل کس نے کیا؟
کب کیا؟
کون ہے جو کہے میں نے مارا اُسے
اُسے کون مصلوب کرتا کہ جو
سوئے دشتِ فلک
گھر سے نقشِ فنا لے کے رخصت ہوئی
اپنی خوشیوں کے چاندوں سے جھولی بھرے
یہ بتانے کہ اب زندگی کے ہر اک کہنہ انداز کی
ہوچکی انتہا
یہ بتانے کہ اب ہو رہی ہے نئے دور کی ابتدا
قید و بند کی صعوبتیں آزادیِ حریت کے علم برداروں کے لیے اخلاصِ عمل کی تجربہ گاہیں ہوتی ہیں۔ فلسطینی شاعر سمیح القاسم پسِ زِنداں اپنے ’’کاز‘‘ کی سربلندی اور نصب العین کی ارفعیت کا اظہار یوں کرتے ہیں۔ یہاں اصل متن سے ترجمہ شدہ مواد کا ربط خاص شاعر کی فنی پختگی اور قادر الکلامی کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے:
عبثاً تقترف الاسلاک موتی
عبثاً یطبق لیل و جدار
فی دمی یصہل مزمار النہار
ولی عینی الوانیفصیلِ
زنداں نہ روک پائے گی راہ میری
فضول ہے یہ شب سیہ کی تباہ کاری
کہ میرے خوں میں چمکتے دن کی نفیریاں ہیں
نظر میں اپنے ہی رنگ چھائے ہیں
اور ہونٹوں پہ جو صدا ہے وہ حرفِ جاں ہے
جدید عربی نظم میں آزاد ہیئت کو متعارف کروانے کی تحریک میں عراق کی خاتون شاعرہ ’’نازک الملائکہ‘‘ کا نام خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ نازک الملائکہ شاید پہلی شاعرہ ہیں جنھوں نے عربی میں بحر شکنی کرتے ہوئے آزاد نظم کو باقاعدہ طور پر پیش کیا۔ اس کام میں انھیں ممتاز حیثیت اس لیے بھی حاصل ہوئی کہ ایک نقاد کی حیثیت سے اُنھوں نے اپنے نظریات کو متعدد مقامات کی صورت میں پیش کیا، جو زیادہ تر ’’الادب‘‘ میں شائع ہوئے۔ نازک الملائکہ کی ہم عصر شاعری پر گہرے اثرات کا مطالعہ کرنے کے لیے فدویٰ طوقان کی ڈائری میں سے یہ اقتباس دیکھے :
’’میں ادیبہ ’ن‘ (نازک الملائکہ) سے پہلی بار ملی۔ مجھے کسی نے کہا تھا کہ اُس کی صاف گوئی اور کھرا پن لوگوں کو اس سے نفور کردیتا ہے لیکن مجھے وہ…… اُن باتوں کے باوجود بھی اچھی لگی۔ وہ ایک ایسے رویے کی نمایندگی کرتی ہے جو اپنی ظاہری توانائی کے باوجود کم زور اور حزن آمیز ہے۔ یہ رویہ میری سرزمیں کے انسان کی علامت ہے۔ ’ن‘ کی آواز کے پیچھے ایک جانب دارانہ جذبہ پایا جاتا ہے اور یہی میرے نزدیک اس کی کم زوری کا راز ہے۔‘‘
امجد اسلام امجدؔ نے نازک الملائکہ کی ایک شہرہ آفاق نظم ’’الضیف کا مہمان‘‘ کے عنوان سے اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔
شعر و ادب کے تراجم میں نیم دلی کے ساتھ کام کرنے کی بجائے جس توجہ اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے، اُس کے تقریباً سبھی عکس اِس ترجمے میں موجود ہیں۔ 49 مصرعوں کی اس نظم کا 88 مصرعوں میں ترجمہ بظاہر عجیب لگتا ہے۔ کبھی کبھی تو اس سے بوجھل قسم کی طوالت کا احساس بھی ہوسکتا ہے، لیکن ترجمے کے آغاز میں ہی قاری مترجم کی فنی پختہ کاری میں اِس قدر مسحور ہوجاتا ہے کہ یہ طوالت، لطافتِ خیال میں بدل جاتی ہے :
طرق الباب و کنافی ذھول سادرین
جونا جللہ الصمت الحزین
وعلی آفا قنا یجثم لیل لایبین
طریق الباب فقلنا: زائرجاء الینا
علہ یلقی من الغیب علینا
بعض وعد عن دیار سرقت منذ سنین
علہ یطفیئ نیران الحنین
وفتحنا الباب ملہو فی المآتی صائحین:
ضینقا! من انت؟ قال الفرح
ترجمہ:
اس کی دستک کے سمے وقفِ تحیر ہم لوگ
دشتِ غفلت میں کھڑے دیکھتے ہیں
بے سحر رات کی بے فاصلہ پہنائی کو
خاک سے تابہ فلک کھلتے چلتے جاتے ہیں
اس کی دستک کی صدا سن کے کوئی کہنے لگا
آخرِکار کوئی آیا ہے
وہ چمن جس کو غنیموں نے خزاں بخت کیا
اس کے بارے میں کوئی اچھی خبر لایا ہے
قاصدِ ارضِ وطن آیا ہے !
شاید اس پاس کوئی ایسی خبر ہو جو ہمیں
غم کے بے نام الاؤسے رہائی دے دے
نطقِ خاموش کو پھر نغمہ سرائی دے دے
ہم نے روتی ہوئی آنکھوں سے اٹھائیں پلکیں
اور امید بھرے دل سے کہا
اے گئی رات کے مہمان! بتا کون ہے تو؟
نظم چوں کہ فلسفیانہ اُسلوب لیے ہوئے ہے، اِس لیے اِس کے ترجمے پر مکمل گرفت خاصا مشکل کام نظر آتی ہے۔ مختصر ترجمہ اصل متن کے حسن کو برباد کرسکتا تھا، سو مترجم نے طوالت کی پروا نہ کرتے ہوئے اصل متن کے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے، دیکھیے :
ضیفنا الحرالجبین
کل خشن فی روابینا سیصفو ویلین
وسنسترجع یا فاو جنین
فانفجر یالہب!
نحن الضارک نحن العرب
ترجمہ:
نہیں سلاخوں کے بس میں مجھ کو ہلاک کرنا
اپنی چھوڑی ہوئی مٹی کا ہر اک ذرۂ پاک
دستِ دشمن سے ہمیں لینا ہے
انتقام اور غضب کے شعلے…… اور بھڑک
ہم عرب لوگ ہیں انگار ترے
ہم ترے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے تیرے
اور بھڑک
انتقام اور غضب کے شعلے …… اور بھڑک
اُردو میں ترجمہ نگاری کی روایت بہت پرانی نہ سہی، لیکن تخلیقی نثر کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ شاعری میں ترجمے کا رجحان نسبتاً بعد میں ہوا۔ اُردو ترجمہ نگاری کی تنگ دامنی اپنی جگہ لیکن فی الحقیقت جو تجربات اور انکشافات معاشرتی سطح پر اِرتقا پذیر نہیں ہوتے، وہاں ادب کبھی جذبات نگاری سے تعقل پسندی کی طرف سفر نہیں کرتا۔ محض خواب جنم لیتے ہیں…… ضرورت اس بات کی ہے کہ مبالغہ آرائی، جذباتیت اور تشکیک سے آگے بڑھ کر منطقی طور پر تخلیق کے مزاج کو سمجھا جائے۔ امجد اسلام امجدؔ کے تراجم بے جان اور سپاٹ طرزِ ترجمہ نگاری کو یک سر رد کرتے ہیں۔ مثلاً: عبدالوہاب البیاتی کی نظم ’’بکائیۃ الی شمس حزیران‘‘ کو ہی لے لیں، یہ نظم 1967ء کی عرب، اسرائیل جنگ کے بعد تخلیق ہوئی۔ چھے روزہ جنگ میں عربوں کی شکست خوردہ ذہنیت کا باشعور اظہار اس نظم میں نمایاں ہے۔ ایک حساس نسل کا پورا کرب اس نظم کے چند مصرعوں میں سمٹ آیا ہے :
یا الہ الکادحین الفقراء
نحن لم تہزم، ولکن الطواولیس الکبار
ہز مواہم و حدہم، من قبل ان ینفخ دیار بنار!
ترجمہ:
اے خدا، اے غریبوں کے، محنت کشوں کے خدا!
ہاں، ہمارا لہو جنگ ہارا نہیں
ہم کو مارا ہے ان رہنماؤں نے جو اپنے عشرت کدوں میں
چہکتے رہے
ان سنہری پروں والے موروں نے جو قوم کے واسطے
نقشِ عبرت بنے
ہم کو مارا ہے ان بے ضمیروں نے جو آبرو کے جنازے میں
شامل ہوئے
امجد اسلام امجد کا یہ آزاد ترجمہ اُس دکھ اور کرب کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، جو کسی ترجمے میں جذبات سے عاری ہوکر ادب کو احساسات سے تہی کردیتا ہے۔اسی نظم کے اور ادیبوں نے بھی تراجم کیے، لیکن اُن ترجمہ شدہ نظموں میں خیال کی وہ بو قلمونی دکھائی نہیں دیتی، جو قاری کو اپنے سحرِ مطالعہ میں گرفتار کرلیتی ہے۔ ہمارے پیشِ نظر عبدالوہاب البیاتی کی نظم ’’بکائیہ الی شمس حزیران‘‘ ہے۔ امجد اسلام امجدؔ کا کیا ہوا ترجمہ دیکھیے :
مشرقی قہوہ خانوں کی سیلن میں ہم اپنے بے کاربحثوں کے
ہاتھوں مرے
جھوٹ کے چوبی ہتھیار سج کے
ہواؤں کے گھوڑوں پہ لڑتے رہے!
موت کے شغل سے ہم شناسا نہیں
ایسے گھوڑے کے مالک ہیں، جو آج تک
وادیِ موت کی سمت دوڑا نہیں
شہ سواروں کے پہلو میں ٹھہرا نہیں
وہ شکاری ہیں جس نے درندے تو کیا
اک پرندہ بھی ہاتھوں سے مارا نہیں
ہم نے زخموں سے اپنے قلم کے لیے روشنائی نہ لی
روشنائی کو ارضِ وطن پر بہے
خون کے سرخ دریا سے بدلا نہیں
ہم زیاں کار تھے، ایک دوجے سے لڑتے ہوئے کٹ مرے
اور ٹکڑے ہوئے
اسی طرح ایک اور عربی متن کا ترجمہ یوں ہوتا ہے :
نحن لم نجعل من الجرح، دواۃ
ومن الحبر دما فوق حصاۃ
شغلتنا الترھات
ققتلنا بعضنا بعضاً وھا نحن فتات
ترجمہ:
مشرقی قہوہ خانوں کی سیلن میں بیٹھے ہوئے آج کل
مکھیوں کو پکڑنے کی بے کار دھن میں گرفتار ہیں
اور تاریخ کے سرد ملبے میں ہم ایسی پرچھائیاں ہیں
جو مُردوں کے بہروپ میں گام زن ہیں
ہم پریشان ذہنوں کا اک خواب ہیں
جس کی تعبیر سے کوئی واقف نہیں
امجد اسلام امجدؔ کے تراجم ایک تخلیقی عمل کا حصہ ہیں…… جسے ایک ادیب، شاعر اور دانش ور ایک دوسرے انداز سے سامنے لاتا ہے۔ تخلیقی فن کار کا کرب اُن کے ہاں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اِن تراجم کے علاوہ امجد اسلام امجدؔ نے نزار قبانی اور محمود درویش کی نظموں کے کامیاب ترجمے بھی کیے ہیں۔ الفاظ اور مصرعوں کی تعداد کے لحاظ سے پابندی کرنے کی بجائے انھوں نے اِبلاغ کو زیادہ اہمیت دی ہے۔
یوں تو ادب کے ہر پہلو میں مقصدیت کی کوئی چھاپ ضرور موجود ہوتی ہے، لیکن ترجمہ کرنے والا ایک ضرورت کے تحت واضح مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ترجمے کا مواد منتخب کرتا ہے۔ اس کی مثال تازہ ہوا کے ایک جھونکے سی ہوتی ہے جس سے کسی بھی ادب کے مزاج میں موجود یکسانیت، جمود اور گھٹن کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یوں دیکھا جائے، تو ترجمے کے دو واضح مقاصد ہیں: ایک یہ کہ ترجمہ نئی زبان میں ہوکر اس زبان کا باقاعدہ حصہ بن جائے اور ترجمہ شدہ مواد، اصل کا ایسا نقش ہو۔ عربی تہذیب یوں تو ہمارے لیے جو اجنبی تہذیب کی چھاپ رکھتا ہو، تاکہ دو قوموں کا تمدنی لحاظ سے ایک دوسرے پر تعلق منکشف ہو لیکن اس کے بہت سے پہلوؤں کو جاننا ابھی باقی ہے ۔
(نوٹ:۔ اس مضمون کے لیے امجد اسلام امجدؔکی ترجمہ شدہ کتاب ’’عکس‘‘ سے مدد لی گئی ہے۔ یہ کتاب 1978ء میں ’’مجلسِ ترقی ادب، لاہور‘‘کی طرف سے شائع کی گئی تھی، راقم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔