مشہورِ زمانہ انویسٹر ’’وارن بفے‘‘ اپنے سالانہ خط (2014ء) میں لکھتے ہیں کہ قسمت سے مَیں اور چارلی (بفے کا بزنس پارٹنر) امریکہ میں پیدا ہوئے اور ہم اس پیدایش کے حادثے سے ملنے والے حیران کن فوائد کے لیے ہمیشہ شکر گزار ہیں۔
وارن اپنی کامیابی میں ایک بڑا کردار قسمت کا بتاتے ہیں…… لیکن کیا بفے اور چارلی نے محنت نہیں کی ہوگی؟
قارئین! آج مَیں انسانیت کی تاریخ کے سب سے پُراسرار اور اُلجھن سے بھرپور سوال یعنی ’’قسمت‘‘ اور ’’محنت‘‘ کو چھیڑنے والی ہوں، قسمت اور محنت سے متعلق اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیے گا۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
پہلے انسان اپنی کامیابی کو اللہ یا اپنے مذہبی خدا کی مرضی بتاتا تھا اور کامیابی کا سارا کریڈٹ خدا کو دے کر اپنی قسمت کو موردِ الزام ٹھہراتا کہ سب قسمت کا کھیل ہے…… لیکن مغرب میں خدا کے ماننے والوں کی کمی اور لبرل ازم نے سارا کریڈٹ خدا سے لے کر انسان کو دینا شروع کردیا…… اور اب عام انسان سپر ہیرو بن گئے اور ان کی کامیابی کی پوجا کی جانے لگی (حالاں کہ کامیابی ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ کیوں کہ ہر انسان کی نظر میں کامیابی مختلف ہوتی ہے۔)
’’فُلاں انسان دن میں 20 گھنٹے محنت کرتا تھا اور یوں وہ ایک بہت ہی کامیاب انسان بنا۔‘‘
ایسی باتیں سن کر مجھے لگتا تھا کہ شاید محنت میں بہت طاقت ہے…… لیکن تب تک جب تک زندگی نے ایسے موڑ پر لاکر کھڑا نہ کردیا جب مجھے اس بات کو سمجھنا پڑا کہ کیا یہ میری محنت ہے…… یا پھر میری قسمت نے ایک نیا موڑ لیا ہے؟
مَیں نے پچھلے دو سال قسمت اور کرما (Karma) کو پڑھنے میں صرف کیے ہیں۔ قسمت اور کرما دونوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ سائنس سے لے کر مختلف مذاہب میں قسمت کو لے کر کیا نظریات ہیں، سب پڑھنے کے بعد (سب تو نہیں کَہ سکتے، کیوں کہ سمجھنے کا یہ سلسلہ قبر تک چلے گا) مجھے جو قسمت اور محنت کے متعلق سمجھ آیا، آج اس پر بحث کروں گی۔
ایش اور حسن کی کتاب "The Unfair Advantage” بھی اسی بات پر ہے کہ کس طرح ہم سب کے پاس ایک فائدہ موجود ہوتا ہے، جسے ہم نے حاصل نہیں کیا ہوتا…… بلکہ وہ ہمیں مل جاتا ہے، یا اُس فائدے کے ساتھ ہم اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں…… لیکن ہم اپنی کامیابی کے لیے اس فائدے کا ذکر نہیں کرتے۔ کیوں کہ عموماً ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ ہم مراعات یافتہ (Privileged) ہیں۔
اچھے گھرانے میں پیدا ہونے سے لے کر جنیات میں اچھا چلنے والا دماغ ملنا بھی آپ کی قسمت ہے۔ آپ کس ملک، کس گھر، کس کلچر، کس دن اور کس تاریخ کو پیدا ہوتے ہیں…… تب سے ہی آپ کی زندگی کی سمت کا تعین ہوجاتا ہے۔ زندگی یوں ہی چلتی رہتی ہے…… اگر قسمت سے کچھ ایسے واقعات رونما نہ ہوجائیں، جو آپ کی زندگی کی سمت کو بدل دیں۔
میری زندگی کی سمت بھی کچھ واقعات نے بدلی۔ اگر وہ واقعات رونما نہ ہوتے، تو شاید میں کبھی اپنی زندگی کی سمت کو نہیں بدل پاتی اور سب کچھ ہمیشہ ایسے ہی چلتا رہتا۔
کتاب "The Psychology of Money” میں مورگن ہاؤسل نے پورا ایک باب قسمت اور رسک پر لکھا ہے۔ کیسے قسمت کا بھی کردار ہوتا ہے آپ کے کچھ فیصلوں کو کامیاب بنانے میں…… یا آپ کے لیے راستے ہم وار کرنے میں……!
اس باب میں ایک نوبل انعام یافتہ اکانومسٹ ’’رابرٹ شلر‘‘ سے پوچھا گیا ایک سوال ہے کہ ’’سرمایہ کاری سے متعلق وہ کیا بات ہے جو آپ جاننا چاہتے ہیں…… لیکن کبھی جان نہیں سکتے؟‘‘
رابرٹ نے جواب دیا کہ کس طرح سے ’’قسمت‘‘ ہمارے فیصلوں کو کامیاب بناتی ہے، جو کہ یقینا مَیں کبھی نہیں جان سکتا۔‘‘
جی ہاں! دنیا میں موجود سات بلین عوام کے اجتماعی ایکشن، دنیا میں موجود پیچیدہ قوتیں (اور جو لوگ لازوال طاقت یعنی خدا پر یقین رکھتے ہیں، وہ انھیں خدا کے قوانین کہتے ہیں) اور ہم انسانوں کا بنایا پیچیدہ سماجی جال…… یہ سب آپ کے فیصلوں پر کسی نہ کسی طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔
اکانومسٹ ’’بھاشکر مازمدر‘‘ کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ کس طرح دو بھائیوں میں مالی حالت میں مشابہت ہونے کے امکانات ان کی شکلوں یا جینیات میں مشابہت ہونے کے امکانات سے زیادہ ہوتے ہیں۔ کیوں کہ دونوں ہی امیر گھر میں پیدا ہوئے اور دونوں کے پاس مواقع کی تعداد تقریباً ایک جیسی ہوگی۔
یہی بات رشتوں پر بھی بیٹھتی ہے کہ محفوظ لگاو (Secure Attachment) والے اور سمجھ دار والدین کے بچے اچھے ہم سفر کا انتخاب کرتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں اچھی عادتیں اور سمجھ داری والدین سے ملی ہوتی ہے۔
ایک بات مَیں نے اور بھی نوٹ کی اپنے سفر کے دوران میں (ضروری نہیں کہ یہ سب کے لیے درست ہو) کہ کبھی کبھار قسمت سے ملنے والے چانس ہماری موجودہ قابلیت سے بڑھ کر ہوتے ہیں (چوں کہ شاید قسمت یا قوتیں اس بات سے ناواقف ہوتی ہیں کہ ہماری قابلیت کتنی ہے!) اور پھر جب ہم ان مواقع کو کھو دیتے ہیں، تو سمجھتے ہیں کہ شاید ہماری محنت میں کمی تھی (اور عموماً جب چانس ہماری قابلیت کے مطابق ہو، تو ہم اس سے اپنے تجربات میں مزید اضافہ کرپاتے ہیں۔) لیکن مجھے یہ سمجھنے میں وقت لگا کہ دراصل مجھے قسمت سے ملنے والے مواقع کی نسبت میری صلاحیتوں میں کمی ہے۔ رہی سہی کسر سیلف ہیلپ (Self-help) اور سوشل میڈیا نے پوری کردی کہ مَیں محنت نہیں کررہی، کوشش نہیں کررہی، چاہے وہ محنت صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ہو، مادی مقاصد کو یا قریبی رشتوں کو معنی خیز بنانے کے لیے ہو، قصور صرف میرا ہی ہے۔ چوں کہ میری تربیت اس انداز میں نہیں ہوئی تھی کہ جب قسمت سے وہ مواقع میرے سامنے آئیں، تو مَیں اُن سے فوراً فائدہ اٹھالیتی۔ کیوں کہ میری بنیاد اتنی مضبوط نہیں تھی کہ ملنے والے مواقع کی بلڈنگ اس پر کھڑی ہوتی اور یوں مَیں نے ایک عرصہ خود کو ہر بات کا الزام دیا۔
٭ کیا محنت کا کوئی کردار نہیں؟
ایسا نہیں کہ محنت کا کوئی کردار نہیں۔ محنت بھی کردار ادا کرتی ہے۔ کتاب "The Luck Factor” کے لکھاری ’’رچرڈ وائز مین‘‘ نے 400 لوگوں پر ریسرچ کی اور ان کا ماننا ہے کہ قسمت کوئی خصوصیت نہیں، جس کے ساتھ لوگ پیدا ہوتے ہیں بلکہ یہ بنائی جاتی ہے۔
رچرڈ کے مطابق وہ لوگ جو خود کو خوش نصیب تصور کرتے ہیں، انھیں ہر جگہ چانس اور مواقع نظر آتے ہیں۔ وہ پُرامید (Optimist) ہوتے ہیں۔ اپنے وجدان (Intuition) کی سنتے ہیں۔ مثبت نتائج کی امید رکھتے ہیں۔ پُرسکون رہتے ہیں۔ مشکلات سے اُبھرنے کی قوت (Resilient) رکھتے ہیں اور اپنے ذہن میں یہ تصور کرتے ہیں کہ دوسرے اُن کے متعلق اچھا سوچتے ہیں اور وہ لوگوں سے ملنا جلنا (Socializing) پسند کرتے ہیں۔ ان کی سوشل نیٹ ورکنگ مضبوط ہوتی ہے۔
رچرڈ قسمت کو رویے (Behavior) سے جوڑتے ہیں اور رچرڈ کی ایک بات سے میں 100 فی صد متفق ہوں کہ سوشل ہونا اور نیٹ ورکنگ ہونا آپ کے لیے مواقع کو کھولتا ہے…… لیکن اچھی نیٹ ورکنگ بنانے کا موقع بھی شاید سب کو نہیں ملتا!
رچرڈ کئی ساری پیچیدگیوں اور اُٹھنے والے سوالات کو نظر انداز کرگئے اپنی ریسرچ میں۔
٭ تو پھر یہ قسمت اور محنت کا کھیل ہے کیا؟
یقینا میرے دلائل کا جھکاو قسمت کی جانب زیادہ ہے اور مَیں قسمت کے متعلق جانب دارانہ خیالات رکھتی ہوں! (آپ مجھ سے مختلف سوچ سکتے ہیں۔)
لیکن صرف قسمت یا صرف محنت میں معاملات کو تقسیم کرنا سیاہ اور سفید والا معاملہ ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ یہ ایک متضاد (Paradox) ہے۔ یہاں ایک سرمئی ایریا (Grey Area) بھی ہوتا ہے، جہاں قسمت اور محنت ایک نہ سمجھ میں آنے والے پیچیدہ عمل کا حصہ ہیں جسے سمجھنے سے ہم انسانوں کی عقل قاصر ہے۔
ہم نہیں جانتے کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے…… لیکن اگر آپ میری طرح کے مسائل کا شکار ہیں، تو اس محنت اور قسمت والے مسئلے سے نمٹتے وقت جو تجربہ مجھے ہوا، وہ آپ کے ساتھ شیئر کرتی چلوں گی۔ شاید آپ کے کام آجائے۔
٭ سب سے پہلے تو ایک انسان ہونے کے ناتے اپنی حدود کو قبول کریں کہ سب آپ کے اختیار میں نہیں۔ آپ صرف اپنی بہترین کارکردگی دے سکتے ہیں، لیکن بہترین کارکردگی آپ کو نتائج دے گی، اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔ آپ کے انتہائی سمجھ دار اور سوچے سمجھے فیصلے بھی ایسا پلٹا کھاسکتے ہیں کہ آپ کی سوچ کی بنیادیں ہل جائیں کہ یہ کیسے ہوگیا!
٭ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آپ کس جگہ اور کس گھر پیدا ہوئے ہیں، وہاں سے آپ کی زندگی کی سمت بننا شروع ہوجاتی ہے۔ زندگی کے ہر پہلو میں چاہے رشتے ہوں یا کیریئر…… ساری کامیابی کے پسِ پشت محنت نہیں ہوتی۔ اور نہ ہر غریب آدمی کی غربت کے پیچھے اس کی کاہلی یا سستی ہی ہوتی ہے۔ اس قسم کے قول نہ پڑھا کریں جس میں آپ سے کہا جائے کہ تمھاری ناکامی/ غربت/ برے رشتوں کے لیے قصوروار صرف تم ہو وغیرہ وغیرہ۔ کامیابی ہو یا ناکامی…… سارا الزام خود لیں اور نہ سارا سہرا، البتہ ذمے داری ضرور لیں۔ سمجھ لیں کہ آپ اس پیچیدہ نظام کا ایک بہت ہی معمولی سا حصہ ہیں۔
٭ دنیا میں میڈیا پر ایک فی صد کامیاب اور دلچسپ لوگوں کے انٹرویو دکھائے جاتے ہیں…… جو بہت ہی ہٹ دھرمی سے سارا کریڈٹ اپنی محنت اور لیے گئے پرفیکٹ فیصلوں کو دیتے ہیں۔ بڑی تصویر کو دیکھیں۔ ایک فی صد سے آپ کا تعلق نہیں۔ آپ کا اور میرا تعلق باقی کے 99 فی صد عام لوگوں سے ہے، تبھی ہمیں ان کی زندگیوں پر غور کرنا چاہیے۔ کیوں کہ جتنے زیادہ عام پیٹرن (Common Patterns) ہوں گے، اتنا ہی ہم اُن سے سیکھ سکیں گے اور شاید کسی حد تک عمل بھی کرسکیں۔ ایک فی صد کا تعلق انتہائی نتائج (Extreme Results) سے ہے، اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ ان نتائج تک کیسے پہنچے…… یہاں تک کہ وہ لوگ خود بھی نہیں جانتے۔
مورگن ہاؤسل کہتے ہیں کہ عموماً ہم اِس لیے لوگوں کی قسمت کو اُن کی کامیابی کے لیے ذمے دار نہیں ٹھہراتے، کیوں کہ پھر لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم اُن سے حسد کررہے ہیں…… تبھی ان کی بے پناہ محنت اور ذہانت کو قسمت پر تھوپ رہے ہیں۔
٭ جب بھی فیل ہوں، تو یاد رکھیے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے محنت نہیں کی۔ کیا نناوے فیصد کوشش نہیں کرتے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی…… یا ہم کوشش نہیں کرتے کہ اُس وقت کے حساب سے بہتر سے بہتر فیصلہ لیں؟ ایسا نہیں کہ کچھ لوگ غلط فیصلہ نہیں لیتے…… یا ہر کوئی ہمیشہ محنت کرتا ہے۔ کبھی کبھار ہم اپنی سستی یا کم علمی کی وجہ سے شاید مار کھا جاتے ہیں، لیکن اکثر محنت اور سوچ سمجھ کے باوجود بھی نتائج ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہوتے اور ہم خود کو فیل ہوتا محسوس کرتے ہیں…… لیکن ہم یہ مکمل اور صحیح طور پر کبھی نہیں جان سکتے کہ کیوں ہمیں محنت کے باوجود بھی مقصد حاصل نہیں ہوا اور کمی کہاں تھی؟ اس لیے فیل ہونے پر اپنے دشمن ہر گز نہ بنیں، خود کو معاف کرنا سیکھیں اور ذہنی اذیت (Mental Suffering) کو کم کریں۔
٭ مجھے زندگی میں کچھ ایسے مواقع ملے، جو بہت اچھے تھے…… لیکن میں ان کا فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ اس سے میری ’’خود توقیری‘‘ (Self-esteem) میں بہت کمی آئی۔ کیوں کہ مجھے لگا تھا کہ شاید کمی میرے اندر ہے، مسئلہ میرے ساتھ ہے …… بے شک کمی مجھ میں تھی…… لیکن اس کمی کے لیے کیا صرف میں اکیلی ذمے دار تھی؟؟؟؟
جس زاویے اور نظریے سے میں اپنی قابلیت کو پرکھ رہی تھی، وہ بہت غیر حقیقت پسندانہ اور ظالم تھا۔ مَیں دنیا اور کائنات کی پیچیدگی کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاہ اور سفید میں معاملات کو تقسیم کررہی تھی، جب آپ سیاہ سفید میں معاملات کو تقسیم کرتے ہیں، تو پھر یا تو آپ اچھے ہوتے ہیں یا پھر برے ۔ آپ بھول جاتے ہیں کہ زندگی کئی سارے اچھے اور کئی سارے برے کا ملاپ ہے۔ آپ کا دماغ اس پیچیدہ دنیا کو سادہ بنانے اور معاملات کو معنی دینے کے لیے سیاہ اور سفید میں تقسیم کرتا ہے، جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب ہم فیل ہوں، تو خود کو کوستے ہیں اور جب پاس ہوں، تو زمین سے دو انچ اوپر چل کر سارا کریڈٹ خود لیتے ہیں۔ ہمارا یہی رویہ دوسروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ ہم دردی (Compassion) اور قبولیت (Acceptance)کے ساتھ چلیں۔ یوں آپ خود کو اور دوسروں کو ان کی کامیابی اور ناکامی کے لیے مکمل طور پر ذمے دار نہیں ٹھہرائیں گے۔
اس لیے اپنے دماغ کو پیچیدگیوں میں لے کر جانا اور اسے اُن پیچیدگیوں اور غیر آرام دہ احساسات اور حالات (Uncomfortable Feelings) کے ساتھ آشنا کروانا ہماری ذہنی صحت کے لیے بہتر ہے۔ اور اگلی بار جب کامیاب ہوں، تو اپنی محنت اور لگن کے ساتھ ساتھ قسمت کا بھی اپنی کامیابی کے لیے شکریہ ادا کریں…… لیکن قسمت کون جس کا آپ نے شکریہ ادا کرنا ہے……؟
قسمت وہ پُراَسرار راز ہے جس کے متعلق کوئی کچھ نہیں جانتا……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔