پُرانے زمانے میں لوگوں کی ضروریاتِ زندگی انتہائی محدود تھیں، جنھیں پورا کرنے کے لیے پورے سال میں دو بار بیجائی اور کٹائی کے کام کیا کرتے تھے اور اسی سے اُن کا گزر بسر ہوجایا کرتا تھا۔ باقی پورا سال وہ ایک دوسرے کی خدمت میں جتے رہا کرتے تھے۔ اُس وقت آج کی طرح اُنھیں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی سہولیات میسر نہیں تھیں، تو وہ شام کو روٹی کھانے کے بعد حجروں میں جمع ہوجایا کرتے تھے، بزرگ رات گئے تک اُنہیں قصے کہانیاں سنایا کرتے تھے اور اُن کی اخلاقی تربیت کرتے تھے۔ اُن قصے کہانیوں میں آج کے فلموں اور ڈراموں کی طرح ہیرو ہیروئن بھی ہو ا کرتے تھے جب کہ بعض کہانیاں تو بہت سبق آموز بھی ہوا کرتی تھیں۔ یہ قصے کہانیاں سینہ بہ سینہ ہمارے نسل تک منتقل ہوئیں لیکن بعد میں اِن کی جگہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے لے لی اور ہمارے یہ اقدار و روایات مزید آگے نہ بڑھ سکیں۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
آج ہمارے ملک میں سیاسی محاذ پر عمران کی جو حالت ہے، اُس کے بارے میں پُرانے وقتوں کی ایک سبق آموز کہانی اپنی قارئین کے گوش گزار کرانا چاہتا ہوں۔ شیر اور لومڑی کی یہ کہانی ہم تک سینہ بہ سینہ اپنے بزرگوں سے پہنچی ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے:
عام طور پر شیر کو جنگل کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ ایک دفعہ شیر اور لومڑی کے درمیان کسی بات پر ناراضی پیدا ہوئی۔ شیر سے ناراضی کے سبب لومڑی کے دل میں گرہ پڑگیا اور اُس نے شیر کو سبق سکھانے اور بے توقیر بنانے کا مصمم ارادہ کیا۔ لومڑی نے جنگل میں ایک نائی کی دکان کھولی اور جنگل کے بادشاہ شیر سے استدعا کی کہ وہ اس کا افتتاح کرے۔ شیریہ سن کر ہنسا اور کہا: ’’بناؤ سنگار کے کاموں سے میر اکیا تعلق؟ یہ کام تم کسی اور سے کراؤ!‘‘ لومڑی بولی: ’’عالی جاہ! مَیں آ پ کی ریپوٹیشن بہتر بنانا چاہتی ہوں۔ آپ کے متعلق آپ کے دشمن روزانہ نت نئی افواہیں پھیلا تے ہیں۔ آپ کو تنگ نظر مشہور کیا جا رہا ہے۔ آپ کو قدامت پسند کہا جاتا ہے اور روشن خیالی کا دشمن ثابت کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ آپ نائی کی دکان کا افتتاح کریں گے، تو آپ کے متعلق یہ افواہیں خود بخود دم توڑ جائیں گی۔‘‘
شیر نے ایک لمحہ اس پر غور کیا اور پھر افتتاح کی ہامی بھری۔ شیر نے فیتہ کاٹ کر نائی کی دکان کا افتتاح کیا۔ ریچھ، لگڑ بگڑ، گیدڑ اور جنگل کے دیگر جانوروں نے بھرپور تالیاں بجائیں۔ سٹیج سیکرٹری نے مائیک پر آکر کہا: ’’شہنشاہ نے اس محفل میں آکر ثابت کردیا کہ آپ ایک روشن خیال حکم ران ہیں۔ بناو سنگار کی سرپرستی سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بادشاہ احساسِ جمال بھی رکھتے ہیں۔ خوب صورتی اور حسن کو پسند کرتے ہیں۔ یو ں بادشاہ کے خلاف یک طرفہ پروپیگنڈا ختم ہو گیا ہے۔‘‘
شیر کو یہ ساری باتیں عجیب سی لگ رہی تھیں، مگر اُس نے حاضرین کو تالیاں بجاتے دیکھا، تو اُن کی باتوں سے اُس کی اجنبیت کم ہونے لگی۔ تقریب کے بعد لومڑی نے لہنگا پہن اور سٹیج پر آکر شہنشاہ سلامت کو سلام کیا اور کہا: ’’یہ عاجز آپ کی آمد کا شکریہ اداکرتی ہے۔ اب آپ کی آمد کی خوشی میں مجرا پیش کرتی ہوں۔‘‘
پھر اُس نے جی بھر کر مجرا کیا۔ شیر پہلے تو حیرت سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ پھر اُ سے لطف آنے لگا۔ چناں چہ سرور کی یہ محفل ساری رات جاری رہی۔ صبح لومڑی جنگل کے دوسرے جانوروں کے پاس گئی اور کہا: ’’ شیر کی چیرہ دستیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اب تو مجھ ایسی شریف زادی سے زبردستی مجرا بھی کرواتا ہے۔ پہلے اُس کے ہاتھوں کسی کی جان محفوظ تھی اور نہ اب کسی کی عزت ہی محفوظ رہی ہے۔‘‘
اس طرح دو تین ملاقاتوں کے نتیجے میں وہ شیر کے خلاف جنگل کے جانوروں کا ایک اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئی۔ ایک دن لومڑی شیر کے پاس گئی اور کہنے لگی: ’’ ظلِ الٰہی اپنی جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں۔‘‘ ظلِ الٰہی اُس وقت کھانانوش فرمانے کے بعد اونگ رہے تھے۔ غنودگی کے عالم میں بولے: ’’کہو! ‘‘ لومڑی نے دست بستہ عرض کیا: ’’بادشاہ سلامت! آپ کی دھاڑ کی دھوم تو پورے جنگل میں ہے، لیکن چیتے، ریچھ، لگڑبگڑ اور سانپ آپ کے خلاف ہیں اور آپ کے خلاف ایک اتحاد بھی تشکیل دیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ ظالم جانور ہیں۔ ان سے بہ یک وقت ٹکرانا مصلحت کے خلاف ہے۔ میرے پاس ایک تجویز ہے جس سے ان کے غبارے سے ہوا نکالی جا سکتی ہے۔‘‘ شیر نے دھاڑتے ہوئے کہا: ’’تجویز پیش کی جائے!‘‘ لومڑی بولی: ’’بادشاہ سلامت! آپ کے خلاف سارا پروپیگنڈا آپ کے پنجوں اور آپ کے جبڑے کی وجہ سے ہے۔‘‘ اس پر شیر نے غصے سے لومڑی کو دیکھا اور دھاڑتے ہوئے کہا: ’’ تو کیا میں یہ نکلوا دوں؟‘‘لومڑی بولی: ’’خدا نہ کرے ایسا ہو، لیکن اگر آپ صرف پنجوں کے ناخن کٹوا دیں اور سامنے کے دو دانت نکلوا دیں، تو آپ کے مخالفین سمیت ان کا پروپیگنڈا بھی خاک میں مل جائے گا۔‘‘
شیر کو ڈر تھا کہ کہیں چیتے اور دیگر اُس کی بادشاہت کا خاتمہ نہ کرلیں۔ اُس نے بادلِ نخواستہ لومڑی کی تجویز منظور کرلی۔ اگلے روز شیر شکار کے لیے اپنے کچھا ر سے نکل کر ایک ہرن پر جھپٹا، تو ہرن نے دوڑ لگائی۔ کئی کلومیٹر دوڑ کے بعد شیر نے اُسے قابو کرلیا، لیکن جب اُس کے جسم میں اپنے پنجے گاڑنا چاہے، تو ناخن نہ ہونے کی وجہ سے پنجہ پھسل گیا اور اپنے دانت ہرن کی گردن میں گاڑنے کی کوشش کی، تو یہ کوشش بھی ناکام ہوئی۔ اس جد و جہد کے دوران میں ہرن اپنی جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے بعد شیر نے کئی دوسرے جانوروں پر پنجہ آزمائی کی، لیکن کوئی بھی اس کے قابو میں نہ آسکا۔ شام تک بھوک کے مارے اس کا برا حال ہوگیا اور بالا ٓخر وہ نڈھال ہو کرگرپڑا۔ اُس کی آنکھیں اُس وقت خوشی سے چمک اُٹھیں، جب اُس نے رات کے وقت لومڑی کو اپنی کچھار میں آتے دیکھا۔ لومڑی اُسے دیکھ کر کورنش بجا لائی، نہ اُسے ’’ظلِ الٰہی‘‘ یا ’’شہنشاہ‘‘ کہا، بلکہ ایک فاصلے سے اُسے مخاطب کیا اور طنزیہ انداز میں کہا: ’’بھوک تو بہت لگی ہوگی! ‘‘ شیر نے نقاہت سے کہا: ’’ہاں، بہت زیادہ! تم میرے لیے کھانے کا بندوبست کرو۔ مَیں نے تمھارے مشورے پر ناخن کٹوائے اور اگلے دو دانت نکلوائے۔ اب یہ تمھاری ذمے داری ہے کہ میرے لیے دو وقت کے گوشت کا بندوبست کرو!‘‘ لومڑی نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کہا: ’’بے وقوف چوپائے، کوئی کسی کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ہاں! تمھارے ساتھ چوں کہ میرا تعلق بن گیا ہے، مَیں تمھارے لیے گوشت کا تو نہیں، البتہ گھاس کا بندوبست کرسکتی ہوں۔‘‘ یہ سن کر شیر کی آنکھوں میں خون اُترآیا۔ وہ اُس پر حملہ کرنے کے لیے جھپٹا، مگر لومڑی جو پہلے سے چوکس تھی اور شیر جو ایک دن فاقے سے نڈھال تھا، اُسے پکڑنے میں ناکام رہا۔
تیسرے دن لومڑی پھر اُس کے پاس آئی۔ شیر نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑا تھا۔ اُس نے لومڑی کو دیکھا، تو کہا: ’’ مجھے گھا س کھانا منظور ہے!‘‘ لومڑی نے اُسے بے بس دیکھا، تو اُس کی آنکھیں خوشی سے چمک اُٹھیں۔ اُس نے شیر سے کہا: ’’گھاس تمھیں اِس شرط پرمل سکتی ہے کہ تم اپنے منھ سے میاؤں کی آواز نکال کر دکھاؤ!‘‘ یہ سن کر شیر کا جی چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اِس میں سما جائے، لیکن جسے اپنے وقار سے زیادہ جاں عزیز ہو، اس طرح کی خواہش پوری نہیں ہوا کرتی۔ چناں چہ شیر نے دل پر پتھر رکھ کر منھ سے میاؤں کی آواز نکالی اور پھر رحم طلب نظروں سے لومڑی کی طرف دیکھنے لگا۔ لومڑی نے حقارت سے دیکھا اور کہا: ’’یہ میاؤں کی آواز تم نے صحیح نہیں نکالی۔ کچھ دن اور ریاضت کرو۔ جب تم میاؤں کی آواز بالکل صحیح نکالنے میں کامیاب ہو جاؤگے، تو اُسی دن تمھیں باقاعدگی سے گھاس ملنا شروع ہو جائے گی۔‘‘
تحریکِ انصاف میں موجود کسی لومڑی نما سیاسی لیڈر نے عمران خان کو قومی اسمبلی چھوڑنے، پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا مشورہ دے کر اُسے شیر کی طرح ایسا بے کار بنا دیا کہ اب اُس کی حملہ کرنے کی کوئی بھی حکمتی عملی کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی صفوں میں اُس لومڑی نما سیاسی عنصر کو تلاش کرکے باہر کر دیں۔ اللہ نہ کرے کہ عمران خان اُس بے بس شیر کی طرح میاؤں کی آواز نکالنے پر مجبور ہو اور پھر بھی اُسے ریاضت کے لیے کہا جائے۔
کالم کے شائع ہونے تک شاید بہت کچھ ہوچکا ہوگا، کیوں کہ عدالت عظمیٰ نے سیاسی عدمِ استحکام ختم کرنے کے لیے مذاکرات کا حکم دیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔