’’غالبؔ‘‘ نام ہی ایسا ہے جسے پڑھنے کو جی چاہے ۔ جسے کسی گرے ہوئے بندے کو تھپکی دیتے ہوئے ادا کیا جائے، تو وہ اُٹھ کر کھڑا ہو جائے۔ غالبؔ کی زندگی میں ڈومنی کا کردار، اُن کا قمار خانہ چلانا اور خود جوا کھیلنا، پنشن کی اُمید پر لوگوں سے لمبا اُدھار اُٹھا لینا…… غالبؔ کی زندگی کے ایسے عجیب معاملات ہیں کہ ہم اُن میں دلچسپی لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جو شخصیت مشہور ہوجائے، اُس کے سارے معاملات اُوپن ہو کر رہتے ہیں۔ کیوں کہ ادیب یا شاعر عوامی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے۔ لوگ اُس پر پیسا لگاتے ہیں، اُس سے محبت کرتے ہیں اور اُسے اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عرفان احمد خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irfan-khan/
خان فضل الرحمان خاں صاحب ہمیں اس ناولٹ میں بتاتے ہیں کہ غالبؔ کا ڈومنی سے عشق آگرہ میں پروان چڑھا، جب ڈومنی کی عمر 13، 14 برس کی تھی او رخود مرزا غالبؔ 16، 17 کے سن میں تھے۔ ڈومنی کا نام ’’بنارسی‘‘ ہے جس کے گھر میں ستم بالائے ستم بیری کا درخت بھی ہے۔
’’بنارسی اپنے گھر کے چور دروازہ سے نکلی، جو ہاتھی گھر والی گلی میں تھا او رحویلی کے ڈیوڑھی پر آتے ہی بہلی نما محراب کے پاس والے زینے سے پھرتی کے ساتھ سنگین بارہ دری میں پہنچ گئی جس کے شمالی مسند نشین پر جو تین قدِ آدم کھڑکیوں کے پاس تھا، مرزا گاؤ تکیے پر کمر لگائے درودیوار دیکھ رہے تھے۔
مرزا اُسے دیکھتے ہیں اور قولی دستی کے ساتھ لب بوسی، ذقن بوسی، جبین بوسی، گلو بوسی اور خندق بوسی کا آغاز کر دیا۔ بنارسی، مرزا کی پیش دستی سے لطف اندوز ہونے کی جگہ مائل بہ غنچہ دلی ہو رہی تھی۔ پھر اُسے ملگجی کرتی، پاجامے او راوڑھنی سے عاری و مبرا کر دیا تھا۔ جسم پر صرف مہندی لگے ہاتھوں میں کانچ کی بگڑیاں رہ گئی تھیں۔ فقدان لباس سے اُس کا حُسن اور بھی کھلا۔ مسرور پنڈلیاں، گوشت بھری رانیں، موئے عیاں سے نچلے حصہ کی شیری، جس میں وہ ہر مرنج اکفل کو مات کر رہی تھی۔‘‘
یہ ناولٹ مرزا اور ڈومنی کے جذباتی او ر جوشیلے لو افیئر سے شروع ہوتا ہے۔ خاں صاحب نے زبان بھی غالبؔ ہی کے زمانے کی استعمال کرکے اسلوبیاتی سطح پر ایک لسانی کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ یہ کام ہر ادیب کے بس کانہیں۔ اس کے لیے فارسی اور اُردو زبان پر کامل عبور ازبس ضروری ہے۔ ایسی تحریریں لکھنے والے بھی دو چار ہی ہیں اور ٹھیک سے سمجھنے والے بھی۔ اسی وجہ سے اوسط درجے کا قاری ان ادبی نوادر سے حِظ اُٹھانے سے محروم رہتا ہے اور یہ اس کے سر سے گزر جاتا ہے۔
’’کشمیرن والے کڑے کا گزرنا تھا کہ بنارسی نے نگاہیں سیدھی کر لیں۔ گلی میں سامنے دوسری طرف سے اُن کا چھوٹا بھائی گزر رہا تھا۔ مبادا اُس نے دیکھ نہ لیا ہو۔ یہ سوچ کر بنارسی کمر شکستہ اور طمانیت گم کردہ ہوگئی۔ اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس کا بھائی کَہ رہا ہو! ’پلٹ تیرا دھیان کدھر ہے!‘ اُس نے مرزا کو مخاطب کیا: ’ارے اسد نوشے یہ میرا چھوٹا بھائی فِتنی تھا، اُس نے مجھے دیکھ لیا ہے۔‘
مرزا : ’دیکھ لیتا تو پکڑ نہ لیتا۔ وہ تو جھُڈو سا ہے، تو یوں ہی بیلبو ہوئی جا رہی ہے۔‘
بنارسی: ’جُھڈو تو تو ہے۔ وہ تو ایسا لافانی اور کامل بُھتنا ہے کہ نخاص میں ایک دو تین کرکے تجھے بھی نیلام کر ڈالے۔‘ ‘
آگے چل کر یکا کرنے سے پہلے بنارسی او رمرزا پکڑے جاتے ہیں۔ چھوٹے بھای فِتنی نے مخبری کر دی تھی اور فتنہ برپا کر دیا تھا۔ بنارسی اپنی پاؤں کی کاٹتی گُرگابیاں اُتار کر ہاتھ میں پکڑتی ہے اور دوڑ لگا دیتی ہے۔ مرزا بھی موقع پا کر راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ دہلی پہنچ کر مرزا بے حد خلوت دوست ہو گئے تھے۔ کبھی کبھار دریائے جمنا کے اندر بنے جزیرے پر چلے جاتے۔
’’اس سہواس میں اُنھیں ضرورتِ غسل ہوتی، تو ایک ساتھ غُسل کرتے۔ بنارسی بلوان کا ہنڈا جس کی ڈھلت ’’بجلوہ دشمن ایمان و آگہی‘‘ تھی صابن مل مل کر دھوتی تھی اور پھر وہی تولیہ سے خشک کرتی تھی۔ وہ اپنی رُماؤلی کا بلوان کی رماؤلی سے تقابل کرکے کہتی، دونوں ہی خوب ہیں اور چوسنے کے قابل۔ بلوان بھی اُس کی رماؤلی چوم لیتا تھا لیکن شروع شروع کی تھوڑی تھوڑی۔
کبھی وہ راجہ سوید بھی کَہ دیتی : ’ہائے میں تیرے پاؤں دھو دھو کر پیتی رہا کروں۔‘
ٹکیٹ ٹکیٹ کہنے پر بلوان سنگھ منھ چڑھا کر کہتا : ’بنارسی یہ مت کہا کر اس کا قافیہ ڈکیت سے ملتا جلتا ہے۔ ہم تو یوراج ہیں۔‘ ‘
لو جی مرزا صاحب فارغ۔ بنارسی ڈومنی نے نیا یار ڈھونڈ لیا۔ یہاں کسی بھائی کا کوئی خطرہ نہیں۔ مرزا اور یوراج کا موازنہ بنارسی کے نزدیک یہ تھا کہ اگر مرزا اُس کی انگلی کا چھلا نشانی کے طور پر مانگیں، تو اُتار کر چھپا لے اور انگوٹھا دکھا دے اور اگر راجہ یہی بات کہے، تو وہ اپنا ہاتھ پہونچے سے کاٹ کر بھیج دیتی کہ یہ علم نہ تھا کون سا دستِ انگشت درکا رہے۔ بلوان سنگھ بھی صاحبِ دیوان شاعر تھا، جسے ڈومنی نے مرزا پر ترجیح دی تھی۔
’’بنارسی یوراج کو نیڈ کہا کرتی تھی اور یہ اس لیے وہ چاہا کرتی تھی کہ بلوان اوروں کے ساتھ نیچے والا رہے اور صرف اس کے ساتھ اوپر والا۔ یہ اگر نیڈ بھی تھا، تو وہ اُس کی پُھنیا سے پھر کبھی آنند پا سکتی تھی اور جو وہ متول ہوتا، تو اُسے ایک دم مطوق بنا دیتی تھی۔‘‘
مرزا کی ڈومنی بنارسی اپنی مستی میں گم ہے اور اُدھر مرزا اپنے گھر کے بکھیڑوں میں پھنسے ہیں۔ اُن کی زوجہ محترمہ امراؤ بیگم اُن سے پائی پائی کا حساب لے رہی ہے۔ خرچہ ہمیشہ کی طرح زیادہ اورآمدن کم کم ہے۔ اسی دوران میں مرزا ایک طوائف شمسہ بائی سے راہ و رسم بڑھا لیتے ہیں۔
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
’’مرزا غالبؔ نے ہرے بھرے ساون میں مے نوشی سے توبہ کی تھی۔ اُن دنوں چاندنی چوک کی نہر اوپر گہرے پانی سے نہال ہوئی چل رہی تھی۔ اُس میں مرزا نے اپنا سامانِ مے نوشی غرق کیا تھا۔ اُن دنوں ہر طرف برکھا رُت کی پکاریں سنائی دے رہی تھیں۔ زمین پہ کوئل چہک اور تیتر بول رہے تھے، تو آسمان پر گھٹاؤں نے شست مشت مچائی ہوئی تھی۔ مرزا کے دیوان خانے کے سامنے کھڑے ہوئے شہتوت کے پتے متواتر پنیائے جانے سے دُھل دُھلا کر کشمیری چناروں کے پتوں سے زیادہ ہرے اور چمک دار ہو گئے تھے۔‘‘
یہ ٹکڑا منظر نگاری کی کیفیت کا خوب صورت اظہار ہے جو بندے کو شراب پینے پر اُکساتی ہے۔ مرزا تو بہ تو کرچکے ہیں اور امراؤ بیگم اُن کا روزانہ منھ بھی سونگھا کرتی ہے۔ اُسے مرزا پر کوئی اعتبار نہیں۔ شادی شدہ خواتین کی اکثریت کی طرح وہ بھی شکی ہے خاوند کے معاملے میں۔
اس ناولٹ میں مرزا کی زندگی کے دیگر بہت سے معاملات کا بھی ذکر ہے۔ جیسے اُن کا قمار بازی کے الزام میں پکڑے جانا۔ 6 ماہ کی سزا او ر200 روپے جرمانے کی ادائی کا بھی حکم، جو بہادر شاہ ظفرؔ کی سفارش کے باوجود نہ ٹل سکا او رمرزا کی خاصی رسوائی ہوئی۔
’’مرزا موسم گرما میں سحر گاں تریہہ پیا کرتے تھے اور موسمِ سرما میں بادام او رچاروں مغر کا حریرہ جس میں کبھی بھگارا ہوا کرتا تھا۔ اُس کا انصرام بیگم کیا کرتی تھیں او رمرزا انھی کے ہاتھ سے پیا کرتے تھے۔ آج حریرہ تیار تھا، لیکن مرزا کی آنکھ لگی ہوئی تھی اور بیگم نے مصلہ بچھایا ہوا تھا، جس پر وہ اشراق پڑھ کر دُعا مانگ رہی تھیں جس کے کچھ بول یہ تھے: ’اے اللہ تو انھیں شفا بخش دے، تاکہ میں ان کرنی سے بچی رہوں، تجھ سے بھی سرخرو رہوں اور قرطین حیدر۔ میں قرطین حیدر کے سامنے کس طرح سے اُس کا کاک کھولوں گی۔ کس طرح سے پاک حریرہ میں وہ ناپاک موتی ملاؤں گی؟‘‘
شراب پر پابندی مرزا کی حالت خراب کر دیتی ہے۔ مجبوراً اُن کی نمازی اور پاک باز بیگم کو حریرے میں شراب خود ملا کر دینی پڑتی ہے، مگر اب مرزا کاآخری وقت آچکا ہے۔
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں
اس طرح یہ ناولٹ ’’غالب اور ڈومنی‘‘ (جسے 1993ء میں لکھا گیا تھا) مرزا غالبؔ کی موت پر تمام ہوتا ہے۔
اسلوبیاتی سطح پر یہ ناولٹ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ اسے تحسین کے لیے ہر بڑے ادیب کے لیے پڑھنا ضروری ہے۔ خان فضل الرحمان خاں نے اپنے علم و دانش کے تمام دریا اس ناولٹ میں بہا دیے ہیں۔ یہ نثری سطح پر ہر دور کے ادیبوں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
خان فضل الرحمان خاں کی زبان کو پوری طرح سمجھنے کے لیے عام قاری کی ادب و زبان پر پوری دسترس اَزحد ضروری ہے، مگر وہ اس مرصع زبان کی آڑ میں بہت سی کھلی باتیں بھی کرگئے ہیں۔