وہ روایت شکن بھی ہے اور روایت گر بھی۔ جب کسی کے ساتھ محبت اور شفقت کا سلوک کرنا ہو، تو کُھل کھلا کر کرتا ہے۔ نفرت بھی بے دھڑک اور ببانگِ دُہل کرتا ہے۔ اگر ایک طرف شجرِ ادب کی بلند و بالا شاخوں پر بیٹھے بوڑھے اور روایتی گِدھوں کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے، تو دوسری طرف نوواردگانِ ادب کا کھلی بانہوں سے نہ صرف استقبال کرتا ہے، بلکہ جس شاعر یا نثر نگار میں آگے بڑھنے کا معمولی امکان بھی نظر آئے، اُس کی انگلی پکڑ لیتا ہے۔ اُس کے لیے راہ نما ستارا بن جاتا ہے۔ لڑکپن سے پیرانہ سالی تک ہر لمحہ متحرک اور ہر دم کچھ نیا کر گزرنے کے عزم سے سرشار اس شخص کو مَیں نے کبھی تھکتے نہیں دیکھا۔ وہ زود نویس ہے، مگر معیار پر سمجھوتا نہیں کرتا۔ اُس کی زندگی کے درجن بھر پہلو ہیں، گویا وہ ایک جنم میں کم از کم بارہ زندگیاں جی رہا ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ بارہ زندگیاں جینے والا فرحت عباس شاہ تمام زندگیوں سے مکمل انصاف کر رہا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
زندگی کے جس شعبے میں بھی گیا، ہمیشہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کا حق دار ٹھہرا۔ بیک بینچر ہونا اسے قابلِ قبول رہا ہی نہیں۔ بلیک بیلٹ ہولڈر، ننجا ماسٹر، شاعر، ادیب، کالم نگار، گلوکار، اداکار، ڈائریکٹر، میوزک کمپوزر، اینکر پرسن، موٹیویشنل سپیکر، استاد، مینیجر اور نفسیات دان، جس پہلو کا ذکر کریں، وہ ہر جگہ راج سنگھاسن پر براجمان نظر آئے گا۔ اللہ تعالا نے سیّد گھرانے میں پیدا کر کے یہاں بھی اس کی سرداری کی لاج رکھ لی۔
فرحت عباس شاہ کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ سے نوازا گیا۔ فرحت کو یہ اعزاز ملنا دراصل اس اعزاز کے لیے باعثِ توقیر ہے کہ پاکستان میں ایسی ہرفن مولا دوسری کوئی شخصیت نہیں۔ وہ بے مثال ہے، یعنی اپنی مثال آپ۔ اُسے یہ اعزاز بہت پہلے مل جانا چاہیے تھا۔ خیر! دیر آید، درست آید!
میرے نزدیک تو اُسے یہ اعزاز کم از کم بارہ بار ملنا چاہیے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کے سبب
واقعی اس کا مستحق ہے۔
فرحت عباس شاہ کو ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ ملنا اپنے اندر ایک جہانِ حیرت رکھتا ہے۔ یہ بات ہے ہی بڑی عجیب۔ وہ شخص جس نے کبھی کمپرومائز نہیں کیا، جس نے پوری زندگی دولت پر عزت کو ترجیح دی، اُس جیسا سلف رسپیکٹ کو مقدم رکھنے والا کون ہوگا! اتنی بڑی شخصیت کہ جسے لوگ پوجا کی حد تک چاہتے ہیں، اتنا بڑا شاعر کہ جس نے دو نسلوں کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ اندر سے پکا درویش ہے۔ وہ مادہ پرست نہیں، یعنی اس معاملے میں ساغرؔ صدیقی کے قبیل سے تعلق رکھتا ہے، مگر ساغرؔ کی طرح فرحت عباس نے عملی زندگی سے راہِ فرار اختیار کرنے کی بجائے ہر درپیش چیلنج کا ڈٹ کر سامنا کر کے فتح کا سہرا اپنے سر پر سجایا۔
مجھ سمیت سب کو علم ہے کہ فرحت پی آر کا قائل نہیں۔ اگر ہوتا، تو آج مقتدرہ قومی زبان یا اُردو سائنس بورڈ کا سربراہ ہوتا۔ کئی سال پہلے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی حاصل کرچکا ہوتا، مگر بے توقیر ہونا اس کے نزدیک گناہِ کبیرہ ہے۔ وہ تو سرکاری مشاعروں میں بھی بلائے جانے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ حالاں کہ غیرسرکاری مشاعروں میں پردھان ہوتا ہے۔ ایسے میں ایوارڈ کمیٹیوں کی سکروٹنی کی کسوٹی پر پورا اترنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں، لیکن یہ جوئے شیر تو وہ کئی برس پہلے نکال چکا تھا۔ وہ گیلی زمین کھود کر فرہاد نہیں بنا بلکہ اس کی ساری عمر پربتوں سے لڑتے ہوئے گزری ہے۔ وہ علم و فن کا پیمبر ہی نہیں، ادب کا گہوارا بھی ہے، جس کے اندر بہت سے نوجوانوں نے ادبی پرورش پا کر نام وری کمائی ہے۔ بلا شبہ علم و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے اس کی خدمات ناقابلِ فراموش ہی نہیں، سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔
ہمارے ملک کا بہت بڑا المیہ ہے کہ حق دار کو کبھی حق ملا ہی نہیں، مگر یہ معجزہ بھی فرحت عباس شاہ سے سرزد ہوگیا کہ اُس نے اپنے آپ کو نہ صرف حق دار منوا لیا، بلکہ اپنا حق حاصل بھی کر لیا۔ اُسے آسانی سے نہیں مانا گیا۔ اُس نے خود کو منوایا ہے۔پرائیڈ آف پرفارمنس کے لیے اُس کا کیس اتنا مضبوط تھا کہ جسے رد کرنا ممکن ہی نہ تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ جب فرحت عباس شاہ جیسے جینوئن لوگوں کو ایوارڈ دیے جائیں گے، تبھی ان ایوارڈز کی کھوئی ہوئی توقیر واپس آسکے گی۔
مَیں نے فرحت جیسی بڑی شخصیت کے لیے صیغۂ واحد غائب استعمال کیا ہے۔ اِس کی یہ وجہ نہیں کہ وہ مجھ سے قریباًڈھائی برس چھوٹا ہے، مجھے اس اعتراف میں کوئی باک نہیں کہ مَیں نے تو خود اُس کی تحریروں کو پڑھ پڑھ کر لکھنا سیکھا ہے۔ ہمیشہ فرحت عباس شاہ کو ’’مرشد‘‘ کَہ کر پکارا ہے۔ اُس کے لیے صیغۂ واحد غائب کا استعمال کرنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کوئی اور اُس جیسا نہیں۔
بہت بہت مبارک ہو مرشد! صدارتی ایوارڈ یقینا آپ کے قلم کو مہمیز کرنے کا باعث بنے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔