مرد، عورت، محبت وغیرہ

بہت سارے ایسے مرد دیکھے ہیں جو اپنی محبوب عورت کے حصول میں ناکام ہو جانے کے بعد زندگی بھر کے لیے پوری عورت ذات کے مخالف بن جاتے ہیں اور اس پر بے حسی، بے وفائی، خود غرضی اور پتا نہیں کیا کیا بدنما ٹھپے لگاتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر جب نوجوان لڑکے اس تجربے سے گزرتے ہیں، تو ان کی عورت دشمنی دیدنی ہوتی ہے۔ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ کوئی اور ان حالات سے نہیں گزرا اور وہ پہلے مظلوم انسان ہیں جنھیں اس دکھ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ جذبات میں آکر بھول جاتے ہیں کہ ہر انسان اپنے اندر ایک الگ دنیا ہے اور کسی ایک فرد کی بنیاد پر پوری جنس کے حوالے سے رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ یہ سماجی اقدار، مخصوص حالات اور اپنے پس منظر کو بھی بھول جاتے ہیں۔ انھیں ایسے شاعر، فلسفی، ادیب اور مُلّا بھانے لگتے ہیں، جو عورت دشمن(Misogynist) ہوں۔ نتیجتاً، وقت کے ساتھ ساتھ عورتوں سے متعلق ان کی نفرت بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ ممکن ہے اس فرسودہ ذہنیت کے سبب انتقاماً وہ کچھ عورتوں، خاص طور پر اپنی ہونے والی بیویوں، کا جینا حرام کر دیں، لیکن سب سے بڑھ کر یہ اپنی زندگی عذاب بنا دیتے ہیں۔ کیوں کہ نفرت کے پانی پر پلتی زندگی کبھی پُرسکون اور خوش گوار نہیں ہوسکتی۔
ظہیر الاسلام شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zaheer/
اس رویے کی ایک بڑی وجہ جوانی کے اوائل میں اُن فلموں، ناولوں اور لوک رومانوی کہانیوں کو حقیقی زندگی کے مطلق ترجمان سمجھ بیٹھنا ہے، جن کا اختتام عاشق اور معشوق کے لازمی ملاپ پر ہوتا ہے۔
وہاں تو عاشق کی محبوبہ کو دیکھنے کی دیر ہوتی ہے اور جیسے ہی یہ مرحلہ طے پاتا ہے، کوئی رومانوی گانا شروع ہوجاتا ہے اور محبتوں کا ایک پہاڑ ہوتا ہے کہ نچھاور ہوتا چلا جاتا ہے، جب کہ اس کے برعکس، اصل زندگی کافی مختلف ہوتی ہے۔
کچھ ناہنجار پیروں کے تعویذ گنڈے گلے میں ڈال کر محبوب کے قدموں میں گر پڑنے کے منتظر ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے کہ مادے کی پجاری دنیا تعویذوں پر نہیں چلتی اور بے چارے پیر نے خود مادی ضرورتوں سے مجبور ہوکر دکان کھولی ہے۔ ورنہ ایشوریا، انجلینا جولی اور لیلیٰ حاتمی بھارت، امریکہ اور ایران میں نہیں بلکہ گاؤں میں فُلاں، فُلاں اور فُلاں اطراف میں میری پڑوسنیں ہوتیں!
یہ موضوع چوں کہ اپنے سماج میں ایک ٹیبو ہے۔ اس لیے والدین، خاندان کے دوسرے بڑے اور اساتذہ نوجوانوں کو اس حوالے سے آگاہ نہیں کرتے…… بلکہ وہ کیا آگاہ کریں، جب ان میں سے بھی اکثر اپنے زمانے کے دل جلے رہے ہوں اور اگر کبھی کریدو، تو دنیا کی بے ثباتی، محبوبہ کی ستم ظریفیوں اور زمانے کی خود غرضیوں کا ایسا کھاتا کھول دیں کہ بندہ اپنے دُکھوں کے وجود ہی سے انکاری ہوجائے۔
ایک تو پاک اور بے لوث محبت جیسی کھوکھلی اصطلاحات نے بھی بہت ساروں کو گم راہ کر رکھا ہے۔ اس دنیائے آب و گِل میں ان کا کوئی وجود نہیں۔ پاک محبت کی غلط فہمی تب پیدا کی جاتی ہے، جب خاندانی ادارے پر کھڑے سماج میں بچوں کی وقتی تربیت کی خاطر کچھ فطری جبلتوں پر غلاظت کا ٹھپا لگا دیا جاتا ہے۔ اس کا اثر اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ لوگ بوڑھے اور درجوں کے باپ دادا بن کر بھی اس کے اثر سے نہیں نکل پاتے۔ بے غرض محبت کی امید شائد تب پیدا ہوتی ہے، جب بچپن میں والدین کی مخصوص شفقت، ابتدائی جماعتوں میں ’’گہری دوستی‘‘ کے موضوع پر اسباق، ماورائے حقیقت رومانوی لوک داستانوں اور فلموں سے پالا پڑ جاتا ہے۔
کوئی بھی رشتہ بے غرض نہیں ہوتا اور اس میں چھپی خود غرضی کے ظہور کے لیے محض اس کے اوپر چھڑائی گئیں مقدس تہوں کے ادھیڑے جانے کی دیر ہوتی ہے۔ انسان ہی نہیں، ہر ذی روح فطرتاً خود غرض ہے۔آپ ڈارون کو لاکھ دھتکارتے رہیں، لیکن زندگی اس کے پیش کیے ہوئے تصور "Survival of the Fittest” ہی کی بنیاد پر قائم ہے۔ مسئلہ فقط اتنا ہے کہ ہم خود(Self) سے اس قدر دور رہتے ہیں کہ کبھی اپنے ذاتی رجحانات اور تعصبات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے اور ہمیشہ دوسروں کو پرکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔
محبت کی تو بنیاد ہی خود غرضی پر ہے۔ انسان اپنے مخصوص جمالیاتی اور رومانوی ذوق کی تسکین ہی کے سلسلے میں کسی مخصوص شخص پر فریفتہ ہوتا ہے، نہ کہ بے لوث جذبات کے زیرِ اثر کسی دوسرے کی زندگی سنوارنے کے لیے…… اس خدمت کے لیے اور بھی کروڑوں انسان ہوتے ہیں۔ اگر ایسا کوئی جذبہ وجود رکھتا ہو، تو بھی اس کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے اور وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ آپ کو اس مخصوص شخص کی خوشی سے خوشی ہوتی ہے۔ آپ کسی کی خاطر جان پر کھیلیں، تو بھی اس کو بے غرض ثابت نہیں کرسکتے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو بچ نکلنے اور نتیجے میں کوئی انعام پانے کی توقع ہو، مرنے کے بعد نام کمانے کی امید ہو، اپنے ضمیر کی تسکین کے لیے ایسا کیا ہو…… اور یا ہوسکتا ہے پیچھے سے کسی نے ’’دھکا‘‘ دیا ہو۔
برسبیلِ تذکرہ، ایک شخص نے جب دریا کنارے خاموش تماشائیوں کے درمیان میں سے اچانک چھلانگ لگا کر ایک ڈوبتے شخص کی جان بچائی، تو لوگوں نے بہت داد دی۔ اُس نے کچھ توقف کے بعد کہا، یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن مجھے یہ دھکا کس نے دیا تھا؟
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بے غرض محبت نامی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔ لہٰذا جب کوئی اپنا مفاد کہیں اور دیکھ کر راستہ الگ کرلیتا ہے، تو اُسے کھلے دل سے قبول کرلینا چاہیے اور اگر ایسا نہ بھی کیا جاسکے، تو کم از کم اس کی بنیاد پر انسانوں کی آدھی آبادی کو برا بھلا کہنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
محبت اور ازدواجی تعلقات کے سلسلے میں ایک بڑی غلطی محبوب یا شریکِ حیات کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ بیٹھنا اور اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہنا ہے۔ اگر آپ لاکھ چاہیں، تو بھی ایسا ممکن نہیں اور انتہائی قربت کے باوجود کہیں نہ کہیں وہ سرحد ضرور آتی ہے جہاں ہماری اس انفرادی ذات کی شروعات ہوتی ہے، جہاں ہم خود بھی مہمانوں کی طرح چکر لگاتے ہیں۔ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جیسے میں اپنی ذات میں ایک الگ تھلگ فرد ہوں، اسی طرح دوسرے بھی ہیں اور محض اس وجہ سے کسی کو اپنا قرار دینا کہ وہ آپ کو بھاتا ہے، چاہے مخصوص حدود سے بڑھ کر اس کو آپ ایک نظر بھی نہ بھاتے ہوں، محض بے وقوفی کے سوا اور کیا ہے……؟
نفسیات اور فلسفے کا مطالعہ اسی لیے ضروری ہے، تاکہ ہم اپنی فطرت کی پرتوں کو کھوج سکیں اور دیکھ سکیں کہ جذبات اور احساسات کیا ہیں؟ کہاں سے امڈتے ہیں اور کیسے کنٹرول کیے جا سکتے ہیں؟
سماجیات سے شناسائی کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مخصوص انسانی فطرت کے بل بوتے پر کھڑے معاشرے میں زندگی گزارنے کا ہنر آجاتا ہے۔ جب آپ غصہ ہونے کے قریب ہوتے ہیں، یا پھر غصہ ہوچکے ہوتے ہیں، تو کبھی غور کیا ہے کہ اس مخصوص توانائی اور جذبے کا نزول کہاں سے ہو رہا ہے، وقت کے ساتھ بڑھ رہا ہے یا پھر گھٹ رہا ہے، اس پر قابو بھی پایا جا سکتا ہے کہ نہیں…… نیز اگر فُلاں حرکت کی جائے، تو کیا نتیجہ نکلے گا……؟ ہم ایسا کم ہی کرتے ہیں۔ کیوں کہ جیسا کہ کہا جاتا ہے، ہم اس وقت آپے سے باہر ہوتے ہیں۔ ہم خود کو تنقیدی مشاہدے کا موضوع کم ہی بناتے ہیں، لیکن خود کو فتح کرنا ناممکن بالکل نہیں۔ بس تھوڑی سی مشق اور مطالعے کی ضرورت ہوتی ہے۔
جس طرح کسی مرد کا اپنے مخصوص تجربے کی بنیاد پر پوری عورت ذات کے حوالے سے کوئی حتمی رائے دینا غلط ہے، بالکل اُسی طرح عورت کا کسی ذاتی نوعیت کے مشاہدے کی بنیاد پر پوری مرد ذات کو کوسنا بھی اُتنا ہی غلط ہے۔
ہاں…… البتہ ہمارے ہاں مرد کا اپنی جسمانی طاقت (مردانہ طاقت کی بات نہیں کر رہا، اس کی وضاحت تو اس دیس میں متعلقہ حکیموں کی تعداد اور اشتہارات سے بھری دیواریں کرتی رہتی ہیں) کے بل بوتے پر عورت کو یرغمال بنائے رکھنا اور نتیجتاً عورت کا پوری مرد ذات سے مایوس ہوجانا سمجھ سے بالاتر بالکل نہیں۔
زندگی بہت وسیع ہے۔ یہاں امکانات کی کوئی کمی نہیں۔ اس لیے خود کو بھی محدود نہیں کرنا چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے