الیکشن کا مسئلہ سپریم کورٹ نے مسئلہ حل کردیا مگر اب حکومت سیکورٹی کا بہانہ بنا کر الیکشن سے فرار چاہتی تھی۔ حالاں کہ ملک میں سیکورٹی کی صورتِ حال اتنی خراب نہیں، جتنی 2008ء اور 2013ء کے عام انتخابات کے دوران میں تھی۔ 2018ء میں بھی صورتِ حال اتنی بہتر نہیں تھی۔ 2008ء میں انتخابات 18 فروری کو ہوئے تھے۔ اس وقت سیکورٹی کی صورتِ حال انتہائی مخدوش تھی۔ کیوں کہ سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو انتخابات سے صرف دو ماہ قبل 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اکتوبر 2007ء میں کراچی میں بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے منعقد ہونے والی پیپلز پارٹی کی ریلی میں دھماکے کے نتیجے میں 180 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ جولائی 2007ء میں لال مسجد آپریشن بھی دیکھا گیا۔ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بھی عام انتخابات دسمبر 2007ء سے محض دو ماہ قبل قائم ہوئی تھی۔ 2007ء میں 639 دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں 1940 افراد ہلاک اور 2807 زخمی ہوئے۔ جنوری 2008ء میں 39 حملوں میں 459 افراد ہلاک ہوئے، جو زیادہ تر خیبر پختونخوا اور سابق فاٹا کے علاقے میں ہوئے۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
2022ء کے دوران میں پاکستان کو 380 عسکریت پسند حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں 539 افراد ہلاک اور 836 زخمی ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ 2007ء کے مقابلے 2022ء میں اموات میں 72 فی صد اور زخمیوں کی تعداد میں 70 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ صرف جنوری 2008ء کے عام انتخابات سے پہلے اموات کی تعداد 2022ء کے پورے سال سے زیادہ تھی۔ 2013ء میں عام انتخابات 11 مئی کو ہوئے تھے اور اس سے پہلے کے چار ماہ میں ملک میں 366 دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں 1120 افراد ہلاک اور 2151 زخمی ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان چار مہینوں میں 2022ء کے پورے سال کے مقابلے میں 52 فی صد زیادہ اموات اور 61 فی صد زیادہ زخمی ہوئے جب کہ 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران میں دہشت گردوں کا بڑا ہدف سیاسی جماعتیں تھیں۔ 2013ء کے الیکشن ہی میں 60 روزہ انتخابی عمل کے دوران میں مختلف امیدواروں، انتخابی دفاتر، مختلف سیاسی جماعتوں کے جلسوں، پولنگ سٹیشنوں اور الیکشن کمیشن کے دفتر پر 59 حملوں میں کم از کم 119 افراد ہلاک اور 438 سے زائد زخمی ہوئے۔ اے این پی، پی پی پی، ایم کیو ایم اور آزاد امیدوار 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران میں دہشت گردوں کا بڑا ہدف تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 2021ء کے مقابلے میں 2022ء کے دوران میں دہشت گردانہ حملوں میں تقریباً 32 فی صد اضافہ ہوا، تاہم حالات 2008ء اور 2013ء کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔ پاکستانی سیکورٹی فورسز بھی 2008ء اور 2013ء کے مقابلے میں بہتر تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اس لیے اگر ان حالات میں سپریم کورٹ نے آئین کی پاس داری کرتے ہوئے ایک تاریخی فیصلہ دیا ہے، تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ اس فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے انتخابات از خود نوٹس میں فیصلہ دیتے ہوئے 90 روز میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کروانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے صدرِ مملکت کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے پنجاب جب کہ خیبر پختونخوا میں گورنر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے الیکشن کی تاریخ دینے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے صدر کا 20 فروری کا حکم پنجاب کی حد تک درست قرار دیتے ہوئے کے پی اسمبلی کے لیے کالعدم قرار دے دیااور کہا کہ گورنر خیبر پختونخوا فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دیں اور تمام وفاقی اور صوبائی ادارے الیکشن کمیشن کو سیکورٹی سمیت ہر طرح کی امداد فراہم کریں۔ چیف جسٹس نے 22 فروری کو انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
حکم ران اتحاد نے بینچ میں شامل 2 ججوں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض اٹھایا تھا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی خود کو بینچ سے علاحدہ کرلیا تھا، جس کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ پنج رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ پنجاب اور کے پی انتخابات از خود نوٹس کی 4 سماعتیں ہوئیں اور گذشتہ روز 7 گھنٹے کی طویل سماعت میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا کہ آئینی طور پر انتخابات 90 روز میں ہوں گے۔ کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا۔ انتخابات وقت پر نہیں ہوئے، تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ ہماری عدلیہ جرات، بہادری اور دلیری سے اپنا کام کررہی ہے۔ ورنہ ہمارے سیاست دانوں کے کارنامے تو سب کے سامنے ہیں،جو قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ وہ دن نہ جانے کب آئے گا، جب ہمارا مزدور بھی خوش حال ہوگا……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔