سوشل میڈیا خود پسندوں کی جنت

کسی وقت ہمارے نارساسسٹ (Narcs) کو دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے گھر سے باہر جانا پڑتا تھا، بہت محنت کرنی ہوتی تھی، اپنی گفت گو کے انداز پر کام کرنا ہوتا تھا، تاکہ لوگوں کو اپنا دیوانہ بنا سکیں، لیکن اب اس محنت کی ضرورت نہیں رہی۔ اب گھر بیٹھ کر ہی نارساسسٹ اپنی شان دار سوشل میڈیا پروفائل سے ہی دنیا کو بتاسکتے ہیں کہ وہ کتنے امیر، ہم درد، ذہین اور خوب صورت انسان ہیں!
سوشل میڈیا نارساسسٹ کا پلے گراؤنڈ (Playground)، سوشل میڈیا نارساسسٹ کی جنت ہے۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر کے لیے ذیل میں دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
مجھے ایک مرتبہ ایک خاتون نے تھراپی سیشن کے لیے رابطہ کیا، جس نارساسسٹ کے ساتھ وہ ٹروما بونڈڈ (Trauma Bonded) تھیں، وہ کوئی بہت ذہین فطین انسان تھا (یقینا صرف اپنی فیس بک وال پر)، اور وہ خاتون اُس کو چھوڑ نہیں پارہی تھیں۔ ایسے ہی کچھ نارساسسٹ یا وہ لوگ جو نارساسسٹ نہیں بھی ہیں اور چوں کہ سوشل میڈیا کو ڈیزائن ہی اس طرح سے کیا گیا ہے کہ آپ اپنی وال پر حقیقت سے زیادہ خوش، طاقت ور، امیر اور خوب صورت معلوم ہوتے ہیں، لوگوں سے توثیق (Validation) حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اس میں لوگوں کا قصور نہیں بلکہ یہ پلیٹ فارم ہی اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ آپ دوسروں کو ’’شیم‘‘ نہیں کرسکتے اپنی شان دار زندگی کی نمایش کرنے کے لیے، کیوں کہ یہ پلیٹ فارم ہے ہی اس کے لیے …… جس پر اس کا منفی اثر ہے، وہ اسے استعمال کرنا چھوڑ دے۔
اب ایسے میں وہ بچے جو ’’ٹین ایج‘‘ میں ہیں، یا وہ لوگ جو ٹروما سے گزرے ہیں، یا پھر جذباتی لحاظ سے کم زور لوگ (جن میں اعتماد یا خود توقیری کی کمی ہو) جنھیں اس بات کی آگاہی نہیں کہ سوشل میڈیا کے الگوریتھم (Algorithms) کس طرح سے ڈیزائن ہوئے ہیں، ایسے لوگ نارساسسٹ کی خاص سپلائی (Premium Supply) ہوتے ہیں (وہ لوگ جنھیں یہ نہیں معلوم کہ سپلائی کیا ہوتی ہے، ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ جیسے آپ کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت رہتی ہے ویسے ہی ہمارے نارکس کو اپنے گہرے عدم تحفظ سے بھاگنے کے لیے دوسروں کی توجہ اور توثیق کی تقریباً ہر وقت ضرورت رہتی ہے اور اسے سائیکالوجسٹ نارساسسٹک سپلائی "Narcissistic Supply”کہتے ہیں) اور نارساسسٹ جانتے ہیں کہ انھیں استعمال کرنا بہت آسان ہے۔ کامیاب، حسین، امیر اور خوش چہروں سے بھرپور لوگ دیکھ کر عموماً جذباتی طور پر کم زور لوگ مایوسی اور تکلیف کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ہمارے دماغ ویسے بھی موازنہ کرنے کے لیے ڈیزائن ہوئے ہیں، لیکن ایسے میں تو موازنہ کی ساری حدیں ٹوٹ جاتی ہیں…… اور یہی وجہ ہے کہ آپ کا دماغ لاشعوری طور پر سوشل میڈیا پر موجود تصاویر اور لوگوں کی لگژری زندگیاں دیکھ کر ڈپریشن میں چلا جاتا ہے۔
کال نیوپورٹ کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر ہیں اور انھوں نے بہت پہلے ہی سوشل میڈیا کے زوال کی پیشین گوئی کردی تھی (جس کی شروعات ہوچکی ہے بقول کال نیوپورٹ کے: ’’سوشل میڈیا اور کچھ نہیں بلکہ ایک توجہ کھینچنے والی مشین (Distraction Machine) ہے۔ سوشل میڈیا ایک بہت ہی بہترین سا بلبلا (Bubble) بناتا ہے جس میں داخل ہوتے ہی آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا اس دنیا پر بہت بڑا اثر (Impact) ہے، یا آپ جو بھی کررہے ہیں، سوشل میڈیا پر وہ بہت ضروری ہے، یا پھر آپ کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا پر جو ہورہا ہے، دراصل یہی اصل ایشوز ہیں یا پھر یہی حقیقت ہے، وغیرہ وغیرہ‘‘
لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کا کوئی اتنا زیادہ اثر نہیں۔ آپ کی بات کی یا آپ کی کچھ خاص اہمیت نہیں۔ آپ کا اثر یا تو بہت معمولی یا پھر اتنا ہی ہے کہ ان تمام پلیٹ فارم کے مالکان کے بینک اکاؤنٹ آپ کی وجہ سے بھر رہے ہیں۔ یہ سب سننے میں کڑوا ہے، لیکن یہی حقیقت ہے۔
ہم انسانوں کا ارتقا ’’فوکس‘‘ (Focus) کرنے کے لیے نہیں ہوا۔ ہمیں فوکس والے ’’مسلز‘‘ (Muscles) کو مشق کروانا پڑتی ہے اور ستم ظرفی دیکھیے وقت کی کہ ایک تو ماڈرن دنیا میں سارا علمی کام (Knowledge-based Work) جس کے لیے فوکس اور توجہ کی ضرورت ہے اور اوپر سے ہمارے ارد گرد توجہ کھینچنے والی مشینوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ ایسے میں فوکس کس طرح کیا جائے ؟
مَیں نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ کتابیں تب پڑھیں اور میری صحت تب بہت اچھی تھی، جب پورے ڈیڑھ سال کے لیے میں نے اپنے فون سے سارے سوشل میڈیا ایپس ہٹا دیے تھے اور میرا سارا فوکس صرف خود پر تھا۔ مَیں فون کو بہت کم استعمال کرتی تھی۔ اب بھی میری حدود ہیں فون کو استعمال کرنے کی، لیکن یہاں سب سے زیادہ مسئلہ پیغامات (Instant Messaging) کا ہے۔ ہم سب کو فوراً جواب چاہیے۔ مَیں پیغامات کا جواب بہت کم دیتی ہوں۔ کیوں کہ یہ سب سے زیادہ ٹائم کھا جاتے ہیں…… اور آپ کا پہلا فرض اپنی صحت، سکون، کام، فیملی ہے اور پھر باقی کا وقت آپ ان لوگوں کو دے سکتے ہیں جن سے آپ کی ذات کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ہر وقت میسج کرنا یا میسج کا جواب دینا آپ کے فوکس کو تباہ کردیتا ہے۔ طالب علم خود کو میسج وغیرہ سے دور رکھا کریں۔
یہ کہنا کہ ’’سوشل میڈیا چھوڑ دیں‘‘ مسئلے کا حل نہیں…… اور نہ ہمارے کہنے پر بچے اسے استعمال کرنا چھوڑ دیں گے۔ میرے مطابق (ضروری نہیں کہ جو مَیں کہوں وہ درست ہو) آپ بس ایک بات ذہن میں رکھیں کہ سوشل میڈیا کوئی انقلابی ٹیکنالوجی نہیں۔ یہ پرائیوٹ کمپنیاں اپنا فائدہ دیکھتی ہیں اور اس کے لیے یہ کچھ بھی کرسکتی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ یہ یوں غائب ہوجائے گی کہ جیسے کبھی تھی ہی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ مارک زکربرگ مختلف جگہوں پر سرمایہ لگا رہا ہے جو مستقبل کی ٹیکنالوجی ہوگی۔ فیس بک سمیت کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بہت مسائل کا سامنا ہے۔ یوں سوچیں کہ اس کا زوال شروع ہے اور اس زوال کو شروع کرنے میں ٹک ٹاک کا کردار ہے، جس نے فیس بک اور دیگر ایپس کو بہت مشکل وقت کا سامنا کروایا ہے۔
آپ اسے استعمال کریں، بس کچھ دیر کی وقت گزاری کے لیے یا اپنے خیالات یا تجربات شیئر کرنے کے لیے (شیئر کرنے کے لیے، کریں مسلط کرنے کے لیے نہیں)، یا پھر بزنس کے لیے۔ یوں سوچیں کہ آپ کا کوئی خاص اثر (Impact) نہیں۔ آپ کی تصاویر، آپ کا لکھا ہوا یا آپ کی وڈیو، کروڑوں آرٹیکلز اور وڈیوز میں سے ایک ہے، جو کچھ ہی دیر میں اپنا اثر کھو دیتی ہیں…… اور انٹرنیٹ کی دنیا میں گم ہوجاتی ہیں۔ یاد رکھیں کوئی نہ کوئی ہمیشہ ہوگا جو آپ سے زیادہ بہتر ہوگا۔ آپ اتنے اہم نہیں جتنا آپ کو فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم محسوس کرواتے ہیں۔ آپ سے اچھے اچھے آئے اور چلے گئے۔ آپ کا بھی ٹائم جائے گا۔
یوں سوچیں کہ یہاں نارساسسٹ کی ایک بڑی تعداد بیٹھی ہے جو اپنی مصنوعی اور جھوٹ سے بھری پروفائل کو سجائے اپنے شکار ڈھونڈنے کی طاق میں ہوتی ہے ، انکا شکار بننے سے خود کو بچائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے