اعتماد کا ووٹ کیسے حاصل کیا جاتا ہے؟

’’اعتماد کا ووٹ‘‘ (Vote of Confidence) جمہوری طرزِ اقتدار میں ایک حسبِ دستور عمل ہے، جس میں لوگ یعنی اراکینِ اسمبلی اس لیے ووٹ دیتے ہیں، تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ ’’لیڈر آف دی ہاؤس‘‘ یعنی وزیرِ اعظم کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں؟
اختر حسین ابدالی کی دیگر تحاریر کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akhtar-hussain/
آئین پاکستان کے آرٹیکل 96 (A) کے مطابق وزیرِ اعظم کو جب بھی ایوان سے اعتماد کی ضرورت ہو، تو اسے قومی اسمبلی کی کل تعداد کے نصف ارکان سے زاید یعنی کم از کم 172 ارکانِ اسمبلی کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر وہ اسمبلی میں اپنا اعتماد کھو دیں گے ۔
آمدم بر سرِ مطلب، اراکینِ اسمبلی کی طرف سے ریفرنڈم میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی میں وزیرِ اعظم اگر 51 فی صد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں، تو سمجھا جائے گا کہ وہ حکومت سنبھالنے کے ’اہل‘ نہیں۔
قواعد کے مطابق وزیرِ اعظم کے انتخاب اور اعتماد کے ووٹ کا طریقۂ کار تقریباً ایک جیسا ہے…… لیکن بنیادی فرق صرف اتنا ہے کہ اعتماد کے ووٹ میں اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ کیوں کہ اعتماد کے ووٹ میں مطلوبہ تعداد کو پورا کرنا حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔
قومی اسمبلی کے ’’رولز آف بزنس‘‘ کے قاعدے 36 اور شیڈول دوم کے مطابق اجلاس شروع ہونے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی پانچ منٹ تک ایوان میں گھنٹیاں بجاتے ہیں، تاکہ تمام ارکان کی حاضری یقینی بنائی جاسکے۔ اس کے بعد ایوان کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، تاکہ کوئی رکن باہر جاسکے نہ کوئی باہر سے اندر ہی آسکے۔
سپیکر وزیرِ اعظم پر اعتماد کی قرارداد پڑھنے کے بعد ارکان سے کہیں گے کہ ان کے حق میں ووٹ ڈالنے کے خواہش مند شمار کنندگان کے پاس اپنا ووٹ درج کروا دیں۔ شمار کنندگان کی فہرست میں رکن کے نمبر کے سامنے نشان لگا کر اس کا نام پکارا جائے گا۔
قواعد کے تحت ووٹ درج ہونے کے بعد ارکان ہال کی لابیز میں انتظار کریں گے۔ تمام ارکان کے ووٹ درج ہونے کے بعد سپیکر رائے دہی (ووٹنگ) مکمل ہونے کا اعلان کریں گے۔ جس کے بعد سیکرٹری اسمبلی ووٹوں کی گنتی کرکے نتیجہ سپیکر کے حوالے کر دیں گے۔
سپیکر دوبارہ دو منٹ کے لیے گھنٹیاں بجائیں گے، تاکہ لابیز میں موجود ارکانِ قومی اسمبلی ہال میں واپس آ جائیں…… جس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نتیجے کا اعلان کر دیں گے۔
وزیرِ اعظم پر اعتماد کی قرار داد منظور یا مسترد ہونے کے بارے میں قومی اسمبلی کے سپیکر صدرِ مملکت کو تحریری طور پر آگاہ کرنے کے پابند ہیں۔
قارئین، وزیرِ اعلا کا طریقۂ انتخاب، ان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد یا اعتماد کا ووٹ بالکل وزیرِ اعظم کی طرح ہوتا ہے، لیکن فرق صرف اراکینِ اسمبلی کی تعداد میں ہوتی ہے۔ کیوں کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں اراکین کی تعداد ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے