صنعتِ مُراعاۃ النظیر

مولوی نجم الغنی (رام پوری) اپنی تالیف بحرالفصاحت کے صفحہ نمبر 196 پر صنعتِ مراعاۃ النظیر کی تعریف کچھ یوں رقم کرتے ہیں: ’’کلام میں ایسے الفاظ استعمال کرنا جن کے معنی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ، سوائے نسبتِ تضاد کے، کچھ مناسبت رکھتے ہوں۔ جیسے چمن کے ذکر کے ساتھ گل و بلبل و باغباں وغیرہ کا ذکر کرنا۔‘‘
امجد علی سحابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/sahaab/
اس طرح صنعتِ مراعاۃ النظیر کی سادہ سی تعریف آزاد دایرۃ المعارف (وکی پیڈیا) پر یوں موجود ہے:
’’کلام میں شاعر جب ایک چیز کا ذکر کرے اور پھر اُس چیز کی مناسبت سے اور چیزوں کا ذکر اگلے مصرعے میں کرے جن میں کوئی تضاد نہ ہو، صنعتِ مراعاۃ النظیر کہلاتی ہے۔‘‘
ایک آسان سی تعریف ہمیں خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بُک بورڈ کی شایع کردہ سالِ اول کی اُردو کتاب کے صفحہ نمبر 119 پر یوں ملتی ہے:
’’کلام میں ایک چیز کی مناسبت سے مختلف چیزوں کا ذکر کرنا، جن میں کوئی تضاد نہ ہو ’’مراعاۃ النظیر کہلاتا ہے۔ مثلاً
ہو مرا ریشۂ اُمید وہ نخلِ سرسبز
جس کی ہر شاخ میں ہو پھول، ہر اِک پھول میں پھل
اس شعر کے پہلے مصرعے میں نخلِ سرسبز کی مناسبت سے شاخ، پھول اور پھل کا ذکر کیا گیا ہے۔‘‘
جب کہ ’’اُردو لغت‘‘ (آن لائن) کے مطابق اس کی تعریف یوں ہے:
’’ایک شعری صنعت جس میں باہم مناسبت رکھنے والی چیزوں کا ایک جگہ ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً: ایک شعر میں چمن، پھول، سبزے وغیرہ کا ذکر کرنا۔ اس کو ’صنعتِ تناسب‘ بھی کہتے ہیں۔‘‘
مولوی نجم الغنی رام پوری کے بقول: ’’اِس کو ’تناسب‘، ’توفیق‘، ’ایتلاف‘ اور ’تلفیق‘ بھی کہتے ہیں۔‘‘
یعنی اسے ’’صنتِ تناسب‘‘، ’’صنعتِ توفیق‘‘، ’’صنعتِ ایتلاف‘‘ اور ’’صنعتِ تلفیق‘‘ بھی کہتے ہیں۔
اس حوالے سے مولوی نجم الغنی رام پوری نے بحرالفصاحت میں کئی اشعار نمونتاً دیے ہیں، جن میں سے ذیل میں دیا جانے والا ایک خوب صورت شعر ملاحظہ ہو، جو موصوف کا اپنا شعر ہے، کیوں کہ اس کے اوپر ’’لمؤلفہ‘‘ رقم کیا ہے:
کاکُل ہے رشکِ لام، تری زلف جیم ہے
مثلِ الف ہے قد، دہنِ تنگ میم ہے
شعر کا بغور جایزہ لیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’کاکُل‘‘، ’’زُلف‘‘، ’’قد‘‘ اور ’’دَہن‘‘ باہم مناسبت رکھنے والی چیزیں ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں۔ اس وجہ سے یہ مُراعاۃ النظیر کی بہترین مثال ہے۔
ایک اور مثال بحر الفصاحت ہی سے ملاحظہ ہو:
چشم بادام، دہن پستہ، زنخداں ہے سیب
کتنے پھل ایک نہالِ قدِ جاناں میں لگے
مولوی نجم الغنی رام پوری کے مطابق یہ شعر خواجہ وزیر کا ہے۔ اس کا جایزہ لیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’چشم‘‘، ’’دہن‘‘، ’’زنخداں‘‘ اور ’’قد‘‘ نہ صرف مناسبت رکھنے والی چیزیں ہیں بلکہ ان میں کوئی تضاد بھی نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے