ریکوڈیک، پاکستان کے روشن مستقبل کا ضامن منصوبہ

بلوچستان حکومت اور بیرک گولڈ کارپوریشن کے درمیان 8 ارب ڈالر کا ریکوڈک منصوبے کا تاریخی معاہدہ طے پا گیا، جس پر وفاق کے نمایندے نے بھی دستخط کردیے۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا بیرونی سرمایہ کاری کا معاہدہ ہے جس کی مجموعی لاگت 8 ارب ڈالر ہے۔ اس معاہدہ پر دستخط کے بعد پاکستان پر بین الاقوامی عدالت کی جانب سے عاید 6.5 ارب ڈالر کا جرمانہ بھی غیر موثر ہوگیا۔
معاہدہ 16 دسمبر 2022ء سے نافذ العمل ہوگیا جس کے تحت کمپنی کام کا فوری آغاز کرے گی۔ اس معاہدے پربیرک گولڈ کارپوریشن کے نمایندے حکومتِ پاکستان کی جانب سے وفاقی نمایندے اور بلوچستان حکومت کے نمایندے نے دستخط کیے ہیں۔
ریکوڈیک مائن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک بند مائننگ آپریشن ہے، جو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے ریکوڈک قصبے کے قریب واقع ہے۔ ریکوڈک دنیا میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے ذخایر میں سے ایک ہے، جس کے تخمینے کے مطابق یہاں 5.9 بلین ٹن خام دھات کے ذخایر ہیں، جن میں 0.41 فی صد تانبے اور سونے کے ذخایر 41.5 ملین اونس ہیں۔
ریکوڈک کا علاقہ ٹیتھیان میگمیٹک آرک کا حصہ ہے، جو وسطی اور جنوب مشرقی یورپ (ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، یونان) ترکی، ایران اور پاکستان کے ہمالیہ کے علاقے سے ہوتا ہوا میانمار، ملائیشیا، انڈونیشیا اور پاپوا نیو گنی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس میں مختلف درجات کے تانبے اور سونے کے بڑے ذخایر موجود ہیں۔
بیلٹ کے مشرقی اور وسطی حصے عالمی معیار کی معدنیات کی فراوانی کے لیے مشہور ہیں…… جیسے کہ گراسبرگ، انڈونیشیا میں باتو حجاؤ، پاپوا نیو گنی میں اوکے ٹیڈی اور ایران میں سر چشمہ جب کہ مشرقی یورپ میں یہ عالمی معیار کے پورفیری/ ایپتھرمل کلسٹر کی میزبانی کرتا ہے۔ سربیا میں مجڈانپیک اور حالیہ پیش رفتوں میں اسکوریز اور اولمپیا یونان، اور ترکی میں چاپلر شامل ہیں۔
ریکوڈک کا علاقہ پہاڑوں کے چاغی آتش فشاں سلسلہ میں بہت سے کٹے ہوئے بقیہ آتش فشاں مراکز میں سے ایک ہے، جو کوئٹہ تفتان ریلوے لائن اور افغانستان کے ساتھ سرحد کے درمیان بلوچستان کے اس پار مشرق و مغربی لائن میں گزرتا ہے۔
پہلے حکومت پاکستان نے یہ معاہدہ 25 فی صد پر "Tethyan Copper Company Limited”نے حاصل کیا تھا۔ ٹیتھیان گروپ جنوب مغربی پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کی پہاڑیوں میں ریکوڈک تانبے سونے کے ذخایر کو تیار کرنے کا کام شروع کرنے ہی والا تھا کہ معاملہ عدالت میں چلا گیا۔
اس وقت ریکوڈک میں معدنی وسایل کا تخمینہ 5.9 بلین ٹن ہے، جس کا اوسط کاپر گریڈ 0.41 فی صد اور اوسطاً گولڈ گریڈ 0.22 گرام فی ٹن ہے۔ گروپ کا اس وسیلہ کا 37.5 فی صد حصہ 2.2 بلین ٹن بنتا تھا۔ ٹیتھیان نے منصوبے کے حوالے سے فزیبلٹی اسٹڈی مکمل کی اور اگست 2010ء میں اسے حکومتِ بلوچستان کو جمع کروادی۔ 15 فروری 2011ء کو ٹیتھیان نے بلوچستان کے معدنی قوانین کے مطابق مائننگ لیز کے لیے حکومتِ بلوچستان کو ایک درخواست جمع کرائی۔ 15 نومبر 2011ء کو حکومتِ بلوچستان کی طرف سے ٹیتھیان کو مطلع کیا گیا کہ حکومت نے کان کنی کی لیز کے لیے اس کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ ٹیتھیان نے اپنے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی ثالثی کے لیے درخواست دے دی اور ٹیتھیان ثالثی کی کارروائی میں کامیاب ہوگیا۔ آئی سی ایس آئی ڈی ٹربیونل نے پاکستان اور ٹی سی سی کے درمیان تنازعہ اس وقت اٹھایا تھا، جب مؤخر الذکر نے 8.5 بلین ڈالر کا دعوا کیا تھا۔ جب بلوچستان کی مائننگ اتھارٹی نے 2011ء میں صوبے میں کئی ملین ڈالر کی مائننگ لیز کے لیے اس کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
ٹیتھیان کی ویب سائٹ پر دست یاب تفصیلات کے مطابق ریکوڈک مائننگ پراجیکٹ تقریباً 3.3 بلین ڈالر کی لاگت سے عالمی معیار کے تانبے اور سونے کی اوپن پٹ مائن بنانا اور چلانا تھا…… اور بلوچستان حکومت کے ساتھ اس کے 1998ء کے معاہدے نے اسے کان کنی کے لیز کا حق بھی دیا……اور پھر درخواست مسترد ہونے کے بعد یہ منصوبہ نومبر 2011ء میں رُک گیا،جب کہ پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے کان کنی کی لیز اس لیے ختم کی گئی تھی کہ اسے غیر شفاف طریقے سے سر انجام دیا گیا تھا۔
تب تک کمپنی ریکوڈک میں 220 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکی تھی۔ آسٹریلوی کان کنی کمپنی نے 2012ء میں عالمی بینک کے ثالثی ٹربیونل سے مدد طلب کی اور اس نے 2017ء میں پاکستان کے خلاف فیصلہ سنایا۔ ٹربیونل نے منسوخ شدہ لیز کے نقصانات کا حساب لگانے کے لیے ایک فارمولہ استعمال کرنے کا انتخاب کیا۔
جولائی 2019ء میں ٹریبونل نے آسٹریلوی کمپنی کو کان کنی کی لیز سے انکار کرنے پر پاکستان کے خلاف مجموعی طور پر 5.97 بلین ڈالر کافیصلہ دیا،جو تقریباً 6 بلین ڈالر کا ایوارڈ جس میں ہرجانہ اور سود شامل تھا، جو پاکستان کی جی ڈی پی کے تقریباً دو فی صد کے برابربنتا ہے۔ اس کے کے فوراً بعد ’’ٹی سی سی‘‘ نے ایوارڈ کے نفاذ کے لیے کارروائی شروع کر دی تھی۔
نومبر 2019 ء میں پاکستان نے ایوارڈ کو چیلنج کیا اور اسے منسوخ کرنے کے لیے کارروائی شروع کی۔ مارچ 2021ء میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے اعلان کیا کہ انھوں نے 8 نومبر 2019ء کو "ICSID” کی جانب سے 12 جولائی 2019ء کو پیش کیے گئے ایوارڈ کی منسوخی کے لیے درخواست دایر کی، تاہم پاکستان کو منسوخی کی کارروائی شروع کرنے پر عارضی روک دیا گیا تھا، جس کے بعد حکمِ امتناعی کی تصدیق کے لیے سماعت اپریل میں ویڈیو لنک پر ہوئی۔
16 ستمبر 2020ء کو ٹربیونل نے بالآخر پاکستان کے حق میں فیصلہ سنایا۔ ریکوڈیک میں کل معدنی وسائل 5.9 بلین ٹن ایسک ہیں، جن کا اوسط تانبے کا گریڈ 0.41 فی صد اور گولڈ گریڈ 0.22 گرام فی ٹن ہے۔ اس سے ڈپازٹ کے معاشی طور پر قابلِ استعمال حصہ کا حساب لگایا گیا ہے۔
2.2 بلین ٹن، جس میں اوسطاً کاپر گریڈ 0.53 فی صد اور گولڈ گریڈ 0.30 گرام فی ٹن ہے، جس کی سالانہ پیداوار کا تخمینہ 200,000 ٹن تانبا اور 250,000 اونس سونا ہے۔ 600,000 ٹن کنسنٹریٹ میں موجود ہے۔
ریکوڈک پر معاہدے اور منسوخی عمران خان سے پہلی کی حکومتوں کے کارنامے تھے، جنھیں پی ٹی آئی نے بڑی محنت سے ختم کرنے کے بعد 50 فی صد پر دوبارہ کیے۔ بلاشبہ حماد اظہر کی وجہ سے یہ سب ممکن ہوسکا جو ہمارے روشن مستقبل کی واضح دلیل ہیں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے