’’ایک شام میں قلم لے کر بیٹھا اور فجر تک ایک ہی نشست میں ’’یا خُدا‘‘ کی کہانی مکمل کرکے اُٹھا۔ یہ طویل افسانہ سب سے پہلے ’’نیاد ور‘‘ کے ’’فسادات نمبر‘‘ میں شایع ہوا تھا۔ اس کے بعد احباب کا اصرار ہوا کہ ناولٹ کے طور پر اسے کتابی صورت میں بھی ضروری چھاپنا چاہیے۔ محترمہ ممتاز شیریں مرحومہ نے ایک دیباچہ تحریر فرما دیا، اور ’’یا خُدا‘‘ کا پہلا ایڈیشن کراچی سے جون 1948ء میں شایع ہوا۔ عام قاری کو یہ اتنا پسند آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے چھے ایڈیشن نکل گئے۔ لاہور کے ایک پبلشر نے اس ناولٹ کا نام ’’یا خُدا‘‘ کی جگہ ’’آزادی کے بعد‘‘ رکھ کربھی کچھ کاروبار کیا!‘‘
اس اقتباس سے ہمیں ’’یا خُدا‘‘ کی پہلی اشاعت (جون 1948ء) کا سراغ ملتا ہے اور قدرت اللہ شہاب پاکستانی اُردو ناولٹ کے باوا آدم قرار پاتے ہیں۔ ہمارے لیے پاکستانی اُردو ناولٹ کا یہ سرا تلاش کرنا ازحد اہم تھا، تاکہ اسے بنیاد بنا کر ہم ناولٹ کی باقی عمارت کھڑی کر سکیں۔
اس کہانی کی کہانی:
ستمبر 1947ء کا مہینا تھا اور ہندوستان سے لُٹ پُٹ کر آنے والے مجروح قافلوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ جو پہلے آ گئے تھے، وہ بعد میں آنے والوں کے انتظار میں واہگہ بارڈر پر کھڑے رہتے تھے۔ کسی کی ماں، کسی کا باپ، کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا، واہگہ پار کی بے کراں پہنائی میں گم تھا۔ اکثر کا یہ انتظار موہوم ثابت ہوتا۔ بعضوں کو فقط اپنے پیاروں کے جاں گزا انجام کی خبر ملتی۔ کچھ خوش قسمت ایسے بھی تھے کہ فتنہ و خراب عزیزوں کو پا لیتے تھے لیکن کم۔ مایوس و نامراد منتظرین کے چہروں کی خستگی دیکھنے کی ہوتی تھی۔
مَیں بھی انتظار کرنے والوں میں تھا۔ اپنے چچا زاد بھائی نعمت اللہ شہاب کا انتظار کرتے کرتے میری آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ نعمت اللہ میرا چچا زاد بھائی ہی نہ تھا، لنگوٹیا دوست بھی تھا۔ جس کے ساتھ چمکور کے سکول میں، مَیں نے کیا کیا دھومیں نہ مچائی تھیں۔ اب وہ ایک دیہاتی سکول میں انگریزی کا ماسٹر تھا اور اپنی تیکھے نین نقشے والی بیوی کے ہم راہ کہیں بچھڑ کے رہ گیا تھا۔ وہ زندہ تھا یا کشتوں میں شامل ہو گیا تھا یا کسی کیمپ میں پڑا ایڑیاں رگڑ رہا تھا، مجھے کچھ خبر نہ تھی۔ بہرحال مجھے اُس کا انتظار تھا۔ یہ آس کا رشتہ بھی خوب ہے۔ ٹوٹ کر بھی نہیں ٹوٹتا۔ آخر وہ ایک روز آیا، لیکن میں اُسے نہ پہچانا۔ لوگوں کو متجسس دیکھتا ہوا مَیں اُس کے پاس سے دو تین بار گزرا، آخر اُس نے خود مجھے، قدرت، کَہ کر آواز دی۔ یہ نعمت اللہ کوئی اور تھا، اُس ہنس مکھ البیلے نوجوان کی جگہ ایک صدیوں کا ماندہ ہڈیوں کا ڈھانچا۔ لباس خون آلود، چہرہ غبار آلود، میں نے پوچھا…… ’’نعمت! بھابی کہاں ہے؟‘‘ وہ رو دیا اور اپنے پاس بیٹھی عورت کی طرف اشارہ کیا۔ اس عورت کا چہرہ داغ داغ تھا۔ صبیح چہرے کی کھال جیسے جلتی ہوئی آہنی سلاخوں سے داغ دی گئی ہو۔ ہوا بھی یہی تھا۔ اس ہمت اور غیرت والی خاتون نے اپنا چہرہ خود داغا تھا، تاکہ کیمپ میں آنے والے شکاریوں کی نظرِ ہوس سے محفوظ رہے۔ وہ چہرے نہ داغتی، تو اس وقت واہگہ کے پار نہ ہوتی اور اب تک غالباً اس کا سارا جسم دغ چکا ہوتا۔ نعمت اللہ کا یہ عالم اس طرح ہوا کہ چند سورماؤں نے کیمپ کے کنوئیں میں نیلا تھوتھا گھول دیا تھا۔ بعضے اس آبِ حیات کو پی کر کیمپوں میں زندہ جاوید ہوگئے۔ نعمت اللہ اُن میں سے تھا جن کی آنتیں اس مشروب سے کٹ کر رہ گئیں۔ نعمت اللہ اُسی روز…… اس ارضِ موعود پر پہنچنے کے چند گھنٹے بعد بارِ حیات اُتار کر سبکسار ہوگیا۔ وہ عفیفہ، اُس کی بیوی تیسرے روز چل بسی اور مَیں جو اتنے دنوں سے منتظر تھا، خالی ہاتھ کراچی واپس آ گیا۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں لارنس روڈ کے ایک بنگلے میں رہتا تھا۔ رات بھر اُس کی روشنیاں جلتی رہیں اور رات بھر مَیں بیٹھا یہ کہانی لکھتا رہا۔ نعمت اللہ کی کہانی اپنے گاؤں چمکور کی کہانی۔ ایک گاؤں کے مُلا علی بخش کی بیٹی دلشاد کی کہانی۔ کیمپوں کا حال جو مَیں نے لکھا ہے، لاہور میں دیکھا۔ مہاجر بہنوں کا شکار کرنے والے بہت سے بھائی جن کے چہرے ’’یا خُدا‘‘ میں نظر آئیں گے۔ مولوی، خدامِ خلق، قوم کے لیڈر اور سیاست داں، سبھی اصل کردار ہیں۔ مَیں نے اُن کے نام نہیں لکھے۔ اُن میں سے ایک صاحب کو تو خدا نے وزیرِ مملکت بھی بنایا۔ خدا جسے چاہے جو عزت دے دے۔ اس کی مصلحتیں وہی جانے۔ اس کہانی کا انجام بھی میرے ذہن نے نہیں سوچا۔ اسے میری گنہگار آنکھوں نے کراچی کے عید گاہ میدان میں دیکھا، جہاں بے خانمانوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ یہیں دلشاد، یا اس نام کی عورتیں مجھے پکوڑے تلتی، بیچتی نظر آئیں۔ ساتھ والی سے کہا: ’’بہن ذرا میرے بچے کا دھیان رکھنا، مَیں بیسن لے آؤں‘‘ اور کسی کے ساتھ بیسن لینے چل دیں۔ یہ پکوڑے برسوں تلے جاتے رہے اور بکتے رہے، شاید اب بھی ان میں سے باقی ہوں۔ یہ بچے اب تیرہ چودہ سال کے ہونہار قلی، مزدور یا بھک منگے، اس ارضِ موعود کے شہریوں میں شامل ہیں۔
۱۹۴۷ء ابھی ختم نہیں ہوا۔
اس کہانی کی کہانی بھی ختم نہیں ہوئی۔
کراچی کے بعد میرا تقرر لاہور میں محکمۂ صنعت کے ڈائریکٹر کے طور پر ہوا۔ ایک روز ڈاک میں ایک پھٹا پرانا پیلا لفافہ مجھے ملا۔ سوادِ تحریر قطعی طور پر اجنبی تھا۔ مَیں نے کھولا۔ یہ ایک لڑکی کی داستان تھی جو یک و تنہا بے یار و مددگار اچھرہ کے قریب مہاجرین کی جھونپڑیوں میں رہتی تھی۔ اُس نے لکھا کہ میرا جسم داغا گیا، لیکن میں اس پار پہنچ گئی۔ یہ دھرتی میرے لیے فردوس کی سرزمین اور یہاں مسلمان مجھے شفیق بھائی دکھائی دیتے تھے، لیکن یہ بھائی ہوس ناک شکاری نکلے۔ انھوں نے میری جو خاطر مدارت کی ہے، اُس کے طفیل میں تپ دق کی مریض ہوں اور میرے بہت دن باقی نہیں تھوڑا پڑھی لکھی ہوں۔ ’’یا خُدا‘‘ کہیں سے مل گئی تھی میں نے پڑھی۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ مَیں دلشاد بن کر بھی دلشاد نہ بن سکی۔ مَیں ان مجبوروں میں سے ہوں جو ہنسی خوشی پکوڑے نہیں تل سکتیں۔ بیسن نہیں لاسکتیں اور اس پاک سرزمین میں سیکڑوں شاید ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ میرے پاس ایک لمبی سی شیورلیٹ کار تھی۔ اُن دنوں اُس کی قیمت سستی اور شان زیادہ تھی۔ اُسے مَیں نے اُن جھونپڑیوں سے دور سڑک پر چھوڑا اور پوچھتا پچھاتا، ڈھونڈتا ایک ٹاٹ کی جھگی میں پہنچا۔ وہاں ایک ویران آنکھوں والی، میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس بیٹھی تھی۔ لڑکی کیا تھی راکھ کا ڈھیر یا چوب خشک صحرا۔
لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا
راستے میں کوئی زیادہ باتیں نہیں ہوئیں۔ ایک بار اُس لڑکی نے لمبی آہ بھری اور کہا: ’’شہاب صاحب! مَیں اس سے زیادہ لمبی اور چمکیلی کاروں میں سوار ہوچکی ہوں، جن دنوں یہاں کیمپ میں تھی اور انہی کاروں میں واپس کیمپ میں پہنچ جاتی تھی۔ اُس لڑکی کا علاج ہوگیا۔ اُسے ایک چھوٹا سا مکان بھی مل گیا اور تھوڑا بہت روزی کا وسیلہ بھی ہوگیا اور میرے ذہن سے یہ واقعہ نکل گیا اور مَیں ایک بار پھر کراچی میں ایک نوکری پر چلا گیا۔
ایک روز میرے چپڑاسی نے ایک کاغذ کا پرزہ لاکر دیا کہ ایک صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک برقعہ پوش خاتون بھی ہیں۔ نام ان صاحب کا میرے لیے اجنبی تھا۔ مَیں نے انھیں اندر بلایا اور کہا: معاف کیجیے، مَیں آپ کو پہچانا نہیں!‘‘ ان صاحب نے مسکرا کر اس برقعہ پوش خاتون کی طرف اشارہ کیا جس نے اب نقاب اُلٹ دیا تھا۔ یہ ایک چمپئی رنگ کی شعلہ رُخسار خاتون تھی۔ اُس نے کہا: ’’میں اچھر ہ کی جھگی میں رہنے والی دلشاد ہوں جو دلشاد نہ بن سکی۔ یہ میرے میاں ہیں اور مَیں آپ کا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں۔ کیوں کہ میں پھر زندوں میں ہوں۔‘‘
رات کو یہ لوگ میرے ہاں کھانے پر آئے۔ دوسرے روز پھر دس کروڑ آبادی میں گم ہوگئے اور اس پر کئی سال گزر گئے۔
پچھلے دنوں…… ابھی چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ مَیں صدرِ پاکستان کے ہم راہ مشرقِ وسطیٰ کے دورے کی ایک منزل دہران میں اُترا۔ یہ تیل کا مرکز ہے اور امریکہ کا ایک اہم فوجی اڈا، یہاں حسبِ رسم ہمارا تعارف مقامی عہدہ داروں اور معززین سے کروایا گیا۔ انھی میں ایک صاحب پاکستانی تھے۔ ریشمی صافہ باندھے ہوئے۔ انھوں نے کہا: ’’شہاب صاحب آپ مجھے پہنچانے؟‘‘ مَیں نادم ہوا، تو بولے: ’’مَیں آپ سے کراچی میں ملا تھا اور یہ میری بیوی ہیں۔ انھیں آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں!‘‘ یہ وہی خاتون تھی لیکن اب پہچانی نہیں جاتی تھی۔ چہرے پر جوانی کے علاوہ خوش حالی کی آسودگی او رطمانیت کا نور تھا۔ اُس نے بتایا کہ اب ہمارا تین سال کا ایک بچہ بھی ہے۔
اس کتاب کے لکھے جانے کے چودہ سال بعد مجھے یقین ہوگیا کہ موت کے بعد تو نہیں البتہ اس ارضی زندگی میں آواگون کا چکر ضرور چلتا ہے۔ زندہ انسان آخری موت سے پہلے کئی بار مرتا اور کئی بار نیا جنم لیتا ہے۔
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جانے دیگر است
جب میں دلشاد کی زندگی کو مخالفانہ تنقیدوں کے پُشتارے کے ساتھ تولتا ہوں، جو اس کتاب پر چھپیں، تو مجھے یہی زندگی بھاری نظر آتی ہے۔ بہت سے لوگ اس کتاب کے چھپنے پر مجھ سے ناخوش ہوئے او رمجھے بہت سے طعن سننے پڑے لیکن اس روشن بشاش اور صبیح چہرے کے مقابلے میں جو مجھے دہران میں نظر آیا۔ ان کی حقیقت کیا ہے؟ اگر چہ اس نتیجے کو بھی مَیں ضمنی ہی سمجھتا ہوں۔ مجھے تو فقط اپنے یار جانی نعمت اللہ اور اُس کی سُبک چہرہ بیوی کی کہانی لکھنی تھی جن کے انتظار میں، مَیں ہفتوں واہگہ بارڈر پر کھڑا رہا او رجن کی تلاش میں، مَیں نے وہ سب دیکھا جو ہزار کوشش کے باوجود بھی میرا قلم پوری طرح لکھنے سے قاصر رہا۔‘‘
قارئین! ’’یا خُدا‘‘ ایسا انوکھا اور منھ زور ناولٹ ہے کہ یہ اپنے اندر داخل ہی نہیں ہونے دے رہا۔ اسے ایسا ہونا بھی چاہیے۔ یہ اس کا استحقاق ہے۔ کیوں کہ یہ پہلا پاکستانی اُردو ناولٹ ہے۔ اس کا مقام یہی بنتا ہے کہ اس پر مفصل بات کی جائے۔ اُردو ادب کو ایسے سچے لکھنے والے اب کہاں نصیب ہوں گے؟ تقسیم جتنا بڑا موضوع ادیبوں کے لیے دوبارہ نہیں آئے گا۔ ماضی نہ تو بدلا جاسکتا ہے، نہ اُسے دوبارہ لایا جاسکتا ہے۔ اب ہم اس ناولٹ میں ہمت کر کے داخل ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ ہمیں کیا کیا دکھاتا ہے!
اس ناولٹ کا زبردست آغاز اس جملے سے ہوتا: ’’اُس طرف کیا تکتی ہے، سالی؟ تیرا کوئی خصم ہے اُدھر؟ امرتاپ سنگھ نے کرپان کی نوک سے دلشاد کی پسلیوں کو گدگدایا، اور بایاں گال کھینچ کر اُس کا منھ پچھم سے پورب کی طرف گھما دیا۔‘‘
یہ جملہ ناولٹ کی اُس کہانی کا پس منظر ہے جو اس ناولٹ میں بیان کی جا رہی ہے۔ ایک مسلمان لڑکی سکھوں کے رحم و کرم پر اُن کی قید میں ہے۔ وہ مغرب یعنی کعبہ کی طرف منھ کر کے اللہ سے روحانی رابطہ استوار کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو یہ سکھوں کو ناگوار گزرتا ہے۔ ویسے بھی مغرب ہی کے رُخ میں پاکستان بھی ہے، جس سے وہ نفرت کرتے ہیں۔
’’اذان کی آواز سے امرتاپ سنگھ کی بیوی کو بڑی کوفت ہوتی تھی۔ ایک وقت یا دو وقت کی بات ہوتی تو خیر، لیکن جب دن بھر میں پانچ بار اُسے یہی بول سننا پڑتے، تو وہ گھبرا جاتی۔ اُس نے بڑے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ اذان میں کالے جادو کے بول ہوتے ہیں او رجوان عورتیں اسے سُن کر ’’بانگی‘‘ جاتی ہیں۔ اگر بن بیاہی نوخیز لڑکی بانگی جائے، تو اُس کے بانجھ ہونے کا ڈر تھا۔ اگر بیاہی ہوئی بانگی جائے، تو اُس کے حمل گرنے لگتے تھے! چناں چہ امرتاپ سنگھ کے گھر میں پشت ہا پشت سے یہ رسم تھی کہ اُدھر اذان کی آواز فضا میں لہرائی، اِدھر کسی نے کٹورے کو چمچے سے بجانا شروع کیا۔ کسی نے چمٹے سے لڑایا۔ کوئی کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس کر بیٹھ گئی۔ کوئی بھاگ کر پچھلی کوٹھری میں جا گھسی اور اس طرح بہادر خاندان اپنی لاڈلیوں کی کوکھ کالے جادو کے اثر سے بچا کر ہرا بھرا رکھتا آیا تھا۔‘‘
یہ اقتباس ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کس طرح مذہب کے نام پر انسان کو انسانیت سے دور کیا گیا اور غلط باتیں مشہور کی گئیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں بھی سکھوں کے ایک وفد نے مہاراجہ کے حضور پیش ہو کر مسلمانوں کی اذانوں کی شکایت کی تھی۔ مہاراجہ نے اُس وفد کی ذمے داری لگا دی کہ اب یہ پانچ وقت مسلمانوں کو نماز کے لیے اُٹھایا کریں گے۔ اذان نہیں دی جائے گی، مگر سکھ کچھ دیر ہی میں یہ ڈیوٹی دینے سے بے زار ہوگئے او راذانوں کا سلسلہ خود ہی کَہ کر بحال کروا دیا۔
چمکور گاؤں میں ملا علی بخش کو بے دردی سے قتل کرکے کنوئیں میں پھینک دیا گیا تھا اور اُس کی بیٹی جلی ہوئی مسجد ہی میں رہتی تھی، جہاں اب نمازیوں کی بجائے شرابی اور بھنگی سکھ رات دن آتے تھے اور دلشاد پر اپنا جنسی اشتعال نکال کر چلے جاتے تھے۔ دلشاد کی خلاصی وہاں سے حاملہ ہونے پر ہوئی جس پر تمام سکھنیوں نے اپنے ہوتوں سوتوں سے کہا تھا کہ اسے پاکستان بھجوا دو، ورنہ ہمارے پاس نہ آؤ۔
’’پہلے تو سب کی یہ رائے تھی کہ بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی دلشاد کو مار کر کنوئیں میں پھینک دیا جائے…… لیکن پھر امرتاپ کو ایک مفید تجویز سوجھی۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ ایک روز صبح سویرے وہ اُسے اپنی بیل گاڑی پر بٹھا کے پاس کے تھانہ میں لے گیا اور اِغوا شدہ مسلمان عورتوں کی برآمدگی کے سلسلہ میں اپنی کوششوں کا عملی ثبوت دینے کے لیے دلشاد کو پیش کر دیا۔‘‘
’’مالِ مفت دلِ بے رحم‘‘ کے مصداق تھانیدار لبھورام نے بھی پتا کروایا کہ بچے کی پیدایش میں ابھی کتنا وقت باقی ہے۔ پتا چلا کہ ساڑھے تین مہینے باقی ہیں۔ لبھو رام کو کچھ مایوسی تو ہوئی، مگر اُس نے دس پندرہ دن اس بہتی گنگا میں پورا پورا اشنان کیا اور پھر دلشاد کو اپنے ہیڈ کانسٹیبل دریودھن کے ہم راہ کیمپ کے لیے بھجوا دیا۔ دریودھن بھی پیچھے نہ رہا اُس نے کیمپ تک دس گھنٹے کی مسافت دس بارہ دنوں میں طے کی۔
انبالہ کیمپ کے نگران اور عملے نے بھی مقدور بھر اپنا شوق پورا کیا اور خواتین کی روانگی کو جان بوجھ کر ٹالے رکھا۔ جس طرح سعودی عرب آئے ہوئے امریکی فوجیوں کے مرد دستوں کو پہلے واپس امریکہ جانے کی اجازت دی گئی تھی اور خاتون امریکی دستوں کو سب سے آخر میں جانے دیا گیا تھا۔ اُن میں بھی بہت سی حاملہ تھیں، یا اسلام قبول کرچکی تھیں۔ دلشاد ٹرین ہی میں پاکستان داخلے کے بعد ایک بچی کو جنم دیتی ہے جس کا بُرا وہ مہترانی مناتی ہے جسے ٹرین کا گندا فرش صاف کرنا پڑتا ہے۔ وہ تو دلشاد سے پیسے بھی مانگتی ہے مگر اُس کے پاس سوائے اپنی بچی کے کچھ نہیں۔
لاہور اسٹیشن پر دو اُوباش لڑکے اُسے اکیلی اور لاوارث سمجھ کر تاڑتے ہیں، مگر اُس کی ایک دن کی بچی کو دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔ ایک انگریز جوڑا ریلوے اسٹیشن پر چہل قدمی کر رہا ہے۔ اُن کا چھوٹا بیٹا، دلشاد کی ننھی بچی کو کھلونا سمجھ کر بہت خوش ہوتا ہے اور اپنے ماما پاپا سے ضد کرتا ہے کہ وہ اُسے بھی ایسا ہی کھلونا لے کر دیں۔ بچے کا پاپا اپنی بیوی کے اُبھرے ہوئے پیٹ کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھتا ہے جہاں نیا مہمان بس آیا ہی چاہتا ہے۔
انگریز جوڑا اپنے بچے کو خوش کرنے کے لیے دلشاد کو ایک اونی کپڑا اور پانچ روپے دے جاتے ہیں جو پاکستان میں اُس کا پہلا سہارا بنتے ہیں، مگر اُس پر پاس بیٹھے دو مذہبی رجحان والے بزرگ معترض ہوتے ہیں اور اُسے ’’مہاجر خانے‘‘ جانے کے قیمتی مشورے سے نوازتے ہیں۔ مہاجر خانے میں دلشاد کو اپنے کوایف لکھواتے ہوئے، سکھوں کے جبری گناہ سے پیدا ہونے والی بچی کے باپ کا نام اپنے محبوب کے نام پر رحیم خان لکھوانا پڑتا ہے، جسے اُس نے ایک بار صرف بوسہ لینے کی کوشش پر ایسا دوہتڑ مارا تھا کہ اُس کی کانچ کی چوڑیاں رحیم خان کے ماتھے میں گڑ گئی تھیں۔
مہاجر خانے کے حالات ریلوے اسٹیشن سے بھی بدتر نکلتے ہیں۔ وہاں مال خانے میں کمبل اور رضائیوں کے ڈھیر لگے ہیں، مگر یہ دیا بہت مشکل سے جاتا ہے۔ وہ بھی مردہ جسموں کو ڈھانپنے کے لیے، زندہ لوگوں کو نہیں۔ دلشاد کو ایک کار والا امیر آدمی آکر مہاجر کیمپ سے لے جاتا ہے۔ اُس کے محبوب رحیم خان سے ملوانے کا جھانسا دے کر اور اُسے اپنے گھر کئی دن رکھنے کے بعد واپس مہاجر کیمپ چھوڑ جاتا ہے۔ اُس کی عدم موجودگی میں زبیدہ جس کا نانا کیمپ میں سردی سے مر گیا تھا، کسی کار والے کے ساتھ اپنے ننھے بھائی محمود کی معصوم خواہشوں کو پورا کرنے جا چکی تھی۔ یہ سارا لاہور کے مہاجر کیمپ کا احوال تھا۔ دلشاد سپیشل رفیوجی ٹرین میں کراچی روانہ ہوجاتی ہے۔
کراچی میں بھی بدن کا سکہ چلتا ہے۔ شہر اور لوگ بدلے ہیں۔ مردانہ سوچ تو وہی ہے۔ عورتیں مردوں کی جنسی خوراک ہیں۔ دو دلال اورزن فروش اُن سنہرے دنوں کو یاد کر رہے ہیں جب انھوں نے دھڑا دھڑ جوان مہاجر لڑکیاں بیرونِ ملک بیچ کر اچھے پیسے کمائے تھے۔ وہیں کراچی سے بمبئی کی طرف ہندوؤں کا ایک جہاز روانہ ہو رہا ہے، جس کے مسافر لنگر اُٹھاتے ہی عرشے سے جناح کیپ اُتار اُتار کر سمندر میں پھینک دیتے ہیں اور ’’جے ہند‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہیں۔
لاہور کے مہاجر کیمپ کی ساتھی دلشاد اور زبیدہ کراچی کے عیدگاہ میدان میں اپنا ڈیرہ جما چکی ہیں۔ دلشاد پکوڑیاں بیچتی ہے او رزبیدہ دہی بھلے۔ دلشاد جب کسی گاہک کے ساتھ ’’بیسن‘‘ لینے جاتی ہے، تو اپنی بچی زبیدہ کو سونپ جاتی ہے اور جب زبیدہ کو ’’دہی‘‘ لینے جانا پڑتا ہے، تو وہ اپنا چھوٹا بھائی محمود، دلشاد کی سپرداری میں دے جاتی ہے۔ یہ نئے ملک سے بے پناہ اُمیدیں وابستہ کرنے والوں اور جھوٹے سپنے دیکھنے والوں کا وہ دردناک انجام اور المیہ ہے جن پر تقسیم ٹھونس دی گئی تھی۔ جو قربانی کے لیے تیار نہیں تھے۔ فایدے میں ہمیشہ کی طرح مٹھی بھر لوگ ہی رہے تھے۔ باقی ساری قوم ہار گئی تھی۔
’’یا خدا‘‘ کہنے کو تو ناولٹ ہے…… مگر اس میں باقاعدہ کہانی یعنی ہیرو، ہیروئن اور ولن والی کوئی بات نہیں۔ یہ درد مند دل رکھنے والے ایک انسان کے جذبات ہیں جو اُس نے جذباتی انداز ہی میں، جذباتی قارئین کی نذر کر دیے ہیں۔ یہ اُسلوب ادیب کی تحریر میں اس لیے در آیا ہے کہ اُسے پہلے انتظار کے عذاب سے گزرنا پڑا۔ پھر اُسے اپنے قریبی رشتہ دار دردناک حالت میں ملے اور اُسے اپنی جھلک دکھلا کر سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ ایسی صورت میں یہی فن پارہ وجود میں آ سکتا تھا۔ ہر کہانی اپنا اُسلوب خود لے کر آتی ہے۔ ادیب کا کردار تو اُسے دیانت داری سے قاری تک پہنچانا ہے جو اُس نے بخوبی ادا کر دیا ہے۔
’’یاخدا‘‘ کا شمار تقسیم کے حوالے سے لکھی جانے والی یادگار تحریروں میں آج بھی کیا جاتا ہے۔ یہی اس کے کھرے اور کلاسیک ہونے کی نشانی ہے۔
یہ ایک خوب صورت بیانیہ بھی ہے اور تاریخی دستاویز بھی۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
