پچھلی صدی کے خط اور رواں صدی کے سائفر میں فرق

ویسے تو سائفر والے مسئلہ پر سابق وزیرِ اعظم محترم عمران خان نے امریکہ سے دوستی کا کَہ کر خود ہی اس غبارے سے ہوا نکال دی، لیکن اس کے باجود بھی ہمارے تحریکِ انصاف کے دوست اس کی اپنی ہی ایک توجیح دے کر ابھی تک اس پر یقین کیے بیٹھے ہیں…… اور جب اُن کو یہ بولا جائے کہ آپ کا یہ بیانیہ جو کہ جھوٹ پر مبنی ہے، مان بھی لیا جائے…… تب بھی اس کا طریقۂ کار غیر سفارتی اور ملک واسطے نقصان دہ ہے…… تو وہ اس کو نہیں مانتے، بلکہ ایک مثال دیتے ہیں کہ سنہ 1977ء کو اُس وقت کے وزیرِ اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ یہ بات بہرحال حقایق کی روشنی میں سو فی صد غلط ہے۔ کیوں کہ آپ سائفر کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں اور ہم نے گذشتہ دنوں ایک کالم میں یہ بات تفصیل سے بیان کی تھی کہ سائفر ہوتا کیا ہے؟
مختصر سا دوبارہ لکھ دیتا ہوں کہ سائفر وہ مراسلہ ہوتا ہے جو آپ کا سفیر بھیجتا ہے اور جس میں اُس سفارت کار کی وہ گفت گو کہ جو تعینات شدہ ملک کے اربابِ اختیار کے ساتھ ہوتی ہے، کی روشنی میں مع اپنی سفارشات و تجاویز اور ذاتی رائے ملا کر لکھتا ہے…… جب کہ سنہ 77ء کو کوئی سائفر نہیں تھا، بلکہ ایک خط تھا جو براہِ راست جناب ذوالفقار علی بھٹو کو لکھا گیا تھا اور اس خط کا پس منظر کچھ اور تھا۔
یہ بات حقیقت ہے کہ مغرب خصوصاً امریکہ ذوالفقار علی بھٹو کی ایٹمی پالیسی، اُمّہ کے اتحاد اور مسئلۂ قادیانیت پر خوش نہ تھا…… لیکن اصل مسئلہ تب شدید ہوا جب امریکہ نے روس کو افغان میں پھنسا کر پاکستان کو استعمال کرنے کی کوشش کی…… اور بعد میں بذریعہ ضیاء الحق ایسا کروایا…… لیکن جناب ذوالفقار علی بھٹو جو ہمارے خیال میں ایک سچے قوم پرست حکم ران تھے، اور ان کو خارجہ امور پر بہت عبور تھا، کی دور اندیش نظریں دیکھ رہی تھیں کہ ہم اگر افغان مسئلہ پر امریکہ کی خواہش پر شامل ہوئے، تو ہمارے ملک کو بہت نقصان ہوگا (اور ویسا ہی ہوا۔) اور اس کا اظہار ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں لکھی ہوئی ایک تحریر میں کیا تھا کہ ہم اگر ہاتھیوں کی لڑائی میں کسی ایک ہاتھی کے ساتھ مل کر شامل ہوئے، تو ہمارے بچے، خواتین، مساجد، امام بارگاہیں، چرچ، مندر، ہسپتال، سکول سب لہو لہو ہوسکتے ہیں۔ سو مسٹر بھٹو نے بہت واضح اور صاف جواب دے دیا تھا امریکی وزرات خارجہ کو۔
اس کے نتیجے ہی میں امریکہ نے پاکستان میں سیاسی انارکی پیدا کی تھی اور وہ سیاسی تحریک جو الیکشن میں دھاندلی کے مطالبے پر شروع کی گئی تھی، کو اچانک تحریکِ نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم سے وابستہ کر دیا گیا اور مارشل لا کی راہ ہم وار کی گئی۔
بہرحال اُس سیاسی کشمکش کے دوران میں امریکہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک پھر یہ دانا پھینکا کہ اب بھی وقت ہے۔ مسٹر بھٹو اسلامی جہاد کا نام لے کر افغان میں کود جائیں۔ اس پر جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی میں تقریر کی اور کہا کہ ہاتھی ( یاد رہے اس وقت امریکہ میں ریگن، کارٹر کو ہرا کر صدر بن چکا تھا اور ان کا انتخابی نشان ہاتھی تھا) اُن کے پیچھے پڑھ چکا ہے۔
اسمبلی میں اس تقریر کے بعد امریکہ مکمل طاقت سے مداخلت پر آگیا اور ڈالروں کی وہ برسات ہوئی کہ ڈالر پنڈی کی مارکیٹ میں ویلیو کھوگیا۔ اسی دوران میں امریکہ نے وزیرِ اعظم کو براہِ راست خط لکھا کہ ’’آپ نے ہمارے سفارتی معاملات کو اسمبلی میں بیان کرکے مناسب کام نہیں کیا۔‘‘ یہ وہ خط تھا کہ جس کو لے کر بھٹو صاحب راجہ بازار کی سڑکوں پر آگئے اور عوام کو براہِ راست بتایا کہ نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے دعوے اور ان کے خلاف تحریک کی اصل حقیقت کیا ہے؟
اب ہم بھٹو صاحب کے اُس اقدام کو صحیح یا غلط قرار دینے کی پوزیشن میں نہیں، لیکن اس کو اس سائفر سے ملانا کہ جو عمران خان نے دِکھایا، معصومیت بلکہ حماقت ہے۔ دونوں کے حالات، موضوعات اور مطالبات میں قطعی کوئی یکسانیت نہیں۔ اس وجہ سے دونوں کو ایک زاویہ سے پیش کرنا یا بیان کرنا بالکل ایک قسم کی دانش ورانہ کرپشن ہے۔ اس کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ آج 45 سال بعد بھی بھٹو کی جماعت اُس بات پر قایم ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ امریکہ نے الٹ دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی تب کی ایٹمی پالیسی اور افغان پالیسی درست تھی…… لیکن تحریکِ انصاف کا سائفر ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے…… لیکن وہ خود اس پر یو ٹرن لے چکے ہیں۔ مثلاً اُس سائفر کا پس منظر بقول عمران خان کے دورۂ روس تھا۔ خان صاحب آج خود یہ تسلیم کرچکے کہ ان کا دورۂ روس غلطی تھا۔ جب اس کی بنیاد کو آپ نے خود غلطی مان لیا، تو پھر شور و غوغا کس بات پر؟ بس، بات ختم ہوچکی…… لیکن بہرحال تحریکِ انصاف کی ایک سیاسی حکمت عملی ہے۔ اب یہ صحیح ہے یا غلط، ان کا حق ہے۔ لیکن کم از کم تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو تاریخ کو تبدیل کرنے اور خواہ مخواہ اپنے سیاسی فایدے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو جیسے عوام دوست اور قوم پرست راہنما کو اپنے ساتھ کھڑا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کے علاوہ تحریکِ انصاف کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اب حالات کی نوعیت سنہ 77ء والی نہیں۔ کیوں کہ تب امریکہ کو ناراض کرنے کی نہ صرف بہت معقول وجہ تھی بلکہ بھٹو صاحب کے پاس اس کا نہایت ہی معقول متبادل بھی…… یعنی تب دنیا دو متوازی طاقت کے مراکز میں تقسیم تھی۔ اسلامی ممالک خاص کر عرب دنیا میں امریکہ کا وہ اثر نہ تھا اور اسی بات پر بھٹو جیسی شخصیت امریکہ کو بلیک میل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی تھی۔ اس کے ساتھ روس مکمل طور پر امریکہ کے مقابل آپ کو کور دے سکتا تھا۔ بھٹو حکومت کے پاس اس کا مکمل پلان تھا۔ یہ تو ہماری بدقسمتی تھی کہ ہماری تب کی فوجی قیادت شاید امریکہ کے دباو میں آکر مارشل لا لگا بیٹھی۔ وگرنہ تب کے حالات میں بھٹو حکومت دونوں سپر طاقتوں کو اپنے مفادات میں استعمال کرلیتی…… لیکن آج حالات 180 ڈگری زاویہ پر ہیں۔ آج امریکہ دنیا بھر کا غیر متنازع چوہدری ہے۔ خلیج میں صدام حسین کی غلط مہم جوئی اور طالبانی فیکٹر نے امریکہ کو کامیاب کر دیا ہے۔ آج عرب ممالک امریکہ کے مکمل تابع فرمان ہیں۔ ترکی کو نیٹو کی وساطت سے امریکہ ایک طرف کرچکا ہے اور ایران کی گردن کو قابو کرچکا ہے۔ پھر روس کی یوکرین کی مہم جوئی کی آڑ میں پورا یورپ اس کے ہاتھ میں ہے۔ اس وقت امریکہ جب چاہے آپ کو معاشی طور پر دیوالیہ اور فوجی طور پر تباہ کرسکتا ہے۔ ان حالات میں محض اپنی سیاسی مقبولیت کو قایم رکھنے کے لیے آپ غیر ضروری طور پر مولا جٹ کیوں بننا چاہتے ہیں؟ آپ کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ آپ کی سیاسی مقبولیت اہم ہے یا مجموعی ملکی مفاد؟
سیاسی طور پر شاید اب بھی بہت دیر نہیں ہوئی۔ سو خان صاحب مہربانی فرمائیں، سیاست کرنا، اقتدار کے حصول کی کوشش کرنا، بے شک آپ کا حق ہے…… لیکن اس کی قیمت ملکی مفاد کی قربانی کی شکل میں ہو، یہ بالکل غلط حرکت ہے…… اور تاریخ کے پنوں میں شاید پھر آپ غیر محب الوطن رقم ہوں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے