اُس کا نام بابا مدثر شمسی اور والد کا نام محمد یعقوب شمسی ہے۔ بورے والا میں 1982ء میں پیدا ہوئے اور اکتوبر 2022ء کو وفات پاگئے۔
بابا مدثر بورے والا کا واحد بائیکر تھا جس نے اپنی بائیک پر بین الاقوامی سفر کیا۔ اس کے علاوہ کراچی تا خنجراب اور کوئٹہ تا چولستان ڈھیر سارے اندرونی اسفار کیے۔ بائیکنگ کا اسے جنون کی حد تک شوق تھا۔ وہ ایک غریب گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔
والدِ محترم سنہ 1996ء میں صرف چودہ پندرہ سال کی بالی عمریا میں ہی وفات پاگئے۔ کھیلنے کودنے کے دنوں میں گھر کی ساری ذمے داریاں سر پر آن پڑیں، تو مجبوراً تعلیمی سلسلے کو خیر آباد کہنا پڑا…… مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور خوب محنت کرکے گھر کی روزی روٹی چلاتا رہا۔ اس کی پانچ بہنیں تھیں اور دو بھائی، وہ ان میں دوسرے نمبر پر سب سے بڑا تھا۔ الیکٹریشن کا کام سیکھا…… جس سے گھر کا خرچہ چلانے کی کوشش کرتا رہا۔ساتھ ساتھ اے سی میکینک کا کام بھی سیکھتا رہا۔ پھر الیکٹریشن کے کام کو چھوڑ کر کار اے سی کے کام پر بھرپور توجہ دی۔
بابا مدثر ایک سلف میڈ شخص تھا۔ بائیکنگ اس کا عشق تھا…… مگر اس کے پاس کوئی بڑی رقم نہ تھی۔ لہٰذا اپنی پہلی بائیک فقط تین ہزار روپے میں کباڑ کی دُکان سے خریدی…… اور پھر اس پر مزید پانچ ہزار روپیہ خرچ کرکے اسے چلنے کے قابل بنایا…… اور اسی پر گھوم پھر کر اپنے شوق کی آبیاری کرتا رہا۔ لاہور جانا ہوتا، تو اسی پر چلا جاتا۔ اسی طرح ملتان، فیصل آباد اور بہاولپور اسی پر گھوما پھرا۔ حالات میں کچھ بہتری آئی، تو 175 سی سی اور پھر 185 سی سی بائیک خرید لی۔ ملتان گیا، تو کسی دُکان پر اُس نے ہنڈا روڈ ماسٹر ڈبل سائیلنسر کی لگی ہوئی کوئی تصویر دیکھی۔ اس کے حصول کی تگ و دو میں دن رات ایک کرکے کام کیا…… اور سنہ 2000ء میں اسے خریدنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر سارے سیفٹی گیجٹس (Safety Gadgets) خریدے۔ بہترین سیفٹی جیکٹ اور ہیلمٹ بھی خریدا۔ 20 سال تک وہ اُسی پر سفر کرتا رہا۔ سنہ 2019ء تک وہ تنِ تنہا گھوم پھر کر اپنے سفرِ شوق کی آتش کو بجھانے کی کوشش کرتا رہا۔ اس دوران میں اس نے پہاڑی علاقوں مثلاً مری، کاغان، ناران بابوسر اور چلاس کا رُخ بھی کیا۔ اور پھر انھی پہ فریفتہ ہو کر مر مٹا۔ شیخوپورہ میں ایک ’’بائیکرز گیٹ ٹو گیدر‘‘ میں اُن سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔
ہمارے دوست حنیف زاہد صاحب نے ہمیں بتایا کہ بورے والا سے ایک بائیکر بھی یہاں آیا ہوا ہے…… جس کا نام بابا مدثر ہے۔ اب میرے ذہن نے بابا مدثر کا ایک سکیچ گھڑنا شروع کر دیا کہ وہ ایک ایسا شخص ہوگا جس کے بالوں میں چاندی، لمبی لمبی سفید داڑھی میں ڈھکا چہرہ، منھ دانتوں کے بغیر خالی ڈبے سا، عاجزی میں ڈوبی خمیدہ کمر اور ہاتھ میں ڈنگوری تھامے اسی کے آسرے پر چلتا ہوا کوئی بوڑھا شخص ہو گا…… مگر جب سامنے آیا، تو میرے سارے اندازے غلط سلط ثابت ہو کر شرمندہ شرمندہ سر چھپانے لگے۔ وہ ایک کڑیل جوان تھا۔ فقط نام کا بابا……گرچہ یہ ایک مختصر ملاقات تھی، مگر اس ملاقات نے اس ہیرے شخص سے ہمارا ایک پکا کنکشن جوڑ دیا۔ اب وہ ہماری ساری سرگرمیوں میں شامل ہو کر ہم سے جڑ گیا۔ کوئی ’’گیٹ ٹو گیدر‘‘ ہوتا یا کہیں پر کسی کھابا دعوت میں جانا ہوتا…… وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ چلتا۔
جب کورونا کی وبا میں سیاحتی سرگرمیاں تھوڑا تعطل کا شکار ہوئیں۔ سارے شمالی علاقہ جات بند کر دیے گئے…… مگر پھر بھی ہم الائی وادی تک پہنچ ہی گئے۔ اس ٹور میں وہ بھی ہمارا ہم سفر تھا۔ یہ اس کی زندگی کا پہلا فیز تھا۔
اس کی زندگی کا دوسرا فیز اس وقت شروع ہوا…… جب اس نے سی آر سی والوں کے ساتھ 2019ء میں مزارِ قاید کراچی پر یوم پاکستان کے سلسلے میں ہونے والی تقریب میں شمولیت کی۔ ہوا کچھ یوں کہ سی آر سی والوں سے اس کا تھوڑا بہت تعارف تو اس وقت ہو گیا تھا کہ جب سی آر سی اور وسیب ایکسپلورر کی طرف سے مکرم ترین صاحب اور ڈاکٹر مزمل صاحب مشترکہ طور پر چھے ستمبر سنہ2019ء کو یومِ دفاع کے موقع پر بورے والا میں میجر طفیل شہید کے مقبرے پر سلامی دینے آئے تھے، اور ہم بورے والا ٹریکرز کی ٹیم نے ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب کی سربراہی میں ان کا بھرپور استقبال کیا تھا۔ انھی دنوں بابا مدثر اپنے کراچی، کوئٹہ، چمن خضدار اور تفتان بارڈر کے سفر کے لیے پر تول رہا تھا۔ ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب نے اسے کہا کہ جانا تو تم نے ہے ہی…… کیوں نا سی آر سی والوں کے ساتھ جڑ کر تم کراچی تک جاؤ۔ اس طرح بائیکنگ کمیونٹی سے بھی مل ملا لو گے۔ گروپ کی صورت میں سفر کروگے، تو آپ کا سفر بھی اچھا گزرے گا۔
چناں چہ مَیں، ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب اور سر حنیف زاہد 23 ستمبر 2019ء کو چیچہ وطنی جا کر اسے سی آر سی گروپ کے ساتھ جوڑ کر واپس آ گئے۔ وہ نہ صرف ان کے ساتھ کراچی تک گیا…… بلکہ اس کے بعد اس نے اپنا اگلا سفر بھی جاری رکھا…… اور کوئٹہ، گوادر، تفتان تک چھے ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے بورے والا واپس لوٹا۔ واپسی پر ہم نے اس کا بہت شان دار استقبال کیا۔
بابا مدثر ایک سفید پوش، درویش منش اور اللہ لوک شخص تھا…… جو اپنی کمائی کی حدود میں رہ کر ہر آنے جانے والے ٹورسٹ کی سیوا کیا کرتا تھا۔ ہر کسی سے میل ملاپ رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ ہر کسی کو عزت و احترام دینا اس کی سرشت میں شامل تھا۔ خاص طور پر بائیکرز کمیونٹی کا اپنے سے بڑھ کر خیال رکھتا۔
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ پاکستان کے کسی بھی کونے سے کوئی بائیکر بھی ہمارے علاقے کی طرف منھ کرتا، تو وہ اس سے خود رابطہ کر کے اپنے پاس آنے کی دعوت دیتا تھا۔
’’بابا‘‘ کا لقب اسے اس لیے ملا کہ اس کے والدِ محترم کو لوگ ولی اللہ سمجھتے تھے۔ ان کا نام نامی ’’محمد یعقوب شمسی‘‘ تھا۔ ذات کے آرائیں تھے…… مگر سادات فیملی کے لوگ بھی ان کے چاہنے والوں میں شامل تھے۔ پیار سے لوگ انھیں بابا کہتے تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد ان کے پیروکار، ان کے بیٹے مدثر کو ’’بابا‘‘ کے نام سے پکارنے لگے۔ یوں مدثر’’بابا مدثر‘‘ بن گیا۔
بابا مدثر کے والدِ محترم فقط چودہ سال کی عمر میں اُسے داغ مفارقت دے کر داعیِ اجل کو لبیک کَہ گئے۔ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے بعد دنیا وہ دنیا نہیں رہتی…… جو پیار والد دیتا ہے، وہ کسی اور سے نہیں مل سکتا۔ دُکھ مقدر بن جاتے ہیں…… مگر وہ اب ان دکھوں کا عادی ہوچکا تھا۔ اب اس کے لیے دکھ…… دکھ نہیں رہے تھے۔ وہ انھیں اپنا ساتھی اور زندگی کا حصہ تصور کرتا تھا۔
غم سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
بابا اکثر کہا کرتا تھا کہ ’’زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔‘‘ وہ ہر دُکھ، پریشانی اور تکلیف میں بھی مثبت پہلو تلاش کرکے اسے خوش گوار طریقے سے بسر کرنے کی کوشش کرتا تھا۔
2019ء میں بابا، محمد اشفاق اور عرفان منیر جو کہ ہمارے بورے والا ٹریکرز گروپ کے ممبران تھے۔ ایک میگاٹور پر پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی یاترا کے لیے گئے۔ یہ 22 روز میگا ٹور تھا، جسے مَیں نے ہی پلان کرکے دیا تھا…… جس میں انھوں نے بورے والا سے چل کر اسلام آباد، مردان، تیمرگرہ، دیر، لواری، کیلاش، چترال، گرم چشمہ، پرسان وادی، بونی، مستوج، بروغل وادی میں کرومبر جھیل تک اپنی بائیک پر سفر کیا اور پھر شیندور پاس کراس کرکے وادیِ پھنڈر، یاسین درکوت تک…… اور پھر گاہکوچ سے ہوکر گلگت پہنچے۔
اس کے بعد نلتر، ہنزہ، خنجراب، شمشال، چپورسان، مسگر، نگر سے ہوتے ہوئے جگلوٹ، چلاس، بابوسر، ناران کاغان کے راستے واپس بورے والا پہنچے تھے۔
بابا کے ساتھی بتاتے ہیں کہ جب کبھی راستے میں ہماری بائیک کو کوئی پرابلم پیش آجاتا۔ ہم پریشان ہوجاتے، مگر وہ بڑے اطمینان سے کہتا کہ ’’نو پرابلم! آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ بھلا یہ بھی کوئی پریشانی والی بات ہے!‘‘ اور اپنی بائیک پر لگائے گئے ایک بڑے سپیکر پر کوئی گانا لگا کر ڈانس شروع کردیتا۔ ساتھ ہمیں بھی جھومنے اور ناچنے پر مجبور کردیتا تھا۔
وہ بتاتے تھے کہ لواری پہنچے، تو لواری ٹنل بند تھی۔ سارے لوگ اس میں سے گزر کر آگے جانے کے لیے بے قرار کھڑے اس کے کھلنے کے منتظر تھے۔ بابا نے لاؤڈ سپیکر آن کرکے تیز بیٹ پر ایک پشتو گانا چلا کر اس پر ڈانس شروع کردیا۔ دیکھا دیکھی بہت سے مقامی لوگ اس بیٹ میں مست ہوکر اس کے ساتھ مل کر ناچنے لگے۔ کوئی گھنٹا ڈیڑھ گھنٹا یہ سارا تماشا چلتا رہا۔ بور وقت ’’انجوائے منٹ‘‘ میں تبدیل ہوگیا…… اور وقت گزرنے کا کسی کو پتا تک نہ چلا۔
6 ستمبر 2019ء کو ہی مکرم ترین صاحب نے ’’سفر نور‘‘ کا ایک خاکہ پیش کیا تھا…… جس میں اپنی اپنی بائیکس پر چل کر مختلف ملکوں سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جاکر عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی ترتیب بیان کی گئی تھی۔ اب وہ اسی کے لیے کمر بستہ تھا۔
معاشی طور پر وہ ایک کم زور انسان تھا، مگر بہت یا حوصلہ اور پُرعزم تھا۔ یاروں کا یار، دل دار تھا۔ ہر کسی کی خوشی غمی میں سب سے پہلے جا پہنچتا۔ کوئی دوست اس کے پاس چلا جاتا، تو بغیر کچھ کھائے پیے اسے واپس آنے نہ دیتا۔
کراچی تک یومِ پاکستان ریلی میں جب پہلی دفعہ سی آر سی والوں کے ساتھ سفر کیا، تو اس سفر میں شامل سارے لوگ اس کے مداح بن گئے۔ کسی کی بائیک پنکچر ہوجاتی، تو وہ فوراً وہاں پہنچ کر اسے پنکچر لگادیتا۔ کسی بائیک کا چین خراب ہوتا، تو اسے مرمت کردیتا۔ سارے اوزار اس نے اپنے ساتھ رکھے تھے۔ یہاں تک کہ الیکٹرک پمپ بھی اس کی ’’زنبیل‘‘ میں تھا۔ کسی کی بائیک سے ہوا کم ہوجاتی، تو فوراً بھر دیتا۔ کسی کو ٹھنڈا پانی چاہیے، فوراً مہیا کردیتا۔ کیوں کہ دوسروں کی مدد کرنا اس کی سرشت میں شامل تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ سبھی لوگ اس کے گرویدہ بن گئے۔ کسی بھی مصیبت اور پریشانی میں ہر کوئی اسی کی طرف دیکھتا تھا۔
حالات چاہے جیسے بھی ہوں…… وہ ہر سال ٹور پر ضرور جاتا۔ چاہے اسے کسی سے رقم ادھار ہی کیوں نہ لینی پڑے…… اور پھر واپس آکر اس کی واپسی کے لیے دن رات ایک کرکے محنت کرتا تھا۔ دُکان پر آئے کسی فقیر کو بھی خالی ہاتھ نہ جانے دیتا۔ میرے ہوتے ہوئے ایک دن ایک پریشان حال بزرگ اس کی شاپ پر آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا مدعا بیان کرتا۔ اُس نے اُسے عزت و احترام سے اپنے پاس صوفے پر بٹھایا، چائے پلائی اور خاموشی سے کچھ رقم اس کی جیب میں ڈال دی۔ بعد میں میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ مَیں نے بانسری بجانا ان سے سیکھا تھا۔ یہ میرے استاد ہیں۔ آج کل ان پر برا وقت چل رہا ہے۔ مَیں حسب استطاعت ان کی کچھ مدد کردیا کرتا ہوں۔
ایسے ڈھیر سارے قصے ہیں، جو بیان کیے جاسکتے ہیں۔ ایسی اس سے جڑی ڈھیر ساری کہانیاں ہیں، جو سنائی جاسکتی ہیں۔
سر مکرم ترین صاحب کی سربراہی میں ’’یارِ من ایران بائیک ریلی‘‘ میں شمولیت کرکے وطن واپس لوٹے اور بورے والا کی طرف سے بائیک پر سفر کرنے والے پہلے بین الاقوامی بائیکر کا تمغا اپنے سینے پہ سجالیا۔
سفرِ نور کی حلاوت تو اس کے روں روں میں بسی تھی۔ جہاں جاتا، جس کے پاس بیٹھتا…… یا سفر کرتا تھا، وہ اُس سفر کی باتیں کیا کرتا تھا۔ اس کے متعلق معلومات اکٹھی کرتا رہتا۔ سفر کے لیے زادِ راہ اور پیسوں کے حصول کے لیے مختلف سکیمیں لگایا کرتا۔
بابا کے پاس 150 بائیک تھی جو کہ اتنے لمبے سفر کے لیے موزوں نہ تھی۔ لہٰذا اس کے سفرِ شوق کو دیکھتے ہوئے محمد اشفاق نے اسے اپنی بائیک ایکس آر 200 پر جانے کی پیشکش کی…… جو اُس نے بہ خوشی قبول کرلی اور اپنی 150 بائیک بیچ کر کچھ رقم جمع کرلی، تو کچھ مختلف دوستوں سے اُدھار مانگ لیے۔ بندہ سچا، کھرا اور جی دار تھا۔ اس کے شوقِ سفر کو دیکھتے ہوئے کسی نے بھی اسے ناں نہ کی…… بلکہ جتنا ہوسکا، خود اس کی مدد کی یا مدد کرنے کا وعدہ کرلیا۔ اس طرح اُس نے سفرِ نور کے لیے تمام انتظامات تقریباً مکمل کرلیے تھے۔
اپنی وفات سے فقط دو دن پہلے اُس نے فون کرکے مجھے اور مختلف دوستوں کو بتایا کہ سفرِ نور کے راستے میں حایل اس کی آخری رکاوٹ بھی دور ہوگئی ہے…… اور اب وہ اس کے لیے کاغذات جمع کرانے جارہا ہے۔
لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
نازاں نہ ہو خرد پہ جو ہونا ہے ہو وہی
دانش تیری نہ کچھ میری دانش وری چلے
میاں چنوں میں ہمارے ایک اور نوجوان بائیکر دوست مصطفی جمال ایک حادثاتی موت کا شکار ہوگئے تھے۔ حسبِ عادت وہ سب کچھ چھوڑ کر اس کے جنازے میں شرکت کے لیے میاں چنوں گیا۔ حالاں کہ ایسے مواقع پر ہم اکثر پلان بناکر ٹولی کی شکل میں جایاکرتے تھے…… اور پھر اشفاق بھائی کے ساتھ ایک دن قبل اس کی کمٹمنٹ ہوئی کہ کل دونوں بھائی اکٹھے میاں چنوں چلیں گے…… مگر اسے بہت جلدی تھی۔
اسے تو جانا تھا ایک ایسے سفر پر کہ جہاں پر گیا کوئی بھی شخص کبھی واپس نہیں آیا۔
اشفاق نے اُسے فون کیا، تو اس نے کہا کہ مَیں تو نکل چکا ہوں۔ اب تم رہنے دو۔ میں اکیلا ہی جارہا ہوں۔ مجھے دیر ہورہی تھی۔ بقولِ شاعر
دیوانگی کی ساری حدیں توڑ چکا ہوں
تم رہنے دو، میں تو شہر چھوڑ چکا ہوں
میاں چنوں سے واپسی پر حادثے کا شکار ہوا۔ بہ ظاہر یہ حادثہ اتنا جان لیوا نہ تھا…… مگر موت کے لیے تو اک بہانہ چاہیے۔ بورے والا میں ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی وہ سفرِ آخرت پر روانہ ہوچکا تھا۔ شاید قدرت کو یہی منظور تھا۔
وہ دن رات ایک کرکے سفرِ نور کی تیاریوں میں مگن تھا…… وہ وہاں جاکر اللہ تعالا اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضۂ انور پر حاضری دے کر درود و سلام کے نذرانے پیش کرنا چاہتا تھا۔ شاید اللہ پاک کو اس کی لگن، چاہت اور وارفتگی پسند آگئی کہ اُسے ساتویں آسمان کی جنتوں میں اپنے پاس ہی بلالیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!
حادثاتی موت، شہادت کی موت کہلاتی ہے۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ وہ شہید کے درجے پر فایز ہوا ہے۔ شہید کبھی مرتے نہیں…… بلکہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ قیامت کے دن مجھ سے میرے اعمال کا نہیں بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ ایک بائیکر ہوتے ہوئے تم نے میری تخلیق کی گئی فلاں نشانی کیوں نہ دیکھی…… فلاں جگہ کیوں نہ پہنچے؟
حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔