سیلف ہیلپ کتابیں کیوں ناپسند کی جاتی ہیں؟

فیس بک کے بانی (Co-founder) ’’ڈسٹن موسکووٹز‘‘ سے ایک مرتبہ ایک انٹرو میں پوچھا گیا: ’’بتائیے، کیسا لگا آپ کو راتوں رات کامیاب ارب پتی آدمی بننا؟‘‘ ڈسٹن نے جواب دیا، راتوں رات سے اگر آپ کی مراد سات سال تک ہر رات ساری رات گھنٹوں کام کرنا ہے، تو یقین مانیے بہت مشکل اور دماغی طور پر تھکا دینے والا کام تھا، ارب پتی بننا۔
(ڈسٹن کو معلوم نہیں تھا کہ اس سات سال کی محنت کے بعد وہ ارب پتی بن جائے گا۔ وہ بس اپنا کام کررہا تھا…… بنا کسی نتیجے کی پروا کیے)
انسانی دماغ کی بے شمار فضول قسم کی فینٹسی کے ساتھ ایک عجیب فینٹسی یہ بھی ہے کہ اسے کوئی ایسی کتاب چاہیے جس میں اس کے سارے مسایل کا حل موجود ہو…… جس سے اس کی زندگی بدل جائے اور وہ بھی بنا عمل کیے…… ہم سفر کی صورت میں ایسا انسان چاہیے جس میں کوئی غلطی یا خامی نہ ہو، تو ہی اچھا ریلیشن شپ بن سکتا ہے…… بچے ہوں تو بالکل روبوٹ جیسے اور ماں باپ کے اشاروں پر ناچیں اور ذہانت کے پیکر ہوں…… جاب پسند نہیں اور جاب میں کوئی کارکردگی بھی نہیں دکھانی، لیکن کرنا بزنس ہے اور بزنس کی ترقی اور نتایج بھی راتوں رات چاہیے…… بالکل ویسے جیسے ایک کلک پر پیزا آرڈر اور چند منٹ میں آن لائن شاپنگ ہوجاتی ہے۔
ماڈرن دنیاکے اس ایک کلک پر حاضر ہونے والی سہولت نے ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ ہر چیز کے نتایج بنا محنت کیے ایک کلک پر ملیں…… اور یہی سوچ ہماری سیلف ہیلپ کتابوں کی جانب بھی ہے کہ بس چند کتابیں پڑھیں اور سارے مسئلے رفو چکر……!
مَیں نے پچھلے تین سالوں میں اَن گنت سیلف ہیلپ کتابیں پڑھی ہیں۔ لوگ موٹی ویشنل اسپیکرز کی مانند سیلف ہیلپ انڈسٹری پر تنقید کرتے ہیں اور انھیں اسکیم اور فراڈ کہتے ہیں۔ میرا اپنا سفر سیلف ہیلپ کے ساتھ بہت دلچسپ رہا ہے۔ مَیں نے اپنے تجربے کی بنا پر اس سفر سے جو اخذ کیا وہ آپ سب کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گی۔
رابرٹ گرین کی کتاب ’’فورٹی ایٹ لاز آف پاور‘‘ میں ایک قانون میں وہ لکھتے ہیں کہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے سے بہتر ہے کہ کسی اور کے دانش اور غلطیوں سے سیکھا جائے۔ دوسروں کی غلطیاں، ان کی ایجاد یا ان کی دانش کو پڑھنے کا سب سے بہترین ذریعہ ’’کتاب‘‘ ہے۔ ماڈرن دنیا نے کتاب کو بہت عام بنایا ہے۔ البتہ کتاب پڑھنے کو بہت خاص (تفریح اور انتشار توجہ (Distraction) کے اس دور میں کتاب پڑھنا آسان نہیں) خود کو بہتر بنانے اور اپنے مسایل کا حل ڈھونڈنے کے لیے مَیں نے کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ کیوں کہ شاید مَیں نے رابرٹ گرین کے اس قول کو بہت سنجیدہ لے لیا تھا!
جب بھی کوئی سیلف ہیلپ کتاب پڑھتی، تو یہی سوچتی کہ بس اس والی کتاب کو پڑھ کر میرے مسئلے حل ہوجائیں گے، لیکن کیا ایسا ہوتا…… کیا میرے مسئلے حل ہوتے…… سیلف ہیلپ کتابیں غلط ہیں…… یا ان کے متعلق ہماری سوچ یا ہماری توقعات……؟
کتابیں پڑھ کر آپ کو دوسرے انسانوں کے تجربات کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ علم اور جانکاری شیئر کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جب انسان ’’ہنٹر گیدرر‘‘ تھا، تب ایک دوسرے کے ساتھ جنگل میں زہریلے اور کھانے کے قابل پودوں کی معلومات شیئر کرتا تھا اور آج کل پروڈکٹوٹی (Productivity) اور اچھے پیشے اور کام کے متعلق مشورے شیئر ہوتے ہیں۔
کتاب پڑھ کر معلومات اور آگاہی ملتی ہے۔ کہتے ہیں کہ بیماری کا پتا لگ جانا بھی آدھا علاج ہوتا ہے…… بالکل ٹھیک کہتے ہیں، لیکن صحت یابی کے لیے آدھے علاج کا سفر تو اب بھی طے کرنا ہے…… اور یہ سفر جو اُونچ نیچ اور غلطیوں سے بھرپور تھا، مجھے اس بات کی جانب لے گیا کہ ایک تو عمل (Action) سب سے ضروری ہے اور اس کے بغیر سب فضول ہے۔ دوسرا یہ کہ ہر کتاب اپنے اندر ایک دانش (Wisdom) رکھتی ہے۔ آپ ہر کتاب میں سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کوئی کتاب بھی آپ کی زندگی نہیں بدلتی۔ البتہ کچھ کتابیں آپ کے کئی عقیدوں (Beliefs) کو ختم کرکے کچھ نئے عقیدے بناتی ہیں اور عقیدے بننے اور ٹوٹنے کا یہ سلسلہ ساری زندگی چلتا رہتا ہے۔ کیوں کہ فطرت کو پرانی چیزیں توڑ کر نئی بنانا اچھا لگتا ہے اور یہی نظام اس نے ہمارے دماغوں میں بھی نافذ کیا ہے۔
اور جہاں آپ کسی کتاب (نظریے) پر رک گئے، تو آپ فطرت کے بنیادی قانون بدلاؤ (Change) کے خلاف کھڑے ہوگئے…… جس کا یقینا نقصان ہے۔ تبھی ’’ٹاؤ ازم‘‘ (Taoism) ہمیں سکھاتا ہے کہ پانی کی مانند بنو۔
باقی کی کتابوں کی طرح سیلف ہیلپ کتابوں میں کوئی برائی نہیں۔ مسئلہ ہماری غیر حقیقی توقعات میں ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں کوئی بھی کتاب ہو، وہ مکمل نہیں ہوتی…… اور کچھ کتابیں تو واقعی میں تنقید کے قابل ہوتی ہیں۔ مَیں نے ہر کتاب سے کچھ نہ کچھ سیکھا۔ کچھ پر عمل بھی کیا، جب کوئی نتیجہ نہ آیا تو چھوڑ دیا۔ کیوں کہ وہ اصول شاید میرے لیے کارآمد نہ تھے…… لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ مَیں لکھنے والوں کو کوسنا شروع کردوں کہ تم نے کیوں یہ کتاب لکھی…… یا پھر تمھارے سارے اصول بے کار اور فضول ہیں۔ میری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ساری سیلف ہیلپ کتابیں فضول ہیں۔
لکھنے والے کچھ بھی لکھیں گے، جو آپ کے لیے کارآمد نہیں…… آپ اسے رد کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے نظریات یا اصول آپ سے میل نہیں کھاتے، یا ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا (اکثر ہمیں فوری نتایج بھی چاہیے ہوتے ہیں) آپ کو جس نظریے یا بات سے اختلاف ہے، آپ پر کوئی زبردستی مسلط نہیں کررہا وہ اصول، البتہ آپ بے شک ان اصولوں پر تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں عدم یقینی (Uncertainty) کی صورتِ حال ہوتی ہے، وہاں اپنے تجربوں کے ساتھ دوسروں سے سیکھا ہوا علم آپ کے لیے اوزار کی مانند ہے…… جس کی پریکٹس اور جس کا ہونا آپ کو مشکل اور عدم یقینی کی صورت حال میں کسی حد تک لاچار اور انتشار کا شکار نہیں ہونے دے گا۔ بنا عمل اور صبر کے کوئی نتیجہ نہیں آسکتا…… چاہے کتنا ہی علم اور دانش کیوں نہ ہو کسی کے پاس اور عمل کرنا یقینا بہت مشکل کام ہے۔
کتاب کوئی بھی ہو، آپ کو کوئی نہ کوئی کام کی بات ضرور بتاتی ہے۔ اس کام کی بات کو سنبھال کر رکھ لینا اور باقی جو آپ کے کام کا نہیں اسے جانے دینا زیادہ بہتر رہتا ہے بہ نسبت کچھ مخصوص کتابوں کی جانب نفرت رکھ کر انہیں دھتکارنے کے۔ بے شک دھتکارنا آپ کے اندر کے جذبات کی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے