قربانی کا اصل مقصد

عیدِ قرباں کا مقصد مسلمانوں کے اندر قربانی کی وہی روح، ایمان کی وہی کیفیت اور خالقِ کاینات کے ساتھ محبت اور وفاداری کی وہی شان پیدا کرنا ہے جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔
عید الاضحی کے دن ہم حضرت ابراہیم کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے یہ اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے، وہ ہمارا نہیں بلکہ اللہ ربّ العزت کا ہے۔ ہم جس طرح جانور کی قربانی کرتے ہیں…… اسی طرح ہمیں اپنی نفسانی خواہشات کو بھی قربان کردینا چاہیے…… تاکہ ہم باہمی اختلافات، انتشار، بغض و حسد، غرور، عناد، مکر و فریب اور حق تلفی وجاہ طلبی کے ذریعے انسانیت کی تباہی کا ذریعہ بننے کی بجائے، عظمت و بلندی کا جو معیار قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے ہمیں بتایا ہے اور خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے۔ اسے اپنی زندگی میں سجا لیں بسا لیں۔ ذات، برادری، رنگ و نسل اور دولت و غربت کے سارے امتیازات کو مٹا کر اخوت و مساوات، پیار و محبت اور ایک خالق کی عبادت و بندگی کی فضا قایم کریں۔ بلاشبہ یہی عیدلاضحی کا حقیقی پیغام ہے۔
اللہ تعالا کے بعد تمام مخلوقات میں انبیائے کرام علیہم السلام کا مرتبہ ہے۔ وہی اللہ تعالا کے سب سے زیادہ قریب و اقرب ہیں…… جو اللہ تعالا کی طرف سے بھیجی گئی آزمایش میں پورے اترے اور انہوں نے اللہ تعالا کی رضا اور خوش نودی کے لیے ربّ کریم کے ہر حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا۔ اللہ تعالا کے انہی برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ آپ، اللہ تعالا کے جلیل القدر پیغمبر اور تسلیم ورضا اور اطاعت ربانی کا پیکر تھے۔ اللہ تعالا نے انہیں اپنا خلیل (گہرا دوست) قرار دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی استقامتِ دین کے لیے پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ اللہ ربّ العزت کو آپ علیہ السلام کا جذبہ قربانی و استقامت اس قدر پسند آیا کہ یہی جذبہ قربانی ہر دور کے لیے ایمانی معیار اور کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ہر امتحان و آزمایش میں کامیاب وکامران ٹھہرے۔ آپ علیہ السلام کو کبھی ا پنے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور بیوی حضرت حاجرہ کو فاران کے بیابان میں چھوڑنے کا حکم ملا، تو کبھی بڑھاپے اور پیرانہ سالی کی تمناؤں کا مرکز، راتوں اور دنوں کی دعاؤں کا ثمر، قلب ونظر کا چراغ سیّدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکمِ الٰہی کی تعمیل میں قربان کرنے کا حکم ملا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تین رات متواتر خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں: ’’ اے ابراہیم! تو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر دے۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام تسلیم ورضا اور اطاعت ربانی کا پیکر بن کر تیار ہوگئے۔ چوں کہ اس امتحان وآزمایش میں بیٹا بھی شریک تھا۔ اس لیے باپ نے اطاعت شعار اور فرماں بردار بیٹے کو اپنا خواب اور خدا کا حکم سنایا۔ سیّدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے والد کی طرح اولو العزم، ثابت قدم، عزیمت و استقامت، تسلیم ورضا اور اطاعتِ ربانی کے پیکر تھے۔ فوراً ہی سرِ تسلیم خم کر دیا اور کہا: ’’ اگر خدا کی یہی مرضی ہے، تو آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘
یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو پوری تاریخِ انسانی میں ایک منفرد اور بلند مقام حاصل ہے۔ تاریخ کے اوراق اس عظیم قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و سلم ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ تمہارے ( روحانی اور نسلی) مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و سلم ان قربانیوں میں ہمارا کیا اجر ہے؟‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے۔‘‘ (مسند احمد، سنن ابن ماجہ)
اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یوم النحر (دس ذوالجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ تعالا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں۔ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال او رکھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل اللہ تعالا کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا! اسے خوش دلی سے کرو۔‘‘ (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف قربانی کے فضایل او رحکم بیان نہیں فرمایا، بلکہ ان پر عمل کرکے بھی دکھلایا ہے۔ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں: ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں دس سال مقیم رہے، اس عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سال قربانی کی۔‘‘ (مشکوٰۃ ترمذی)
عیدالاضحی پر جانوروں کی قربانی جہاں ایک عظیم سنت کی تعمیل ہے، وہاں تجدیدِ عہد وفا بھی ہے۔ قربانی درحقیقت اس وعدے کو دہرانے کا نام ہے کہ ہمارا جینا، مرنا او رہماری پوری زندگی اللہ تعالا کے لیے ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے