پاکستان اس وقت حقیقی معنوں میں 90ء کی دہائی کی سیاست میں واپس پہنچ چکا ہے۔ شنید ہے کہ حالات اداروں کی نہ صرف محاذ آرائی کی جانب بڑھ رہے ہیں…… بلکہ اداروں کو متنازع بنانے کی بھی حتی الوسع کو شش کی جا رہی ہے۔
مقامِ حیرت ہے کہ اس کوشش میں ہر اول دستے کا کردار وہ ادا کر رہے ہیں…… جو خود کو جمہوریت کا سرخیل سمجھتے ہیں۔ اپنا قبلہ درست کرنے کی بجائے تمام سیاسی راہنما دوسروں کو سیدھا کرنے کے چکر میں ہیں۔ جمہوری روایات کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھنے والے ہی اس وقت جمہوریت کی سر بلندی کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ کرسیِ اقتدار سے چمٹے رہنے والے سیاسی بہروپیے، اپنے آپ کو عوام کا خادم، تبدیلی کے سالار، لبرل ازم کے نمایندے گنوا رہے ہیں۔
’’اپنے منھ میاں مٹھو بننا‘‘ محاورے کی بجائے حقیقی معنوں میں سمجھنا مقصود ہو، تو اس وقت پاکستان کی سیاست کے میوزیکل چیئر کا کھیل دیکھ لیں۔ آپ کو اس میں 90ء کی دہائی کی جھلک دکھائی دے گی…… جب کوئی بھی اقتدار سے دوری کو اپنی تباہی تصور کرتا تھا۔
جمہوری معاشروں میں، جہاں جمہوریت حقیقی معنوں میں نافذ العمل ہے…… وہاں حکومت سے زیادہ اپوزیشن کا کردار اہم تصور کیا جاتا ہے۔ حکومتِ وقت پھونک پھونک کر قدم رکھتی ہے کہ کہیں اپوزیشن کو کوئی ایسی کڑی نا مل جائے کہ وہ ایوان میں ہماری کلاس کا سامان کرلے۔
مہذب جمہوری معاشروں میں حکومت کے متوازی ایک اپوزیشن کی کابینہ بھی تشکیل دیے جانے کی روایت موجود ہے۔ اس نظام کو "Shadow Cabinet” یعنی متوازی کابینہ کہہ سکتے ہیں…… یا ایک ایسا آئینہ جس میں حکومت کی کارکردگی کا عکس بھی دکھائی دے سکے…… اور اس پہ ضروری اقدامات بھی ایسے کیے جا سکیں کہ حکومتِ وقت کو باور کروایا جا سکے کہ انہوں نے فلاں کام کیا ہے…… وہ بہتر انداز میں اِس طریقے سے بھی ہوسکتا ہے۔
برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اٹلی ، آئر لینڈ وغیرہ میں یہ نظام جمہوریت کی ایک خوب صورت مثال ہے۔
ہم ایشیا میں خود کو تیسری دنیا (خود ساختہ) شمار کرتے ہیں۔ لہٰذا ابھی ہمارے ہاں یہ روایت پنپ نہیں سکی۔ ایران واحد ملک ہے جہاں یہ اصطلاح کچھ حد تک دکھائی دی…… جب 2013ء کے صدارتی انتخابات میں ہارنے کے بعد سعید جلیلی نے شیڈو کیبنٹ کی تجویز پیش کی کہ حکومتِ وقت کی اصلاح کے ساتھ تجاویز بھی پیش کی جاسکیں…… لیکن مجموعی طور پر ایشیائی ممالک اس حوالے سے بہت پیچھے ہیں۔
شیڈو کیبنٹ کے بعد شیڈو بجٹ کو بھی جمہوری معاشروں میں اہمیت حاصل ہے۔ حکومتی ٹیم کے بالکل متوازی اپوزیشن میں بھی ایسا ڈھانچا تشکیل دیا جانا کہ وہ حکومت وقت پہ کڑی نظر رکھ سکے…… اپنی دانست میں بھی ایک بہترین نظام ہے۔ مثال کے طور پر حکومتی وزیرِ خزانہ اگر کوئی غلطی کرے گا، تو شیڈو کیبنٹ کا وزیرِ خزانہ نہ صرف عوام میں اس کی تشہیر کرے گا…… بلکہ ایوان میں بھی اس کی بنیاد پر حکومتی وزیرِ خزانہ کی کلاس لے گا۔
اسی طرح شیڈو کیبنٹ حکومتِ وقت کے بجٹ کے متوازی اپنا بجٹ پیش کرتی ہے۔ یعنی آپ اپوزیشن میں ہیں، تواپنے تمام نِکات کو پھر بھی عوام کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔
لیکن پاکستان میں ایسی روایات پنپ نہیں سکیں…… اور یہاں صرف کرسی سے چمٹے رہنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ حکومت مل جائے، تو ٹرانسپورٹ کا ماہر ہو سکتا ہے کہ خزانہ کے معاملات دیکھ رہا ہو۔ خزانہ کا ماہر ہو سکتا ہے کہ دفاع کی وزارت سنبھال لے۔ مواصلات کو جاننے والا ماحولیات سنبھال لے۔جہاز رانی میں زندگی گزار دینے والا امورِ کشمیر کی وزارت سنبھال لے وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے ہاں قابلیت سے زیادہ نوازنے کی روایت بہت مضبوط ہے۔ شیڈو کیبنٹ، صدارتی مباحثہ، پارٹی انتخابات، انتخابی اصلاحات، ادارہ جاتی اصلاحات کے حوالے سے ہمارے ہاں نیرو ابھی چین کی بانسری بجا رہا ہے…… اور اس حوالے سے حکومت اور نہ اپوزیشن ہی کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
اول نواز لیگ اور پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی کے خلاف لٹھ لے کر پڑے رہے…… اور اب پی ٹی آئی حکومتی اتحاد کے پیچھے لٹھ لے کر پڑی ہوئی ہے۔ یہ احتجاج اور لانگ مارچ کی دہائی ہے۔
سمجھ سے بالاتر ہے کہ سیاسی پارٹیاں کیوں صرف اقتدار ہی میں آنا چاہتی ہیں؟ نواز لیگ نے بڑے دعوے کیے…… لیکن حکومت سنبھالتے ہی ڈالر 200 سے بھی اوپر ہو گیا…… اور پٹرول کی قیمت کو پَر لگ چکے ہیں۔ ایسے حالات میں فرض کیا حکومت پی ٹی آئی ہی کو واپس مل جاتی ہے، توکیا پی ٹی آئی دعوے سے کَہ سکتی ہے کہ حکومت دوبارہ ملنے پر وہ بھونڈی دلیلیں نہیں دیں گے؟
خدارا! اس ملک کے ساتھ کھلواڑ ختم کیجیے۔ کوئی بھی جانے والی حکومت اس بات کو موضوع بنانا ہی گوارا نہیں کرتی کہ اس نے اپنے منشور پہ کتنا عمل کیا…… بلکہ وہ سیاسی شہید بننے کے چکر میں رہتے ہیں۔
ن لیگ ـاپنے منشور کی ناکامی کی بجائے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا رونا روتی رہی۔ بالکل ویسے ہی اس وقت پی ٹی آئی اپنے گریباں میں جھانکنے کی بجائے ’’مجھے واپس لاؤ‘‘ کا بیانیہ اپنائے ہوئے ہے۔
عقل پہ شاید پردہ پڑا ہے…… یا جانتے بوجھتے پہلوتہی برتی جا رہی ہے کہ فوری انتخابات کا مطالبہ کرنے کا واحد مقصد ہی یہی ہے کہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی عادت نہیں رہی۔ ورنہ حقیقی معنوں میں سیاست دان ہوتے، تو جیسے اپوزیشن نے عدمِ اعتماد کا قدم ساڑھے تین سال بعد اٹھایا۔ آپ بھی ایک سال صبر کرتے اور حکومتی ناکامیوں کو مکمل طور پر کیش کرواتے۔ انتخابی اصلاحات کرواتے۔ اداری جاتی اصلاحات کی طرف جاتے۔ پولیس ریفارمز کا حال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت تین سال میں پولیس کا ادارہ ٹھیک نہ کرسکی اور ابھی گلہ ہے کہ ان کے خلاف پولیس کارروائی ہو رہی ہے۔
ارے صاحبان! آپ اگر پولیس میں ریفارمز کر دیتے، تو آج پولیس آپ کے خلا ف کارروائیوں سے انکار کر دیتی۔ آپ کے پاس اقتدار رہا، تو آپ کلرکوں کی طرح پاکستان کے اہم ترین صوبے کے پولیس چیف تبدیل کرتے رہے اور گلہ موجودہ حکومت سے ہے۔ بیوروکریسی نے صرف اس وجہ سے کام کرنا چھوڑ دیا کہ نجانے کب تبدیلی سرکار تبدیل کر دے، تو پھر اب گلہ کیسا آپ کو؟ انتخابی اصلاحات کے بنا جو انتخابات میں جانے کی ضد ہے، تو ایک فایدہ گنوا دیجیے کہ بنا اصلاحات کے انتخابات ہوئے، تو فایدہ کیا ہو گا؟
اپوزیشن کا کردار، حقیقی جمہوری معنوں میں دیکھیں، تو حکومت سے بھی زیادہ اہم ہے۔ حکومتی ٹیم کے متوازی ٹیم تشکیل دے کر، اپنا بجٹ حکومت کے متوازی پیش کر کے اور ایک ایک فیصلے کا تنقیدی جایزہ لے کر نہ صرف حکومت پہ تنقید کا مثبت پیرایہ اپنایا جا سکتا ہے بلکہ مستقبل میں اپنی حکومت کی راہ بھی ہم وار کی جا سکتی ہے……!
لیکن نہیں جناب! یہاں تو صر ف
یا کرسیِ اقتدار تیرا ہی آسرا!
کا نعرہ ہے اور بس۔
رہے نام اللہ کا!
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔