آئینِ پاکستان اور ہمارے بنیادی حقوق

بنیادی قواعد و ضوابط کا مجموعہ جن کی بنیاد پر ریاست قایم ہو…… یا ریاستی نظام اور اُمور کو چلانے کے لیے بنائے گئے تحریری و غیر تحریری قوانین کو آئین یا دستور (Constitution) کہتے ہیں۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان بدقسمت ممالک میں ہوتا ہے جس کے وجود میں آنے کے 9 سال تک ریاستی اُمور ایک عارضی ایکٹ کے تحت چلائے گئے۔ اس سے زیادہ اور کیا بدقسمتی ہو سکتی ہے کہ 9 سال بعد نافذ ہونے والا آئین اپنے وجود میں آنے کے 2 سال بعد یعنی 1958ء میں ’’مارشل لا‘‘ لگنے بعد کالعدم قرار دیا گیا…… جس کے بعد 1962ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک میں اپنے ’’ایوبی آئین‘‘ کا نفاذ کیا…… جو 1969ء تک قایم رہا۔
اس طرح مملکتِ خداداد پاکستان کا تیسرا اور متفقہ آئین 1973ء کو ذالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں بنا جو تقریباً 26 آئینی ترامیم کے ساتھ آج تک نافذ العمل ہے۔
قارئین! آئینِ پاکستان کل 280 شقوں (Articles) پر مشتمل ہے…… جن میں پہلے 40 شقوں میں اصول، حکومتی حکمتِ عملی و ذمے داریوں اور عوام کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔
قارئین! دستور وہ بنیادی دستاویز ہے جو کسی ادارے یا فرد کی نہیں…… بلکہ مجموعی طور پر قوم اور ملک کی ملکیت ہوتا ہے…… یعنی اس دستاویز تک رسائی کے لیے کسی فرد یا ادارے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کو اپنے بنیادی حقوق سے واقف ہونا بے حد ضروری ہے۔ اس لیے آج کی نشست میں اِک نظر ’’دستورِ پاکستان‘‘ میں درج بنیادی شہری حقوق پر ڈالتے ہیں۔
٭ شق نمبر3:۔ ریاست استحصال کی تمام اقسام کا خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تفریحی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور ہر کسی کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے۔
٭ شق نمبر 4:۔ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔ کوئی ایسی کارروائی نہ کی جائے جو اس کی جان، آزادی، جسم، شہرت یا اِملاک کے لیے نقصان دہ ہو…… سوائے جب قانون اس کی اجازت دے۔ کسی شخص کی کوئی ایسا کام کرنے میں ممانعت یا مزاحمت نہ ہوگی جو قانوناً ممنوع نہ ہو اور کسی شخص کو کوئی ایسا کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کا کرنا اس کے لے قانوناً ضروری نہ ہو۔
٭ شق نمبر 5:۔ ریاست سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔ دستور اور قانون کی اِطاعت ہر شہری (خواہ وہ کہیں بھی ہو) اور ہر شخص کی (جو فی الوقت پاکستان میں ہو) واجب التعمیل ذمے داری ہے۔
٭ شق نمبر 8:۔ ریاست ایسا کوئی قانون یا پالیسی نہیں بنائے گی جو شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم ہو۔
٭ شق نمبر 9:۔ کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا…… سوائے جب کہ قانون اس کی اجازت دے۔
٭ شق نمبر 10:۔ کسی شخص کو جسے گرفتار کیا گیا ہو، مذکورہ گرفتاری کی وجوہ سے جس قدر جلد ہوسکے، آگاہ کیے بغیر نہ تو نظر بند رکھاجائے گا…… اور نہ اسے اپنی پسند کے کسی قانون دان (وکیل) سے مشورہ کرنے اور اس کے ذریعے صفائی پیش کرنے کے حق سے محروم کیا جائے گا۔ ہر اس شخص کو جو گرفتار کیا گیا ہو، یا نظر بند رکھا گیا ہو، 24 گھنٹوں کے اندر کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازم ہوگا۔
٭ شق نمبر11:۔ غلامی اور بیگار معدوم اور ممنوع ہے۔ کوئی بھی قانون کسی بھی صورت میں اسے پاکستان میں رواج دینے کی اجازت نہیں دے گا یا سہولت بہم نہیں پہنچائے گا۔ بیگار کی تمام صورتوں اور انسانوں کی خرید و فروخت کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔
٭ شق نمبر 12:۔ کوئی قانون کسی شخص کو کسی ایسے فعل یا ترکِ فعل کے لیے جو اس فعل کے سرزد ہونے کے وقت کسی قانون کے تحت قابلِ سزا نہ تھا، سزا دینے کی اجازت نہیں دے گا۔ کسی جرم کے لیے ایسی سزا دینے کی جو اس جرم کے ارتکاب کے وقت کسی قانون کی رو سے اس کے لیے مقررہ سزا سے زیادہ سخت یا اس سے مختلف ہو…… اجازت نہیں دے گا۔
٭ شق نمبر 13:۔ کسی شخص پر ایک ہی جرم کی بنا پر ایک بار سے زیادہ نہ تو مقدمہ چلایا جائے گا اور نہ سزا ہی دی جائے گی۔ کسی شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ اپنے ہی خلاف گواہ بنے۔
٭ شق نمبر 14:۔ شرفِ انسانی اور قانون کے تابع گھر کی خلوت قابلِ حرمت ہوگی۔ کسی شخص کو شہادت حاصل کرنے کی غرض سے اذیت نہیں دی جائے گی۔
٭ شق نمبر 15:۔ ہر شہری کو پاکستان میں رہنے اور مفادِ عامہ کے پیشِ نظر قانون کے ذریعے عاید کردہ کسی معقول پابندی کے تابع، پاکستان میں داخل ہونے، اس کے ہر حصے میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے، سکونت اختیار کرنے اور آباد ہونے کا حق ہوگا۔
٭ شق نمبر 16:۔ امنِ عامہ کے مفاد میں قانون کے ذریعے عاید کردہ پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو پُرامن اور اسلحہ کے بغیر جمع ہونے کا حق ہوگا۔
٭ شق نمبر 17:۔ پاکستان کی حاکمیتِ اعلا، سالمیت، امنِ عامہ یا اخلاق کے مفاد میں قانون کے ذریعے عاید کردہ معقول پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو انجمن یا یونین بنانے کا حق حاصل ہوگا۔ ہر وہ شہری جو ملازمتِ پاکستان میں نہ ہو، قانون کے ذریعے عاید پابندیوں کے تابع کوئی سیاسی جماعت بنانے یا اس کا رکن بننے کا حق ہوگا۔
٭ شق نمبر 18:۔ ہر شہری کو جایز پیشہ یا مشغلہ اختیار کرنے اور کوئی جایز تجارت یا کاروبار کرنے کا حق ہوگا۔
٭ شق نمبر 19:۔ اسلام کی عظمت، پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امنِ عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیشِ نظر یا توہینِ عدالت، کسی جرم کے ارتکاب یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عاید کردہ پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو تقریر اور اظہارِ خیال کی آزادی کا حق اور پریس کی آزادی ہوگی۔ قانون کے ذریعے عاید کردہ مناسب پابندیوں اور ضوابط کے تابع ہر شہری کو عوامی اہمیت کے حامل تمام معلومات تک رسائی کا حق ہوگا۔
٭ شق نمبر 20:۔ قانون، امنِ عامہ اور اخلاق کے تابع ہر شخص کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا۔ ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قایم کرنے، برقرار اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا۔
٭ شق نمبر 21:۔ کسی شخص کو کوئی ایسا خاص محصول ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کی آمدنی اُس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کی تبلیغ و ترویج پر صرف کی جائے ۔
٭ شق نمبر 22:۔ کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یا مذہبی عبادت میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایسی تعلیم، تقریب یا عبادت کا تعلق اس کے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے ہو۔
٭ شق نمبر 23:۔ دستور اور مفادِ عامہ کے پیشِ نظر قانون کے ذریعے عاید کردہ پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو جائیداد حاصل کرنے، قبضہ میں رکھنے اور فروخت کرنے کا حق ہوگا۔
٭ شق نمبر 24:۔ کسی شخص کو اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا، سوائے جب کہ قانون اس کی اجازت دے۔
٭ شق نمبر 25:۔ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حق دار ہیں۔ کوئی امر عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے لیے مملکت کی طرف سے کوئی خاص اہتمام کرنے میں مانع نہ ہوگا۔ ریاست 5 سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لیے مذکورہ طریقۂ کار پر جیسا کہ قانون کے ذریعے مقرر کیا جائے، مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔
٭ شق نمبر 26:۔ عام تفریح گاہوں یا جمع ہونے کی جگہوں میں جو صرف مذہبی اغراض کے لیے مختص نہ ہوں، آنے جانے کے لیے کسی شہری کے ساتھ محض نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت یا مقامِ پیدایش کی بنا پر کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔
٭ شق نمبر 27:۔ کسی شہری کے ساتھ بہ اعتبارِ دیگر پاکستان کی ملازمت میں تقرر اہل ہو، کسی ایسے تقرر کے سلسلے میں محض نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت یا مقامِ پیدایش کی بنا پر امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔
٭ شق نمبر 28:۔ شہریوں کے کسی طبقہ جس کی ایک الگ زبان، رسم الخط یا ثقافت ہو، اُسے برقرار رکھنے اور فروغ دینے کے لیے قانون کے تابع ادارے قایم کرنے کا حق ہوگا۔
قارئین، مملکتِ خداداد پاکستان کا قیام ہر شخص کو اپنے خیالات کے اظہار کی مکمل آزادی کے منشور کے تحت عمل میں لایا گیا ہے۔ اگر اس کے باوجود وطنِ عزیز میں عوام کی اکثریت بنیادی حقوق سے محروم ہے، تو یہ حکومت اور ریاست کے لیے لمحۂ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے؟
مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بنیادی شہری حقوق کے تحفظ اور ان کی خلاف ورزیوں کی روک تھام میں حایل رکاوٹیں دور کرنے کی سعی فرمائیں۔
اس طرح عوام کو بھی اِک جمہوری ملک میں اپنے بنیادی حقوق کا پتا ہونا چاہیے۔ تاکہ کوئی فرد یا ادارہ عوام کے جایز حقوق…… جن کا ذکر اور تعین آئین میں تحریری طور پر موجود ہے، کو غصب نہ کرسکے۔
آئین اور قانون کا علم حاصل کرنا ہر شہری کی ذمے داری ہے۔ کیوں کہ قانون سے لاعلمی کوئی عذر نہیں۔ اس سوچ کو فروغ دینے اور اس سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر باقاعدہ طور پر ایک ٹرینڈ کا آغاز کردیا گیا ہے۔ لہٰذا مذکورہ ’’ٹرینڈ‘‘ میں حصہ لے کر اپنے بنیادی آئینی حقوق کو پہنچانیں…… اور ان کا تحفظ یقینی بنائیں۔
……………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے