تحریر: حنظلۃ الخلیق
20 جنوری 1600 عیسوی کو اٹلی کے ایک دیو ہیکل مینار میں سات برس سے قید ایک 52 سالہ شخص کو ایک بار پھر کلیسا کی اسی عدالت میں لے جایا گیا جہاں پچھلے 7 برس سے اس کی تفتیش جاری تھی…… لیکن آج اس کی آخری پیشی تھی۔ سارے ججوں نے حتمی فیصلہ قلم بند کر لیا، تو اس میانی قامت اور خاکستری ہلکی داڑھی والے شخص نے ججوں کو دھمکاتے ہوئے کہا: ’’لگتا ہے سزا ملنے والے سے سزا سنانے والے زیادہ سہمے ہوئے ہیں۔‘‘
پوپ (بابا رومن کیتھولک) نے اس شخص پر سارے الزامات کا جایزہ لے کر، مجرم کی تصدیق و اقرار کے بعد اسے زندیق اور کیتھولک عقیدے کا گستاخ قرار دیا اور سرِ عام زندہ جلانے کی سزا سنائی۔ 29 دن مزید زِنداں میں بسر کرنے کے بعد آخر اس کی گستاخیوں کا مکمل قلع قمع ہونے پر بطورِ علامت اس کی زبان تالو سے چپکا دی گئی اور اسے پورا ننگا کر کے الٹا لٹکا دیا گیا، اسی دن 17 فروری 1600ء کو اسے بازار میں سر عام زندہ جلایا گیا اور باقیات کو دریا میں بہا دیا گیا۔
یہ زندہ جلایا جانے والا شخص آنجہانی اطالوی (رومی) ساینس دان، عالمِ فلکیات، مفکر، شاعر، فلسفی، مصنف، مدرس اور اٹلی کے شہر نیپلز”Naples” کی تدریسی خانقاہ کا سابقہ پادری ’’جیور دانو برانو‘‘ (Giordano Bruno) تھا جو 1548ء میں پید ا ہوا تھا اور 1600ء میں کوچ کرگیا۔ اس کا پیدایشی نام فلپ برانو تھا؛ اسے اسی نام سے بپتسمہ دیا گیا۔ 1548ء میں اٹلی کے علاقے نیپلز میں پیدا ہوا۔ باپ فوجی تھا۔ عام رواج کے مطابق اسے تعلیم و تربیت کے لیے رومن کیتھولک چرچ کے زیرِ انتظام ایک مقامی خانقاہ میں داخل کروا دیا گیا۔ برانو نے ایک پادری سے ابتدائی طور پر لکھنا سیکھا۔ وہاں اپنے ایک علم طبعیات کے استاد جس کا نام ’’جیور دانو‘‘ تھا سے متاثر ہو کر فلپ برانو نے اس کا نام اپنا لیا۔ چناں چہ وہ ’’جیوردانو برانو‘‘ بن گیا۔ وہ بہت ذہین طالب علم تھا۔ تدریس سے فراغت کے بعد اس کو پادری کا رتبہ دیا گیا؛ چناں چہ 24 سال کی عمر میں وہ اس اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔ اس کی یادداشت بہت حیران کن تھی۔ ساتھی اس کی اس خوبی کو کسی جادوگری کا کمال سمجھتے تھے۔ ایک بار جب وہ اپنے خانقاہی زمانے میں رومن پوپ کے سامنے پیش ہوا اور کئی مذہبی آثار سمیت تاریخ پر بات کی، تو وہ بھی حیران رہ گیا ۔ وہ ’’علم الذاکرۃ‘‘ (Art of memory) کے لیے پورے شہر میں مشہور ہوگیا۔ اس کے ساتھ برانو ہر معاملہ چاہے وہ مذہبی ہو یا علمی، اس کے متعلق کھل کر بات کرتا۔ اس کا انداز آزادانہ اور بے باک تھا۔ رومی کلیسا کی بہت سی ممنوعہ کردہ کتب وہ چوری چھپے اپنے پاس رکھتا۔ صلیب کا مذاق اُڑاتا اور دیو مالائی عقاید کو عقل کے پیمانوں سے ناپنے کی کوشش کرتا۔ اس کے علاوہ وہ خانقاہ میں پڑی پرانے راہبوں کی تصاویر بھی نیچے پھینک دیتا۔ یہ سب بہت حیران کن تھا۔ کیوں کہ وہ پادری تھا اور خانقاہی نظام سے وابستہ ہوئے اسے 11 برس گزر چکے تھے۔ اپنے اس رویے کی وجہ سے وہ ایک دو بار زیرِ عتاب بھی آیا، لیکن اس کا معاملہ رفع ہوگیا (اس ابتدائی دور کے الزامات، اس کے آخری مقدمے میں بھی اس کی گستاخی کے ثبوت کے طور پر پیش کیے گئے جس میں اسے زندہ جلانے کی سزا ہوئی)
نیپلز جو کہ اس کا آبائی وطن تھا، ہو سکتا تھا کہ وہ اس سب کے باوجود بھی وہاں ٹکا رہتا لیکن اس پر عتاب اس وقت ٹوٹا جب اس نے ایک معاملے میں ’’آریوسیت‘‘ نظریات ( جو کہ راہب آریوس کی طرف منسوب ہیں اور کیتھولک عقیدے کے متضاد ہیں) کی حمایت کی اور پندرھویں صدی کے مصلح اور عیسائی عالم”Erasmus” کی بعض ممنوعہ کتب اس سے برآمد ہوئیں۔ برانو نے ’’اراسموس‘‘ پادری کی ممنوعہ تصنیف خانقاہ کے بیت الخلا میں چھپا کر رکھی تھی۔ اس پر اس کے خلاف ایک سنگین مقدمے کی تیاری جاری تھی کہ وہ نیپلز سے فرار ہو کر وینس جا پہنچا اور اپنا مذہبی رنگ ترک کر کے ایک آزاد خیال مفکر، مصنف اور سیاح بن گیا۔
وینس میں رہتے ہوئے وہ علمی مشاغل میں مصروف رہا۔ اس کے بعض خیر خواہوں نے اسے دوبارہ سے مذہبی لبادہ اوڑھنے کو کہا، مگر اس نے کوئی رضامندی ظاہر نہ کی۔ اس کے بعد وہ اٹلی سے سوئٹزر لینڈ کے شہر’’جنیوا‘‘ جا پہنچا اور آزاد خیال زندگی بسر کرنے لگا۔ اس نے شہر کے اطالوی سفیر کو پیغام دیا کہ اس کا شہر والوں کے مذہب کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ یہ پیغام برانو نے اپنے آخری مقدمے میں بھی پیش کیا، جب رومن کیتھولک چرچ نے اس پر جینیوا کا ’’پروٹسٹنٹ‘‘ (Protestant) مذہب قبول کرنے کا دعوا کیا۔ وہ جنیوا کی یونیورسٹی سے گہرا علمی تعلق قایم کرنے میں بھی کامیاب رہا مگر اپنی فطرتی روش سے نہ ہٹ سکا اور ایک مستند پروفیسر جو ادارتی کمیٹی سے تھا، اس کی کتاب پر رد لکھ ڈالا۔ اس جسارت نے برانو سمیت اس کے پبلشر کو بھی مشکل میں ڈال دیا اور ان دونوں کو گرفتار کر لیا گیا……لیکن برانو کی سرکشی اس وقت قابل دید تھی جب اس نے پبلشر کی حمایت کی اور جرم ماننے سے انکار کر دیا۔ ہوسکتا تھا کہ وہ مزید مشکل میں پھنس جاتا لیکن اس کے ضمانتی حق نے اس کو بچالیا اور وہ جنیوا سے بھی نکل گیا۔ برانو جنیوا کی یونیورسٹی میں فلسفے کا لیکچرار مقرر ہونا چاہتا تھا، لیکن مذکورہ پروفیسر پہلے ہی سے اس عہدے پر مقرر تھا۔ لہٰذا برانو نے اپنی صلاحیت منوانے کی خاطر اس پر علمی اعتراض کیے۔
اس کے بعد وہ فرانس نکل گیا اور ’’فلسفۂ ادیان‘‘ (Theology) میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ علمی حلقے میں متاثر کن رہا اور اپنے طلبہ کی کاوشوں سے فلسفے کا لیکچرار بن گیا۔ پیرس شہر میں اس نے فلسفہ پر 30 لیکچر دیے۔ اس کی ’’علم الذاکرۃ‘‘ کے حوالے سے شہرت پورے شہر میں پھیل گئی۔ اس کی حیرت انگیز علمی یادداشت سے ہر کوئی متعجب تھا۔ اس کے بعض ہم عصر اس کے تعلیمی زمانے کے ساتھی طالب علموں کی طرح اس کے پاس ’’جادوئی طاقت‘‘ ہونے کا یقین رکھتے تھے۔برانو کی بعض عادتیں اور علمی تحقیق واقعی ایسی تھی کہ وہ اس غلط فہمی میں پڑجاتے۔ یہی شہرت آخر فرانس کے بادشاہ ’’ہنری سوم‘‘ تک پہنچی، تو اس نے برانو کو اپنے دربار میں مدعو کیا اور اس سے اس کی جادوئی یادداشت کے متعلق پوچھا۔ برانو نے کہا کہ وہ علم النفس کا عمیق مطالعہ رکھتا ہے اور دماغی حافظے کے فلسفے کو پرکھتے پرکھتے وہ اس قابل ہوا ہے کہ غیر معمولی مذاکرات کرسکے۔ بادشاہ ہنری نے اس کا وظیفہ مقرر کیا اور اہم علمی اور تحقیقی منصب پر براجمان کیا۔ پیرس میں اس نے اپنے مداحوں اور شاگردوں کے درمیان اپنی زندگی کے بہترین دن جیے۔ اسی دوران میں اس نے اپنی ’’علم الذاکرۃ‘‘ پر عظیم کتابیں "On the shadow of ideas” اور "Art of memory” شایع کیں۔ پہلی کتاب کو بادشاہ ہنری سوم کی طرف منسوب کیا۔ یہ دونوں کتابیں اس کی گہری معلومات اور تجربے کا حاصل تھیں۔ بادشاہ ہنری نے اسے اپنے سفیر کے ساتھ انگلستان بھیج دیا۔ وہ انگلینڈ میں کئی اہم عہدوں پر رہا۔ ملکۂ الزبتھ کے ریاستی سیکرٹری کے ماتحت بھی کام کرتا رہا۔ ایک بار آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی لیکچر دیا، لیکن وہ وہاں کوشش کے باوجود پروفیسر متعین نہ ہوسکا۔ انگلستان میں وہ فرانس کے سفارت خانے میں مقیم رہا۔ یہاں اس نے زیادہ وقت علمِ فلکیات کی تحقیق میں گزارہ اور علم طبعیات کے حوالے سے کاینات اور میٹا فزکس پر لکھا۔ اس کا اندازِ بیاں باغیانہ اور زبان انتہائی سخت تھی…… جس کے نشتر وہ اپنے نظریات کے مخالفین پر چلاتا۔ انہیں دنوں اس کا آکسفورڈ یونیورسٹی کے عہدہ داروں اور بشپ کے ساتھ تنازعہ پیدا ہوا۔ یونیورسٹی کے نگران بشپ نے برانو کا ’’کوپر نیثس‘‘ کے نظریات کی تقلید کرنے پر مذاق اڑایا۔ اس کو جب پتا چلا کہ برانو کہتا ہے کہ زمین گھومتی ہے اور آسمان اور سورج ساکت ہیں (جیسے کہ کوپرنیثس کا نظریہ تھا) تو بشپ نے کہا، ’’دانو برانو کا سر ہلنے سے قاصر ہو کر ساکت ہو گیا ہے اور اس کا دماغ گھوم رہا ہے۔‘‘
انہیں تنازعات نے جب طول پکڑا تو برانو ایک بار پھر متنازعہ شخصیت بن گیا۔ وہ ارسطو کے نظریۂ کاینات کا بھی مخالف تھا۔ الغرض وہ انگلستان کا بھی باشندہ نہ بن سکا اور اپنی فطری آزادی کو لیے جرمنی جا پہنچا۔ وہاں کا علمی ماحول اس کی طبیعت کے موافق نہ تھا لیکن پھر بھی وہ ایک درسگاہ میں لیکچرر متعین ہوگیا۔ جرمنی میں شہر شہر پھرتے آخر ایک دن وہ فرینکفرٹ شہر کے کتاب میلے میں شریک تھا کہ اسے اٹلی کے شہر وینس کے ایک مقامی رئیس "Giovanni Mocenigo” کا خط موصول ہوا۔ اس نے برانو کو وینس آنے کی دعوت دی اور کہا کہ وہ برانو سے علمِ یادداشت اور فلسفہ سیکھنا چاہتا ہے۔
برانو کوئی حتمی فیصلہ نہ کرسکا، لیکن وہ جرمنی کو چھوڑ کر اٹلی چلا گیا۔ ایک برس تک علمِ ریاضیات کا لیکچرر متعین ہونے کی ناکام جد و جہد کے بعد آخر وہ وینس کے رئیس "Giovanni Mocenigo” کے پاس پہنچا اور اس کا اتالیق اور استاد بن گیا۔
شروع میں سب بہتر رہا۔ برانو اسے اپنے نظریات سمجھاتا رہا لیکن بعد میں جب برانو نے وینس سے جرمنی واپس جانا چاہا تاکہ وہ اپنی کچھ کتب طبع کر سکے، تو وہ رئیس سخت ناراض ہوا اور برانو کا دشمن بن گیا۔ اس نے برانو پر رومی کلیسا کے گستاخ اور بدکردار ہونے کے الزام لگائے اور مقامی چرچ کی عدالت میں اس پر کفر کا الزام عاید کرکے گرفتار کروا دیا۔ برانو پر لگا ایک بڑا الزام یہ بھی تھا کہ وہ کاینات کی ثنویت "Plurality of Worlds” پر یقین رکھتا تھا۔ برانو کے اس رئیس شاگرد نے اس کی زندگی اختتام کو پہنچا دی۔
یہ1593ء کا قصہ ہے۔ مقامی عدالت نے تفتیش کے بعد اسے روم منتقل کر دیا۔ 7 سال مسلسل اس کا مقدمہ چلتا رہا۔ رومی کلیسا کی عدالت میں برانو پر درجِ ذیل جرایم ثابت کیے گئے جن کے ثبوت اس کی پچھلی زندگی، لیکچروں اور کتابوں سے جمع کیے گئے۔
٭ رومن کیتھولک چرچ کے بنیادی عقاید کو لغو جاننا اور چرچ سمیت اس کے منتظمین کے خلاف گستاخی کرنا۔
٭ حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کے خدا کا بیٹا ہونے اور الوہیت کا انکار کرنا۔
٭ حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کا انکار کرنا۔
٭ عشائے ربانی میں منتقلیِ جوہر کا انکار کرنا۔
٭ آخرت اور جنت جہنم کا انکار کرنا۔
٭ مرنے کے بعد روح کی دنیا میں منتقلی کو ماننا۔
٭ کاینات کے دوہرے وجود کو ماننا اور کاینات کی ابدیت پر یقین رکھنا۔
٭ ممنوعہ کتب رکھنا اور ’’راہب آریوس‘‘ کے نظریات کی حمایت کرنا۔
٭ عقیدۂ کفارہ اور عقیدۂ تثلیث کا انکار کرنا۔
٭ میٹا فزکس اور فلسفے سے رومن عقاید کی مخالفت کرنا۔
٭ جادو کی عملیات میں مشغول ہونا۔
اس کے بعد برانو کو سرِ عام جلایا گیا اور راکھ دریا میں بہا دی گئی۔ 2000ء میں جب کہ برانو کی 400ویں برسی تھی، تو کیتھولک پوپ نے برانو سمیت ان تمام لوگوں کے لیے تعزیت پیش کی جنہوں نے آزادیِ فکر اور ساینس کی راہ میں جان کی قربانیاں دیں اور رومی کلیسا کے زیرِ عتاب رہے۔ کئی محققین نے برانو کے مقدمے کے کاغذات دریافت کیے اور اس کے لیے معذرت کے کلمات کہے، لیکن سب نے یہ ثابت کیا کہ رومن کیتھولک چرچ اس کو سزا دینے میں حق بجانب تھا۔
کئی ایک مغربی سکالرز کا ماننا ہے کہ برانو کو سزا اس کے ساینسی نظریات اور منفرد فلکی تخیلات کی وجہ سے نہیں ملی بلکہ سرِ عام کیتھولک عقاید کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ملی۔
جیور دانو برانو نے فلسفۂ طبعیات، علم الذاکرۃ، علمِ فلکیات، تاریخ، ادب اور ریاضی سمیت کئی موضاعات پر کتب لکھیں جو کہ اس کی سزا کے بعد رومن چرچ کی ممنوعہ کتب کے ہمراہ مقفل کتب خانے میں بند کر دی گئیں۔ برانو کی سزا کے کچھ برس بعد اسے آزادیِ فکر کا نمایندہ قرار دیا گیا اور کئی یادگاریں اس کے نام بنائی گئیں۔
برانو پر کئی کتابیں بھی لکھی گئیں اور اسے ادب میں جادوئی حقیقت نگاری کا اولین نقاش قرار دیا گیا۔ جیمز جوایس نے اپنا ناول "Finnegans Wake” برانو کی زندگی اور فلسفے پر لکھا ہے۔ اپنے ایک خط میں جوایس لکھتا ہے: ’’برانو کا یہ فلسفہ میرے نزدیک حیرت انگیز ہے کہ فطرت کی ہر قوت کو بقا کے لیے ایک مخالف قوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی تضاد میں ایک طرح کا اتحادِ باہمی بھی موجود ہے۔‘‘ جوایس اس کو جدید فکشن کا بانی بھی سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی برانو پر کئی کتب، نظمیں، سوانح نامے اور ناول لکھے جا چکے ہیں۔ کئی ایک ڈرامے اور فلمیں برانو کی زندگی اور فکر سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہیں۔ امریکی فینٹسی ناول نگار "John Crowley” نے برانو کو مرکزی تھیم بنا کر تین ناول لکھے ہیں:
1) Love and Peace
2) Daemonomania
3) Endless Things
چاند کی افقی سطح کے خد و خال کو برانو کی علمِ فلکیات میں خدمات کے اعتراف میں ’’دانو برانو‘‘ سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دو "Asteroids” کے نام بھی برانو کے نام اور اس کی کتاب کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ آسٹریلیا میں ایک ریڈیو اسٹیشن جیور دانو برانو سے منسوب ہے۔ اٹلی کے کئی سائنسی ادارے اور درس گاہیں برانو کے نام پر ہیں۔ کئی شہروں میں اس کے مجسمے اور یادگاریں آویزاں ہیں۔
بعض محققین کے نزدیک برانو وہ پہلا شخص تھا جس نے کاینات کے لامحدود ہونے کا نظریہ سائنسی بنیاد پر پیش کیا۔ اس کے حیرت انگیز نظریات میں نہ صرف یہ تھا کہ ایک دوسری کاینات (دنیا) موجود ہے بلکہ وہ سیاروں میں ہماری اس دنیا کی زندگی جیسی ایک اجنبی زندگی کے وجود کو بھی مانتا تھا۔ برانو کے بعض مداح اسے سائنس کا شہید کہتے ہیں جب کہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جن کمروں میں برانو کا مقدمہ پیش ہوا اور اس کی تفتیش کی گئی، انہیں کمروں میں برانو کی موت کے 16 سال بعد کے جب ارسطو کے فلکی نظریات دم توڑ چکے تھے اور خلائی طبعیات ایک نئی سمت میں گام زن تھی، برانو کے تفتیشی جج "Cardinal Bellarmino” نے سائنس دان گلیلیو کا بھی انہیں فلکیاتی نظریات پر محاسبہ کیا جن پر برانو کا مقدمہ پیش کیا گیا تھا لیکن گلیلیو کو محض تنبیہ کر کے بری کر دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے برانو ایک بہت ہونہار، بیدار مغز اور یگانہ روزگار شخصیت تھا جو کہ دور "Renaissance” میں ایک اہم مقام رکھتا ہے لیکن اس میں گونا گوں خوبیوں سمیت ایک خامی جو اس کی جان لے گئی وہ اس کا ضدی پن اور بے پروا رویہ تھا جس کے زیرِ اثر وہ مخالفت میں حد درجہ بڑھ جاتا تھا اور اس واسطے ہی ہر جگہ اس نے دوست کم اور دشمن زیادہ پیدا کیے۔ گرفتار ہونے کے بعد بھی وہ اپنے خیالات پر قایم رہا اور بھری عدالت میں ججوں کا مذاق اُڑا کر رحم کی ساری امیدیں بھی خاک میں ملاتا رہا۔ چرچ نے اسے صرف ’’زندیق‘‘ ہونے کی بنا پر تاریخی سزا دی جو کہ برانو سے پہلے بھی اس کے ہم جرم حاصل کرتے آئے ہیں۔
برانو، کوپر نیثس کے علاوہ مسلمان فلسفی اور سائنس دان ’’بو علی سینا‘‘ سے بھی متاثر تھا۔ ’’ابن سینا‘‘ نے برانو کے فلسفیانہ نظریات پر گہرا اثر ڈالا۔ یاد رہے کہ ’’بو علی سینا‘‘ اسلامی فلسفے میں اس نظریے کے ساتھ منفرد ہے کہ عالم ’’قدیم‘‘ ہے، بر خلاف عام مُسلّم اسلامی فلسفے کے کہ ’’عالم حادث‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ بو علی سینا کا ’’علم نفس‘‘ بھی برانو کے لیے متاثر کن تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ برانو جادوئی تخیلات کو راسخ علم کا ایک ماخذ مانتا تھا اور اپنی یادداشت کے لیے وہ انہیں استعمال کرتا تھا۔
جدید مغربی دنیا خاص کر اٹلی میں برانو آزادیِ فکر اور روشن خیالی کا استعارہ ہے۔وہی جگہ جہاں اسے زندہ جلایا گیا تھا، اس کا ایک عظیم الشان مجسمہ نصب ہے؛ جس میں وہ ایک عالمانہ لبادہ اوڑھے، ہاتھ میں کتاب تھامے کھڑا ہے۔ ہر سال برانو کی سالانہ برسی کے موقع پر پوری دنیا سے محقق، دہریے، علمائے فلکیات، فلسفی، شخصی آزادی کے علم بردار اور عقل پرست مجسمے کے رو برو اکٹھے ہو کر جیور دانو برانو کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔