تبصرہ نگار: آصف اقبال
کچھ وقت قبل جب مَیں نے ’’سسکتے لوگ‘‘ کی ورق گردانی مکمل کی، تو پہلا خیال جو میرے دل میں آیا…… وہ یہ تھا کہ اب میرا مقدر کیا ہے؟ ایک مستقل اور بے نام اُداسی جو سردیوں کی شاموں کا خاصا ہے…… یا پھر ایک طویل پُراَسرار خاموشی جو شدید گرم موسم میں تپتے سورج کے نیچے صحراؤں پر طاری ہوتی ہے۔
ارون دھتی رائے کا یہ پہلا ناول تھا۔ ’’دی گاڈ آف سمال تھنگز‘‘ جس کا ترجمہ محترمہ پروین ملک نے کیا اور اسے جہلم بک کارنر نے شایع کیا ہے۔اسی ناول پر ارون دھتی رائے کو ’’بکر فکشن ایوارڈ‘‘ بھی مل چکا ہے۔
ترجمہ بہت خوب ہے اور بہت محنت سے کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے جہلم بُک کارنر یقینا مبارک باد کا مستحق ہے کہ ایسی کتابیں ہمارے سامنے لا رہا ہے۔
ناول آغاز سے انجام تک ایک گہری اُداسی میں لپٹی ہوئی تحیر سے بھری ہوئی ایک داستان ہے…… جس میں ’’ارون دھتی‘‘ کی فن کارانہ چابُک دستی اوجِ کمال پر نظر آتی ہے۔ حالاں کہ ناول کا انجام بیچ بیچ میں کھلتا چلا جاتا ہے…… لیکن اِس کے باوجود ناول کا تجسس آخری صفحے تک برقرار رہتا ہے۔
ناول کے مرکزی کردار دو جڑواں بچے ہیں…… جن کی عمر 6 سال ہے۔ ایستھا، بھائی اور راہل، بہن۔ ناول میں 1960ء کے زمانے کا ہندوستان ہے…… اور اُس ہندوستان میں موجود صنفی امتیاز، غربت کی پیدا کردہ تقسیم،سماجی مسایل اور ناہم وار رشتوں کی عدم برداشت کی کہانی ہے۔
ناول کی ’’اپروچ‘‘ ایک نسل سے دوسری نسل تک کہانی منتقل کرکے چلانے کی ہے…… جو کہ شروع میں قاری کو اور بالخصوص نئے قاری کو کسی قدر الجھا دیتی ہے…… لیکن جیسے ہی قاری کو اِس اپروچ کی سمجھ آتی ہے…… وہ ناول نگار کی فن کارانہ چابُک دستی کا قایل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی فن کارانہ چابُک دستی سے وہ قاری کو ایک نسل کے حالات سے دوسری تک لے کر جاتی ہیں…… اور اصل کہانی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سماجیات کا تانا بانا بننا شروع کر دیتی ہیں۔
ناول کی بہت اہم بات بچوں کی آنکھ سے دیکھی گئی دنیا ہے…… جن کی عمر لگ بھگ 6 سال ہے۔ ایک پیرا گراف ملاحظہ ہو: ’’راہل نے ایک دم آواز دی۔ ویلتھا، ویلتھا……! اُس کے قدم لحظہ بھر کو رکے اور اُس نے اپنے جھنڈے کو یوں ذرا سا پیچھے جھکایا…… جیسے جھنڈے کے کانوں سے سن رہا ہو۔ راہل مارے جوش کے کھڑکی سے آدھا دھڑ باہر نکالے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ بالوں میں ’’لو اِن ٹوکیو‘‘ ہیئر بینڈ سجائے ۔ آنکھوں پر سُرخ شیشوں اور زرد فریم والی عینک چڑھائے اس نے زور سے آواز دی۔ ’’ویلتھا……اُو ویلتھا……!‘‘ گاڑی میں امو پیچ و تاب کھا رہی تھیں۔ انہوں نے راہل کے کولہوں پر دھپ جمایا۔ کیوں کہ اُس وقت اُس کے جسم کا یہی حصہ اندر تھا جس پر مارا جا سکے۔‘‘
قارئین، اب آپ دیکھیے گاڑی سے آدھا دھڑ باہر نکالے 6 سال کی کولہوں پر دھپ کھانے کے باوجود ایک پسندیدہ مزدور کو آوازیں دینے والی بچی کی آنکھ سے دنیا کیسی ہو گی؟
بچوں کی دنیا بڑوں کی دنیا سے الگ ہے…… لیکن ان کے کردار بڑوں سے جڑے ہوئے ہیں…… اور جو نفسیات اُن کی مستقبل میں بننی ہیں اور ابھی ہونے والے واقعات سے جڑے ہوئے بھی ہیں۔ وہ واقعات جو الگ سطح پر کہانی سے جڑا ہوا ایک اور ناول مستقل تخلیق کرتے رہتے ہیں…… اور ناول نگار جست لگا کر یہاں سے وہاں جاتی رہتی ہیں ۔
ریاست کیرالہ کا ’’آئیا‘‘ نامی گاؤں اُسی الگ تخلیق سے وابستہ ہوجاتا ہے…… اور قاری کے لیے صوفیہ کی آمد سے لے کر اُس کے دریا میں بہہ جانے تک ایک مستقل علامتی انداز میں چیزیں رونما ہوتی چلی جاتی ہیں۔ انسپکٹر کا امو کی چھاتیوں کو چھڑی سے چھونے سے لکیر ایک بوتل کے سٹرا تک جو ایستھا کے حلق میں اُس وقت تک موجود اُس کی نفسیات کو متاثر کرتا رہا…… جب اگلی صبح تک قے کی صورت باہر نہیں نکل گیا…… کہانی میں کچھ بھی اکہرا تو نہیں۔ اور وہ پلے ماؤتھ جس کی مدد سے ارون دھتی رائے اُس سماجی تفریق کا اظہار کرتی ہیں…… جو ناول کے تانے بانے بنتا ہے۔
کردار اتنے جان دار ہیں کہ آپ کو پتا ہی نہیں چلتا کہ کب آپ اُن کی محبت میں مبتلا ہوگئے۔ اور کیا یہ محبت 6 سالہ ایستھا سے ہے…… جو بے بس اپنی ماں کو ایک عجیب الزام میں مطعون قرار پاتا دیکھتا ہے…… یا 11 سالہ ایستھا سے جو اپنی ماں کے مرنے کے غم کو بھی نہیں جانتا…… یا 31 سالہ ایستھا سے…… جو مستقل خاموش ہے…… اور اُس کی خاموشی میں 6 سالہ ایستھا کا کیا کردار ہے…… جس کو "Molest” کیا گیا۔ اُس خاموشی میں اُس قصباتی دُکان دار کی بہیمیت کا کیا حصہ ہے…… جس کی دکان پر وہ ذرا کے ذرا رُک گیا تھا!
کہانی کا سب سے جان دار کردار ویلتھا ہے (شاید کچھ ناقدین کی نظر میں نہ بھی ہو) ویلتھا کا مکمل تعارف کہانی کے وسط میں ہوتا ہے۔ اور ویلتھا سے اُنسیت تب ہوتی ہے…… جب ایستھا سوچتا ہے کہ شاید ہم تینوں ویلتھا سے ایک جتنا پیار کرتے ہیں۔ وہ تینوں یعنی ’’امو، ایستھا اور راحل‘‘ اور پھر ویلتھا کا کردار آنسو بن کر قاری کی آنکھوں میں اُتر آتا ہے…… جب ویلتھا کے غیر انسانی قتل کے بعد راہل، ایستھا سے کہتی ہے: ’’یہ وہ نہیں ہے، مَیں یقین سے کہہ سکتی ہوں، یہ اُس کا جڑواں بھائی ارومبن ہے، جو کوچین میں رہتا ہے۔‘‘
اور پھر وہی کردار قاری پر کپکی طاری کر دیتا ہے…… جب بچے اس کے کٹے پھٹے جسم کو دیکھ کر دو سبق سیکھتے ہیں۔
٭ پہلا…… کالی جلد پر خون کا رنگ زیادہ نمایاں نہیں ہوتا۔
٭ دوسرا…… اُس کی بو متلی آور مگر میٹھی میٹھی سی ہوتی ہے (جیسے مرجھائے ہوئے پُرانے گلابوں کی باس)
اور ’’امو‘‘ جو مر جاتی ہے…… لیکن کہانی کے آخری پیراگراف تک موجود رہتی ہے۔ اس کا حسن، اُس کی تہذیب، اُس کی محبت اور اُس کا مکمل وجود جو اسے زندہ رکھتے ہیں۔
مَیں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ وہ کہانیاں جن کو پڑھتے ہوئے ہم مستقل اداسی کی لپیٹ میں رہتے ہیں اور وہ جو پڑھے جانے کے بعد بھی مدتوں ہمارے وجود پر طاری رہتی ہیں…… وہ لکھنے والوں کی زندگیوں میں کیسے رہتی ہوں گی؟
میری اگر کبھی ارون دھتی رائے سے ملاقات ہوئی، تو میں اُن سے یہ سوال ضرور پوچھوں گا!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔