سانحۂ مری…… ذمے دار کون؟

ملکۂ کوہسار مری جسے کوہِ مری بھی کہا جاتا ہے…… صوبۂ پنجاب کا بلند ترین مشہور اور خوب صورت سیاحتی تفریحی مقام ہے۔ مری شہر دارالحکومت اسلام آباد سے تقریباً 54 کلو میٹر دور صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ مری کے لیے بل کھاتی سڑک پر سفر سر سبز پہاڑوں، گھنے جنگلات اور دوڑتے رقص کرتے بادلوں کے حسین نظاروں سے بھرپور ہے۔ گرمیوں میں سر سبز اور سردیوں میں برف کی سفید چادر اُوڑھنے والے مری کے پہاڑ سیاحوں کے لیے ہمیشہ سے انتہائی کشش کاباعث رہے ہیں۔ سطحِ سمندر سے تقریباً 23 سو میٹر یعنی 8 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع مری کی بنیاد برطانوی دور میں 1851ء میں رکھی گئی تھی۔ یہ برطانوی حکومت کا گرمائی صدر مقام بھی رہا ہے۔
شہر کی مرکزی سڑک جسے ’’مال روڈ‘‘ کہا جاتا ہے، اس کا ایک سرا راولپنڈی کی طرف اور دوسرا کشمیر کی طرف ہونے کی وجہ سے اسے پنڈی و کشمیر پوائنٹ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس سڑک پر شہر کے مشہور تجارتی مراکز اور سیاحوں کی رہائش کے لیے کثیر تعداد میں ہوٹل قائم ہیں۔ مال روڈ سے نیچے مری کے رہائشی علاقے اور بازار قائم ہیں۔ خشک میوہ جات اور سامانِ آرائش (ڈیکوریشن پیس) کی دکانیں پائی جاتی ہیں۔ یہاں چیئر لفٹ بھی موجود ہے۔ 1947ء تک غیر یورپی افراد کا مال روڈ پر آنا ممنوع تھا، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد پنجاب کے لوگوں کے لیے سب سے زیادہ قابلِ رسائی پہاڑی سیاحتی مقام مری ہے۔ یہاں سے آپ موسمِ گرما میں کشمیر کی برف پوش پہاڑوں کا نظارہ کر سکتے ہیں جب کہ بارشوں کے دنوں (جولائی تا اگست) بادلوں کی گرج چمک بارش برسانے کے مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
اس پہاڑی تفریح گاہ کے کچھ حصے خصوصاً کشمیر پوائنٹ جنگلات سے بھرپور اور انتہائی خوب صورت ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ سے لوگ خصوصاً فیملیاں، طالب علم اور سیاح سیکڑوں میل دور جنوب میں لاہور، فیصل آباد اور کراچی سمیت سندھ سے یہاں گرمیاں اور سردیاں گزارنے آتے ہیں…… لیکن موسمِ سرما میں مری اور گرد و نواح کے پہاڑوں پر جیسے ہی برف باری شروع ہوتی ہے، ملک کے میدانی علاقوں سے ہزاروں سیاح اپنی گاڑیوں کا رُخ مری اور گلیات کی طرف موڑ لیتے ہیں۔ اکثر سردیوں میں اسکولوں کی تعطیلات یا ہفتہ وار چھٹی کے دن شام گئے ان پہاڑی علاقوں کو جانے والی سڑکیں رش اور پھسلن کی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں اور ہزاروں سیاح ان علاقوں اور گاڑیوں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہوٹل انڈسٹری کے ذرایع کے مطابق اس سیزن میں مری اور گلیات کے ہوٹل مکمل طور پر سیاحوں سے بھرجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے ہزاروں افراد بھی ہیں جو برف باری کی خبر سامنے آنے کے بعد اپنا تفریحی پروگرام تشکیل دیتے ہیں اور نتیجتاً راستے میں ہی پھنس جاتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ گذشتہ روز ہوا جب تقریباً 25 ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجایش رکھنے والے مری کی جانب ایک لاکھ سے زاید گاڑیوں میں ہزاروں سیاح جن میں فیملیوں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی، تفریح کی غرض سے گام زن ہوئے اور 24 گھنٹے سے زاید جاری رہنے والی ریکارڈ برف باری کے باعث ہونے والے ٹریفک جام میں پھنس گئے۔ 22 سے زاید افراد جن میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد بھی شامل ہیں، گاڑیوں ہی میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہوگئے۔
ابتدائی رپورٹس کے مطابق ہلاکتوں کی بڑی وجہ ٹریفک پولیس اور انتظامیہ کا بروقت امدادی و حفاظتی کارروائیاں شروع کرنے کے لیے مشینری کو مربوط طریقے سے حرکت میں نہ لانا ہے۔ حالاں کہ محکمۂ موسمیات کی جانب سے شدید برف باری کی پیش گوئی سے متعلق 5 جنوری کو ہی الرٹ جاری کردیا گیا تھا کہ 6 اور 7 جنوری کو مری، گلیات، کاغان، سوات اور دیگر پہاڑی علاقوں میں شدید برف باری کی پیش گوئی کی تھی، لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ اس انتظامی غفلت و ناقص کارکردگی کے باعث 7 جنوری کی رات کو آنے والے برفانی طوفان نے 22 قیمتی انسانی جانیں لے لیں۔ انتظامیہ نے مری کو آفت زدہ قرار دے کر ایمرجنسی نافذ کردی جب کہ اب پاک فوج سمیت ریسکیو اہلکاروں کی جانب سے امدادی کاموں کا سلسلہ جاری ہے۔
وزیراعظم عمران خان سیاحت کو فروغ دے کر ملک کے لیے کثیر زرِمبادلہ کمانے کے دعوے دار رہے ہیں۔ کئی نئے تفریحی مقامات بھی دریافت کرکے ان پر سہولیات کی فراہمی کے لیے فنڈز بھی مختص کیے گئے ہیں، لیکن پہلے سے موجود بڑے تفریحی مقامات جن میں پنجاب میں واقع مری میں ان کی بزدار سرکار کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے، انتظامی نہ اہلی کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ وزیراعظم خود یہ بیان دے رہے ہیں کہ انتظامیہ کو ایسی صورتِ حال کی توقع نہیں تھی۔ اگر ماضی کی صوبائی حکومتوں کے وزرائے اعلا حتی کہ چوہدری پرویز الٰہی کے دور کو دیکھیں، تو انہوں نے مری سمیت پنجاب بھر میں 1122 ریسکیو نظام متعارف کروایا اور ایمرجنسی کی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے نیا ٹریفک وارڈن نظام متعارف کروایا اور ایسے حالات میں وہ خود انتظامی نگرانی کرتے تھے۔ وزیرِ اعلا شہباز شریف نیو ایئریومِ آزادی اور برف باری کے موسم میں ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے انتظامیہ کے ساتھ اجلاسوں میں انتظامات کا جایزہ لیتے تھے۔ روالپنڈی کے سی ٹی اُو، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، سی پی او، آر پی اُو ہر وقت حالات کو مانیٹر کرتے تھے لیکن پنجاب کی بزدار سرکار کی ترجیحات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اتنا بڑا سانحہ ہونے کے باوجود عثمان بزدار لاہور میں تنظیمی اجلاس میں مصروف تھے۔
مری سانحے کی تحقیقات کا وزیراعظم نے حکم دے دیا ہے لیکن اس کا نتیجہ ماضی کی طرح کچھ بھی نہیں نکلے گا۔ حکومت اور انتظامیہ کے ساتھ عوام کی بھی بڑی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے موسم میں تفریح کے لیے جانے سے پہلے سوچیں کہ اگر جانا ضروری ہے، تو مقامی انتظامیہ سے معلومات حاصل کرکے جائیں۔ گلیات اور مری کے روٹ پر 20 برس سے ڈرائیونگ کرنے والے سردار افضل میر کا برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہنا ہے کہ برف باری کے بعد سڑک پر سے برف ہٹا بھی دی گئی ہو، تو بھی پھسلن ختم نہیں ہوتی۔ سب سے اہم یہ ہے کہ سیاح اپنی گاڑی کے پہیوں پر لوہے کی چین باندھ کر سفر کریں، تاکہ گاڑی برف پر نہ پھسلے۔ اگر آپ کی گاڑی فرنٹ وہیل ڈرائیو ہے، تو یہ زنجیر سامنے والی پہیوں پر اور اگر بیک وہیل ڈرائیو ہے، تو پچھلی پہیوں پر لگانی چاہیے۔ کوئی بھی سیاح اپنی گاڑی پر ایسے علاقوں کا رُخ کرے، تو اپنی گاڑی کو پہلے گیئر میں رکھے۔ اس کے علاوہ بار بار بریک استعمال کرنے سے گریز کریں۔ ڈھلوان پر انجن اور گیئر کی طاقت استعمال کریں اور ایکسیلریٹر سے گاڑی کی رفتار کو معتدل رکھیں۔کم زور ٹایر اور گاڑی استعمال نہ کی جائے جب کہ گاڑی میں ایندھن پورا ہونا چاہیے۔ راستے میں کسی بھی مقام پر برف باری سے لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ اس لیے گرم کپڑے، خشک خوراک وغیرہ ساتھ رکھیں۔ اگر بچوں اور خاندان کے ہمراہ سفر کر رہے ہوں، تو ان کی ضرورت کی تمام اشیا گاڑی میں ہر وقت موجود ہونی چاہئیں۔ ان اقدامات سے ہنگامی حالات سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔