آج سے 50 سال پہلے ہمارے سوات میں سردی کی شروعات اکتوبر سے ہوتی تھی، لیکن آج ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے لوگ ماہِ نومبر میں بھی گرمی محسوس کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ، جنگلات اور زرعی زمینوں کا خاتمہ اور صنعتوں کا پھیلاؤ ہے…… جس سے موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں اور نتیجے میں بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ خصوصاً غریب ممالک کے کروڑوں بچوں کو کھانسی، آنکھوں کی سوزش، گلے کی خراش اور بے موسم کی دوسری بیماریاں لاحق ہورہی ہیں۔
ہمارے ہاں تمام بڑے شہروں میں ماحولیاتی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس آلودگی نے موسموں کو بھی اُلٹ پھیر سے دوچار کردیا ہے۔ گرمی میں سردی کی لہر اور سردی کے موسم میں گرمی کے لہریں محسوس ہو رہی ہیں۔ کہیں بے موسم کی بارشیں ہیں، تو کہیں طویل خشک سالی ہے…… جب کہ زمین کا درجۂ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ کرۂ ارض پر گیسوں کے بے تحاشا اخراج سے حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نومبر میں بھی پنکھے چل رہے ہیں۔
بین الاقوامی طور پر اس مصیبت کے ذمہ دار دنیا کے امیر صنعتی ممالک ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سرمایہ دار ممالک حصولِ دولت کی خاطر اس مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ اگر یہ امیر صنعتی ممالک تین کام کردیں، تو روئے زمین پر آباد اربوں انسانوں کو ماحولیاتی آلودگی کی تباہی سے بچا سکتے ہیں۔ یہ تین کام ہیں: کوئلے، تیل اور گیس کی کھپت میں کمی…… تاکہ فضا مزید زہریلی نہ ہو، لیکن بدقسمتی سے یہ ممالک اس کمی کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین موسمیاتی تبدیلی کی زد میں ہے اور اس پر بسنے والے سنجیدہ مسائل سے دوچار ہیں۔
حال ہی میں غریب ممالک سمیت دنیا کے امیر صنعتی ممالک کے سربراہ اور نمائندے سکاٹ لینڈ کے شہر شکاگو میں 1 نومبر سے 15 نومبر تک بیٹھے۔ اس عالمی مسئلے پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ خدا کرے کہ یہ لوگ اس اہم انسانی مسئلے پر متفق ہوجائیں، تاکہ انسانوں کا مستقبل تباہی اور بربادی سے محفوظ ہو، آمین!
…………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔