ملک دہائیوں سے مسلسل بحرانوں کے گرداب میں ہے۔ الیکشن ہوتا ہے، تو حزبِ اختلاف حکومت کو نہ چلنے دینے کا عہد کرتی ہے۔ الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کیے جاتے۔ الیکشن کے نظام کو شفاف اور قابلِ قبول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو گروہی مفاد کی خاطر اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ مارشل لا کے دور میں سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بحالی کے لیے چوکوں، چوراہوں پر دھرنے دیتی ہیں۔ میڈیا، وکلا اور سول سوسائٹی ان کی پشت پر کھڑی ہوجاتی ہے۔ اس طرح مارشل لا کو چلتا کیا جاتا ہے۔ حکومت اور قومی ادارے ایک صفحے پر ہوتے ہیں، تو طوفان اٹھایا جاتا ہے۔ ان کے سربراہوں پر جلسوں میں طعن و تشنیع کی یلغار کی جاتی ہے۔ حکومت اور اداروں کے تعلقات سازگار ہوں، تو حکومت کو کٹھ پتلی قراردے کر طیش دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنی رٹ منوانے کے لیے اداروں سے ٹکرائے۔
افسوس! یہ رسم کوئی کل کی نہیں۔ وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلسل یہ ڈراما دہرایا جا رہا ہے۔ کھیل کا پلاٹ ایک ہی ہے، صرف کردار اور چہرے بدل جاتے ہیں۔ کہانی کبھی آپ الجھتی ہے اور کبھی دانستہ الجھائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ حکومت سے ناخوش ہے۔ لہٰذا جی کا جانا ٹھہر گیا۔ عرب ممالک کو بھی ایک اسٹیک ہولڈر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ہم آہنگ حکومت چاہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا سیاسی استحکام اس خطے ہی نہیں…… بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی برداشت نہیں ہوتا۔ سیاسی استحکام کی کوکھ سے معاشی ترقی اور قومی خوشحالی جنم لیتی ہے،جو پاکستان کو مضبوط اور مطمئن ملک اور قوم کے قالب میں ڈھال سکتی ہے۔ مستحکم اور معاشی طور پر خوشحال پاکستان کسی بھی علاقائی یا عالمی طاقت کو قبول نہیں۔ 1965ء تک پاکستان کا شمار تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں ہوتا تھا۔ پے درپے داخلی سیاسی بحرانوں میں اسے ایسا الجھایا گیا کہ ترقی کی پٹڑی سے نہ صرف اُتر گیا بلکہ نااہلی کا دیمک اسے مسلسل چاٹنے لگا۔ حتیٰ کہ سارا نظام کھوکھلا کر دیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک مقبول عوامی لیڈر تھے۔ انہیں قومی اسمبلی میں اکثریت بھی حاصل تھی…… لیکن چوں کہ عالمی طاقتوں کو ان کی پالیسیاں پسند نہ تھیں، لہٰذا انہیں نشانِ عبرت بنایا گیا۔ بعد ازاں جمہوریت جڑ ہی نہیں پکڑ سکی۔ منتخب حکومتیں بھی اپنی مدت پوری کیے بغیر رخصت ہوتی رہی ہیں۔
اب یہ ہنگامہ ایک بار پھر برپا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کو رخصت کیا جائے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں جو کل تلک ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کی روادار نہ تھیں، آج عمران خان کی دشمنی میں یک جان و دو قالب ہیں۔ مولانافصل الرحمان کی لیڈر شپ میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی ایک پلیٹ فارم پر باہم شیر و شکر ہیں۔ اتحاد و اتفاق کا محور محض تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ فرض کریں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے، یا وہ خود نئے الیکشن کرانے کا اعلان کرتی ہے، تو کیا ملک کو درپیش مسائل سے نجات مل جائے گی؟ آسمان کو چھوتی مہنگائی پرہرگز کوئی قابو نہیں پاسکتا۔ بیرونی امداد یا قرض کے بغیر ملکی معیشت کا پہیہ کوئی بھی رواں دواں نہیں رکھ سکتا۔ افغانستان اور بھارت کی وجہ سے قومی سلامتی کو لاحق خطرات میں کوئی کمی نہیں آنی۔ امریکہ سے تعلقات اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتے، جب تک آپ اسے ہوائی مستقر حوالے نہیں کرتے۔ پاک چین اقتصادی راہ داری اور چین کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات پر نظرِ ثانی نہیں کرتے۔ بھارت کی خطے میں بالادستی کو دل سے قبول نہیں کرتے۔ ایٹمی پروگرام پر مفاہمت نہیں کرتے۔ آنے والی کوئی بھی حکومت ان امور پر سودے بازی کرنے کی پوزیشن میں ہے، نہ اتنا بڑا سیاسی خطرہ مول لے سکے گی۔
اگلا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اور ان کے حامی نچلے بیٹھنے والے ہیں؟ پی ٹی آئی کے خمیر میں مزاحمتی پارٹی کے سارے رنگ جھلکتے ہیں۔ اس کا مزاج اور اُٹھان مسلسل بحرانوں کا مقابلہ کرنے کی ہے۔ جن مسائل کی اوپر والی سطروں میں نشان دہی کی گئی ہے، وہ اگلی حکومتوں کے خلاف بھی اپوزیشن کو باردو فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت یا لیڈر کے پاس آلہ دین کا چراغ نہیں کہ وہ راتوں رات ملک کی کایا پلٹ سکے۔ تبدیلی ایک لمبے پراسیس کا نام ہے جو وقت اور تسلسل کا تقاضہ کرتی ہے۔
ایک اور سوال اگر پی ٹی آئی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتی ہے، تو کیا وہ عوامی جذبات اور احساسات کو زبان نہیں دے گی؟ اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تحریکِ انصاف کے ساتھ وابستہ طبقہ پوری طرح وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے۔ پی ٹی آئی کو اب سیاسی عصبیت حاصل ہوچکی ہے۔ اس کے حامیوں کے خیالات میں آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی نون لیگ کے تئیں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نہ پی پی پی اور ن لیگ کے طرزِ سیاست میں فرق آیا اور نہ آئے گا۔
آپشن کیا ہیں؟ اپوزیشن کو الیکشن کے نظام کو شفاف بنانے کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ اگراسے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراض ہے، تو بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے فلور پر آکر اس مسئلہ کے حل کے لیے متبادل تجاویز دے۔ پی ٹی آئی حکومت کوپانچ سال کی مدت پوری کرنے دیں، تاکہ جمہوری نظام کا تسلسل برقرار رکھا جاسکے۔
پیشِ نظر رہے کہ پاکستان کسی بھی قسم کی داخلی محاذ آرائی یا سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسے سلامتی کے سنگین خطرات درپیش ہیں۔ داعش نامی انتہاپسند تنظیم افغانستان میں جڑیں مضبوط کرچکی ہے۔ مساجد اور ہسپتالوں تک بھی دھماکوں سے وہ باز نہیں آتی۔ اطلاعات ہیں کہ اس تنظیم کی طاقت میں نہ صرف اضافہ ہواہے بلکہ وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پنجے گاڑھ رہی ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے ایک بیان میں انکشاف کیا ہے کہ راجستھان، اتر کھنڈ اور مقبوضہ کشمیر کے علاقے گلمرگ میں بھارتی خفیہ ایجنسی داعش کے جنگجوؤں کو تربیت دیتی ہے۔ اگلے چند برسوں میں یہ تنظیم پاکستان کے اندر پاؤں پھیلانے کی سرتوڑ کوششیں کرے گی، جس سے نبردآزما ہونے کے لیے وسائل ہی کی ضرورت نہیں بلکہ مؤثر اور متبادل بیانیہ بھی درکارہے، تاکہ ہمارے لاکھوں بے روزگار اور نظام سے بے زار نوجوان داعش کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔
اس پس منظر میں حکومت اور اداروں کا ایک صفحے پر ہونا اور سیاسی استحکام کا برقرار رہنا ناگزیر ہے۔
………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔