آپ اپنے گاؤں کی گلیوں میں گھوم لیں، کسی فٹ پاتھ پر چہل قدمی کریں، سرکاری و غیر سرکاری سکول میں جائیں۔ یا ہسپتال میں، پارک میں قدم رکھیں۔ یا بازار میں، یا کسی بس سٹینڈ میں وارد ہوجائیں۔ یا دریا کنارے چلے جائیں، ندی کا نظارہ کرلیں۔ یا پہاڑ پہ چڑھ جائیں یا میدان میں نکلیں، ہر جگہ لاکھوں پلاسٹک کے تھیلے بد مست سپاہیوں کی طرح سر اٹھائے یا کسی شکست خوردہ عسکری جوانوں کی طرح سر جھکائے آپ کے استقبال کے لئے موجود رہتے ہیں۔ یہ پاکستانی سیاست دانوں کی طرح رُخ بدلتی ہوا کے ساتھ ہو لیتے ہیں اور شہریوں کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں۔ میری طرح بہت سارے لوگ یہ سوچتے ہوں گے کہ لاکھوں کی تعداد میں یہ تھیلے کہاں سے آتے ہیں اور کون اسے لے کر آتا ہے؟ اگرچہ پلاسٹک بیگز پر صوبائی حکومت نے پابندی بھی عائد کی ہے۔
قارئین کو معلوم ہوگا کہ اس گندگی میں سب سے بڑا کردار چپس، پاپڑ اور دیگر ایسی خوراکی اشیا کا ہے جنہیں پلاسٹک کے تھیلوں میں بند کرکے بازاروں میں مختلف ناموں سے بیچا جا رہا ہے۔ اگر ایک طرف یہ تھیلے ہمارے ارد گرد کے ماحول کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں، تو دوسری طرف غیر معیاری چپس، پاپڑ، چورن، املی اور ناقص خام مال سے تیار شدہ کھانے کی دیگر اشیا عوام اور خصوصاً ہمارے بچوں کی صحت کو تباہ کر رہی ہیں۔ غیر معیاری چپس، پاپڑ، چورن، املی، لولی پاپ، جیلی اور ملائی وغیرہ کو سرکاری یا حکومتی اجازت اور طبی تجزیئے کے بغیر فروخت کیا جا رہا ہے۔ بچے یہ اشیا زیادہ استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے یہی بچے پیٹ، چمڑے، سینے، دانتوں، گلے، گردوں ، معدہ اور اس قبیل کے دیگر امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
یہ غیر معیاری اشیا کھانے سے بچوں کو بھوک نہیں لگتی جس کے نتیجے میں زیادہ تر بچے جسمانی اور ذہنی طور پر کمزوری کا شکار ہیں اور ان کی ذہنی صلاحیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کسی نجی یا سرکاری ہسپتال میں جانے کا موقع ملے، تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ مریضوں میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے اور ہر معالج دوا کے ساتھ ساتھ بچوں کو چپس، پاپڑ، چورن، املی، لولی پاپ ، جیلی اور ملائی سے دور رکھنے کی تلقین کرتا دکھائی دے گا، مگر بچے تو بچے ہوتے ہیں،وہ کب باز آتے ہیں؟
مزید یہ کہ چپس، پاپڑ، چورن، املی، لولی پاپ، جیلی اور ملائی کے تھیلوں (ریپرز) سے ہمارے گلی کوچے، ندیاں، نکاسئی آب کی نالیاں اور کھیت بھرے پڑے ہیں جبکہ روزانہ پلاسٹک کے مختلف تھیلے استعمال کر کے لاکھوں کی تعداد میں زمین پر پھینکے جا رہے ہیں۔ تاہم ماسوائے چند ایک محدود شہری علاقوں کے کہیں بھی پلاسٹک اور گندگی کو ٹھکانے لگانے کے لئے ایک بھی فرد موجود نہیں۔اس لئے اس گندگی میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اب تو یہ عمل ایک وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے جس سے ہم سب اجتماعی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں تو اس معاملے میں جیسے اندھی اور بہری ہیں۔ چپس، پاپڑ، چورن،املی، لولی پاپ، جیلی اور ملائی کے کارخانوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں ولیج کونسل کوکڑئی/ چتوڑکے ناظم اورجملہ اراکین نے اپنے حلقۂ عملداری میں ان غیر معیاری اشیا کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی ہے۔ یہ پابندی خیبر پختون خوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء (خیبر پختونخوا ایکٹ نمبر 201 3XXVIII ) کے باب نمبر 7 شق نمبر 28 کے ذیلی شق نمبر (1) کے جز نمبر (د) کے ذیلی جز نمبر (iii) اور (iv)، شق نمبر (29) کے جز نمبر(1) کے ذیلی جز نمبر (ہ)اور (ط) کے رو سے ولیج کونسل کو تفویض شدہ ذمہ داریوں اور فرائض کے انجام دہی اور باب نمبر 16 کے شق نمبر 113 کے جز نمبر(1) اور (2)کے تحت حاصل اختیارات کو مفادِ عامہ کی خاطر استعمال کرتے ہوئے لگائی گئی ہے۔
سننے میں آیا ہے کہ میاندم کی ایک مقامی تنظیم اورضلع دیر کی مقامی حکومت نے بھی ذکر شدہ غیر معیاری اشیا پر پابندی عائد کی ہے۔ ولیج کونسل کوکڑئی/ چتوڑ کے منتخب ناظم اور ان کے ساتھیوں نے اس پابندی کو ایک مہم کے طور پر اپنا یا ہے، جو لائقِ تحسین ہے۔ ان اشیا پر پابندی کی وجہ سے ماحول میں بہتری آئے گی۔ گندگی کم ہوگی اور بچوں کی صحت محفوظ ہوگی۔
میں اس تحریر کے توسط سے ولیج کونسل کوکڑئی/ چتوڑ کے ناظم امجد علی اور دیگر اراکین، میاندم کی غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ ساتھ ضلع دیر کی انتظامیہ اور مقامی حکومت کو ان کے اس جرأت مندانہ اقدام پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور سماجی کارکنوں، تنظیموں، وکلا، اساتذہ، ڈاکٹرز، دکانداروں، ذرائع ابلاغ کے نمائندوں، مذہبی راہنماؤں اور پیش اماموں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس مہم میں محرکین کا ساتھ دے کر ماحولیاتی آلودگی کم کرنے اور بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
میں ضلعی حکومت سوات اور انتظامیہ سے پُرزور اپیل کرتا ہوں کہ ہر قسم کے غیر معیاری چپس، پاپڑ، چورن، املی اور دیگر اشیا بنانے والے افراد کے خلاف مؤثر کارروائی کریں۔