سب ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں

کنونشن سنٹر اسلام آباد میں اپنے تین سالہ دورِ اقتدار کی کارکردگی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ’’جب ہم نے اقتدار سنبھالا، تو ملکی معیشت دِوالیہ ہونے والی تھی۔ ہمیں دوست ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر مجبوراً قرضہ لینا پڑا۔ تین سال پہلے زرِمبادلہ کے ذخائر 16.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 27 ارب ڈالر ہوگئے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر سے کم ہو کر 1.8 ارب ڈالر پر آگیا۔ پہلے 3 ہزار 8 سو ارب روپے ٹیکس اکھٹا کیا جاتا تھا اور آج چار ہزار سات سو ارب روپے ٹیکس جمع ہو رہا ہے۔ ترسیلاتِ زر 19.9 ارب ڈالر سے بڑھ کر 24.29 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ صنعتی پیداوار میں 18 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ نیب نے گذشتہ اٹھارہ سالوں میں 90 ارب روپے ریکور کیے جب کہ ہمارے تین سالوں میں 519 ارب روپے ریکوری ہوئی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم، عالمی ادارۂ صحت اور دی اکانومسٹ نے کورونا وبا سے نمٹنے اور معیشت کو بحال رکھنے کے لیے حکومت کے اقدامات کو سراہا ہے۔ حکومت نے پہلی بار فیصلہ کیا کہ کمزور طبقہ کو ان کے حقوق دلائیں گے۔ ہم سے پہلے غریبوں پر دس ارب روپے خرچ ہو رہے تھے اور اب 260 ارب خرچ ہو رہے ہیں۔ ورلڈ بینک نے دنیا کے تمام رفاہی پروگراموں میں احساس پروگرام کو تیسرے نمبر پر رکھا ہے۔ ماضی میں حکمرانوں نے امریکہ کا ساتھ دیا اور مطلب پورا ہونے پر پاکستان پر پابندیاں عائد کیں۔ ماضی میں حکمرانوں نے امریکہ کی مدد کی لیکن امریکہ نے پاکستان پر 480 ڈرون حملے بھی کیے۔ امریکی جنگ میں پاکستان کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا لیکن الٹا امریکہ، پاکستان ہی کو مسائل کی جڑ قرار دیتا رہا۔‘‘
دوسری طرف اپوزیشن کے سیاسی رہنماؤں پی پی پی کے بلاؤل زرداری، پرویز اشرف، مسلم لیگ نون کے حمزہ شہباز، مریم اورنگ زیب اور اے این پی کے افتخار حسین نے تحریکِ انصاف کی حکومت کو جعل سازی کے تین سال قرار دیے ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان تنہائی کا شکار ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ہزاروں پاکستانیوں سے روزگار چھین لیا گیا ہے۔ عمران خان امریکی صدر کی ایک کال کے لیے ترس رہے ہیں۔ باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں لیکن کارکردگی صفر ہے۔ تحریکِ انصاف کے تین سالہ دور حکومت میں چینی، آٹا، ادویہ اور پیٹرول مافیا کو فائدہ ہوا۔ معاشی بدحالی بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت کو اعداد و شمار کا کھیل کھیلنے کی بجائے سوگ منانا چاہیے۔ پاکستان ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن انڈیکس میں پاکستان 124 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ اڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں 400 ارب روپے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ چینی 50 کی بجائے 110 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔ آٹے کا بیس کلو تھیلا 360 روپے مہنگا ہوگیا ہے۔ گھی، کوکنگ آئل اور خوردنی تیل کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں۔ سی پیک کے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں۔ موجودہ حکومت خانہ بدوشوں اور سیاسی لوٹوں کا ٹولا ہے۔ پارلیمان کی تالابندی، اپوزیشن کی گرفتاریاں جاری ہیں۔ اظہارِ رائے پر قدغن لگایا گیا ہے اور تین سالہ اقتدار میں کارکردگی کا معیار ’’یوٹرن‘‘ ہی رہا ہے۔
قارئین، جمہوریت میں حکمرانوں کو اپنی کارکردگی پیش کرنے اور اپوزیشن کو تنقید کرنے کا حق ضرور حاصل ہے، لیکن ہمارے ہاں حکومت اور اپوزیشن صرف مفادات کے لیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں جت جاتے ہیں۔ عوام کے ساتھ دونوں کے طریقۂ واردات میں کوئی فرق نہیں، جو بھی سیاسی پارٹی برسرِ اقتدار آتی ہے، ہر کوئی عوام کے ساتھ ہاتھ کرنے کا ماہر ہوتا ہے۔ برسرِ اقتدار ٹولا اس وکیل کی طرح عوام سے ہاتھ کر جاتا ہے جس طرح ایک مہمان وکیل نے اپنے میزبان سے کیا تھا۔
کہتے ہیں کہ ایک وکیل کسی شہری بابو کا مہمان بنا۔ میزبان نے ایک مرغی ذبح کی۔ کھانے کے وقت جب دسترخوان بچھ گئی اور سب آکر بیٹھ گئے، تو دسترخوان پر میزبان میاں بیوی، ان کے دو بیٹے، دو بیٹیاں اور ایک مہمان وکیل سمیت کُل سات افراد موجود تھے۔ میزبان نے ازراہِ تفنن وکیل سے کہا: ’’آپ ہمارے مہمان ہیں، کھانا آپ تقسیم کریں!‘‘ مہمان نے مسکراتے ہوئے کہا:’’ مجھے تو اِس کا کوئی تجربہ نہیں، لیکن اگر آپ اصرار کرتے ہیں، تو کوئی بات نہیں۔ لائیے میں ہی تقسیم کردیتا ہوں!‘‘ یوں مہمان نے مرغی اپنے سامنے رکھ دی۔ مرغی کا سر کاٹ کر میزبان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: ’’آپ گھر کے سربراہ ہیں، لہٰذا مرغی کا سر ایک سربراہ کو ہی زیب دیتا ہے!‘‘ اُس کے بعد مرغی کا پچھلا حصہ کاٹ کر کہا ’’یہ گھر کے بیگم کے لیے!‘‘ مرغی کے دونوں بازوں کاٹ کر میزبان کے بیٹوں کو دیتے ہوئے کہا: ’’بیٹے باپ کے بازو ہوتے ہیں، پس دونوں بازوں آپ کے!‘‘ مرغی کے دونوں پاؤں کاٹتے ہوئے میزبان کی بیٹیوں کی طرف دیکھا اور کہا: ’’بیٹیاں کسی بھی خاندان کی عزت اور وقار پر کھڑی رہتی ہیں، لہٰذا یہ ٹانگیں آپ کا حق بنتی ہیں!‘‘ پھر مسکراتے ہوئے کہا: ’’جو بچا، وہ مہمان کے لیے!‘‘ میزبان کا اس موقع پر شرمندگی سے برا حال تھا۔
اگلے دن اُس نے اپنی بیوی سے کہا: ’’آج پانچ مرغیاں ذبح کریں گے۔‘‘ بیوی نے پانچ مرغیاں ذبح کیں اور جب دسترخوان بچھا، تو دسترخوان پر پانچوں مرغیاں موجود تھیں۔ میزبان نے سوچا دیکھتے ہیں کہ آج یہ پانچ مرغیاں کسی طرح تقسیم کرتا ہے۔ میزبان نے مہمان سے کہا: ’’آج ان پانچ مرغیوں کی تقسیم بھی آپ ہی کرلیں!‘‘ مہمان نے پوچھا: ’’تقسیم جفت نوعیت میں کی جائے یا طاق میں؟‘‘ میزبان نے کہا: ’’طاق انداز میں تقسیم فرمائیں!‘‘ مہمان نے میزبان کی بات سن کر سر ہلایا اور ایک مرغی اُٹھاتے ہوئے میاں بیوی کے سامنے رکھی اور بولا: ’’آپ، آپ کی بیوی اور ایک یہ مرغی کل ملا کر تین ہوئے!‘‘ پھر دوسری مرغی اُٹھا کر میزبان کے دونوں بیٹوں کو دیتے ہوئے کہا: ’’دو آپ اور ایک یہ مرغی ملا کر آپ بھی تین ہوئے!‘‘ اس کے بعد ایک مرغی اُٹھا کر میزبان کی بیٹیوں کو دیتے ہوئے کہا: ’’دو آپ اور ایک یہ مرغی ملا کر بھی تین ہوئے۔‘‘ آخر میں دو مرغیاں اپنے سامنے رکھتے ہوئے بولا:’’ ایک مَیں خود اور دو یہ مرغیاں، یوں ہم بھی تین ہوئے!‘‘ میزبان یہ تقسیم دیکھ کر سر پکڑ کر رہ گیا۔
اگلے دن میزبان نے پھر پانچ مرغیاں ذبح کیں اور دسترخوان لگنے کے بعد پانچوں مرغیاں مہمان وکیل کے سامنے رکھتے ہوئے کہا: ’’آج بھی تقسیم آپ ہی کریں گے، لیکن تقسیم جفت نوعیت کی ہوگی!‘‘ مہمان نے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ لوگ میری پچھلی تقسیم سے ناراض ہیں۔‘‘ میزبان نے کہا: ’’ایسی کوئی بات نہیں، بس آپ تقسیم شروع کر دیں!‘‘ مہمان نے طشتری سامنے رکھتے ہوئے تقسیم کا عمل شروع کیا۔ ایک مرغی اُٹھائی اور کہا: ’’ایک ماں، دو بیٹاں اور ایک مرغی، یہ کل ملا کر چار۔‘‘ دوسری مرغی اُٹھائی اور میزبان سے کہا: ’’ایک آپ، دو بیٹے اور ایک مرغی تو یہ بھی ملا کر کل چار ہوئے۔‘‘ پھر طشتری میں موجود تین مرغیاں اپنی طرف کھسکاتے ہوئے بولا: ’’تین مرغیاں اور ایک مَیں یہ بھی ملا کر کُل چار ہوئے!‘‘ اس کے بعد مہمان وکیل آسمان کی طرف منھ اُٹھا کر بولا: ’’یااللہ! تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے مجھے انصاف کا بول بالا کرنے کی اعلا صلاحیت سے نوازا ہے!‘‘
پاکستانی حکمران بھی ہر بار عوام کے ساتھ مذکورہ مہمان وکیل کی طرح ہاتھ کرنے کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا کر کہتے ہیں: ’’یا اللہ! تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے مجھے انصاف کا بول بالا کرنے کی اعلا صلاحیت سے نوازا ہے۔‘‘
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔