2013ء کے الیکشن سے پہلے ملک بھر میں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا، تو اس وقت پاکستان تحریک انصاف نے فیصلہ کیا کہ پچیس فیصد ٹکٹ نوجوانوں کو دیئے جا ئیں گے۔ ابتدا میں بہت سے لوگوں کو پی ٹی آئی کا یہ فیصلہ احمقانہ لگا کہ نو جوان لوگوں کو کیوں کر ووٹ دیا جائے گا؟ لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ پی ٹی آئی کے اس فیصلے کو ملک کے دیگر حصوں میں بالعموم اور خیبر پختونخوا میں بالخصوص پذیرائی ملی۔ اس طریقے سے سوات کے حلقہ این اے 29 سے پی ٹی آئی نے مراد سعید کو ٹکٹ جاری کیا، تو اس وقت مجھ سمیت بیشتر صحافیوں نے پہلی دفعہ مراد سعید کا نام سنا، لیکن 2013ء کے الیکشن کے نتائج نے سب کو حیران کردیا۔ یہ ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے نوجوان امیدوار نے 88 ہزار سے زائد ووٹ لے کر تمام ناقدین کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس وقت کے مخصوص حالات نے پی ٹی آئی اور مراد سعید کو فائدہ دیا تھا۔ حالاں کہ اس وقت مراد سعید صاحب کو عمائدین علاقہ کا تو دور، ان کے گاوؤں کے نام تک نہیں آتے تھے اور شائد آج بھی نہ آتے ہوں۔
قارئین جانتے ہیں کہ مَیں تحریک انصاف کے بدترین ناقدین میں سے ایک ہوں۔ اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ مناسب وقت پر مناسب فیصلے ہی جدید دور کی سیاست میں کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔ بہتر حکمت عملی سے ہی مخالفین کو شکست دی جاسکتی ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں صرف چند ہی مہینے رہ گئے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں نے لنگوٹ کس لئے ہیں۔ پارٹیوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے، جس کیلئے پہلے سے ہی لابنگ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ ایک طرف سیاسی وفاداریاں بدلنے کا موسم ہے، تو دوسری جانب روایتی سیاستدان الیکشن لڑنا ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنا ہی حق سمجھتے ہیں۔
سوات کی 2 قومی اور 7 صوبائی اسمبلی کی نشستیں صوبائی اور قومی سیاست میں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس با ر بھی ماضی کی طرح پرانے چہروں کو ہی ٹکٹ دیئے جائیں گے یا پھر نئے لوگوں کو آزمایا جائے گا؟ عوامی نیشنل پارٹی نے پہلے ہی تین صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم این اے 29 کی نشست جس پر پی ٹی آئی کے متوقع امیدوار مراد سعید کے مقابلے کیلئے کون امیدوار ہوگا؟ یہ آئندہ چند روز میں واضح ہو جائے گا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے دیگر امیدواروں کے ساتھ اس دفعہ دو نوجوان امیدوار بھی ہیں جن میں شیراز احمد خان اور معاذ احمد خان ایڈووکیٹ شامل ہیں۔ اس طرح مظفر الملک کاکی خان اور شیر شاہ خان بھی مضبوط امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق نوجوان شیراز احمد کو این اے 29 سے عوامی نیشنل پارٹی ٹکٹ دینے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اس طریقے سے جماعت اسلامی کے دیرینہ ساتھی اور پی کے 83 سے سابقہ دور میں منتخب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی حسین احمد کانجو کی جگہ نوجوان حافظ اسرار احمد کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس طریقے سے این اے 30 سے بھی پاکستان تحریک انصاف کسی نوجوان لیڈر کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق موجودہ ایم این اے سلیم الر حمان کو ٹکٹ نہ دینے کا اُصولی فیصلہ پہلے کیا جا چکا ہے۔ اس طریقے سے مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام کے قریبی رفقا کا کہنا ہے کہ اس بار زیادہ تر حلقوں میں نئے چہروں کو آزمایا جائے گا، جن میں نوجوان بھی ہوں گے۔ اس لحاظ سے یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ اب سیاسی جماعتوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ نوجوانوں کو بھی مواقع دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جہاں وہ جسمانی لحاظ سے توانائی سے بھر پور ہو تے ہیں، ساتھ ہی نئے خیالات اور وِژن سے تبدیلی کیلئے متحرک بھی نظر آتے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا میں بھی نہ صرف نوجوان سیاستدانوں کو آگے لایا جاتا ہے بلکہ ان کو اہم ذمہ داریاں بھی سونپی جاتی ہیں۔ ان لیڈروں میں کینیڈا کے موجودہ نوجوان وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو، سابق امریکی صدر باراک حسین اوباما، میکسیکو کے صدر انریک پینا نیٹو، یو نان کے وزیر اعظم الیکس سیپرس، اٹلی کے سابق وزیر اعظم میٹیو رینزی اور بھوٹان کے موجودہ بادشاہ نمگیل وانچوک شامل ہیں۔ یہ وہ تمام لیڈر ہیں جن کی اوسط عمر چالیس سال سے کم ہے۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما جس دن امریکی صدر بنے، تو ان کی عمر صرف 47 سال تھی۔
اگر اس ملک نے ترقی کرنی ہے، تو جمہوریت اور نوجوان قیادت کو مواقع فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ساتھ ہی نوجوان قیادت کو اپنے بزرگوں کے تجربات سے استفادہ کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔ تب ہی ایک روشن پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ جو لوگ تین تا چار باریاں لے چکے ہیں، ان کی جگہ نئے لوگوں کو آزمانا وقت کا تقا ضا ہے۔
اس حقیقت کو عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھنا ہو گا۔