امریکی فوج، نیٹو کا انخلا اور افغانستان کا مستقبل

ملکی سا لمیت، خود مختاری کے تحفظ اور پاکستان کی بری ، فضائی اور بحری حدود کی خلاف ورزی کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت، پیشگی حملے اور مداخلت کے خلاف قومی سلامتی پر مامور اداروں اور عوام کے دو ٹوک مؤقف کے پیشِ نظر اب یہ ناممکن ہے کہ امریکہ اور نیٹو کو کسی بھی ملک کے خلاف فوجی اڈے بنانے کی اجازت دی جاسکے۔
ماضی میں شمسی ائیر بیس امریکہ کے دباؤ پر حکمرانوں نے دیا تھا، جو سلالہ چیک پوسٹ حملے کے ناخو ش گوار واقعے کے بعد اصولی بنیادوں پر امریکہ سے خالی کرالیا گیا۔ پھر اس ائیر بیس کا کنٹرول پاک فوج نے سنبھال لیا تھا۔ امریکہ اپنی فوجی آلات اور سازو سامان کو لے کر افغانستان چلا گیا تھا۔ بیس کی واگزری حکومت کا وہ اقدام رہا جس کی بنیاد جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کا تھا۔ حقیقت میں خطے کے زمینی حقائق کے ادارک میں امریکی استعماریت اور عسکریت کے علمبرداروں کو اپنے مفادات پر مبنی منصوبوں، تجزیوں اور پیش رفت میں خوش گمانیوں نے گھیر ا تھا۔ وہ پاکستان کو تر نوالہ سمجھنے کی سنگین غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اگرچہ عراق اور افغانستان کی صورتِ حال کے ضمن میں امریکہ کو انخلا پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے تھی ۔
عالمی ذرائع ابلاغ میں افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے انخلا کے بعد پاکستان کے لیے خطرہ قرار دینے کی اطلاعات سرگرم ہیں۔ انخلا کے بعد امریکہ کی خطے میں اپنے دیرینہ مخالفین پر نظر رکھنے کے لیے فوجی اڈوں کے قیام کی ضرورت پر سختی سے زور دیا جارہا ہے اور ان اڈوں کا قیام امریکہ اور یورپ کی سلامتی کے لیے ناگزیر سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم اس وقت امریکی پالیسی ساز زمینی خطے حاصل کرنے کے مختلف آپشن پر غور کر رہے ہیں۔ صدر جوبائیڈن اپنے پالیسی سازوں سے فوجی انخلا کے بعد کی صورتِ حال پر ایک ایسے روڈ میپ کے خواہاں ہیں کہ افغانستان سے نکلا بھی جائے اور اس پر نظر بھی رکھی جائے۔ افغانستان کے پڑوسی ممالک میں صرف پاکستان کو ایک ایسا ملک قرار دیا جا رہا ہے کہ امریکی مفادات کے حصول کے لیے ایک بار پھر فوجی اڈوں کا قیام عمل لایا جاسکے۔ لیکن اس حوالے سے پالیسی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا کہ کیا امریکہ خفیہ طور پر ایسے ائیر بیس حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے جو ماضی میں پاک افغان کے خلاف استعمال ہوتے رہے؟ ڈرون حملوں کا آپشن اس وقت امریکہ مناسب سمجھتا ہے، تاہم ان ڈرون حملوں کے لیے بھی سمندری جنگی بیڑے سے افغانستان کا سفر طے کرنے کے لیے پاکستانی حدود استعمال ہوں گی جس کے لیے پاکستان کی اجازت بھی درکار ہوگی، تاہم امریکی رعونت اور گن بوٹ پالیسی کو بھی مد نظر رکھا جائے، تو اسے جارحیت کے لیے کسی اجازت کی بھی ضرورت نہیں۔
’’ایساف‘‘ کے سابق کمانڈر جنرل جان ایلن کا مہمند واقعے کے بعد بیان تھا کہ مہمند ایجنسی جیسا واقعہ دوبارہ نہ ہونے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اپنا فلسفہ بگھارتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور نیٹو کو چاہیے کہ وہ اپنے قول و فعل میں تضاد ختم کریں۔ یوں تو امریکی تھنک ٹینک اور مبصرین 2007ء سے پاکستان پر امریکی حملہ کی پیش گوئیوں پر مبنی مضامین نو کے انبار لگا چکے ہیں ا ور اب دوبارہ پاکستا ن کو خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بلاشبہ امریکی مفادات کی وجہ سے پاکستان بدترین دہشت گردی اور انتہا پسندی کا شکار رہا۔ اگر افغانستان کی جنگ میں پاکستان، امریکہ کا اتحادی نہ بنتا، تو امریکہ کو مزید جانی و مالی نقصان بھی پہنچتا اور ممکن ہے کہ افغانستان کے ساتھ جنگ میں پاکستان بھی شامل ہوجاتا، تاہم جس طرح امریکہ نے پاکستان کی حدود و اور وسائل کا استعمال کرکے مملکت کے تحفظ و سا لمیت کو خطرے میں ڈالا، اس کا ادراک کرتے ہوئے عسکری قیادت نے اپنی پالیسی کو تبدیل کیا۔ امریکہ سے ائیر بیس خالی کروایا۔ ڈرون حملوں کے لیے پاکستانی حدود کو استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا اور بغیر اجازت آنے والے طیاروں کو گرانے کا عندیہ بھی دیا۔ امریکہ اور کابل انتظامیہ کی ہمیشہ کوشش رہی کہ اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالیں۔
افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے انخلا کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ اس دوران میں امریکہ کی دوبارہ کوشش ہوسکتی ہے کہ وہ پاکستانی حدود اور سرزمین کو استعمال کرنے کی درخواست کرے، تو اس ضمن میں اربابِ اختیار سے یہی اپیل ہے کہ وہ زمینی حقائق اور امریکی عزائم کے درمیان حد درجہ معروضی، حقیقت پسندانہ اور غیر جذباتی حکمت عملی کے تسلسل کو برقرار رکھیں۔ کیوں کہ پاکستان، اس وقت چین، ایران اور روس کے ساتھ اپنے بہتر تعلقات کی نمو کی وجہ سے امریکہ کی گڈ بُکس میں شامل نہیں۔ خدانخواستہ ماضی کی طرح کوئی غیر مقبول فیصلہ سامنے آیا، تو روس اور چین کی ناراضی مول لینا طے ہے اور یہ پاکستان کے حق میں نیک شگون نہیں ہوگا۔
امیدِ واثق ہے کہ ریاست نے ماضی کی جنگوں کی غلطی سے سبق حاصل کرکے عالمی قوتوں کے ناجائز مطالبات کے آگے ڈٹ جانے کا عزم جاری رکھا ہے۔ اس لیے توقع ہے کہ ریاست یا حکومت عوام کی منشا و سالمیت کے لیے ایسا کوئی اقدام نہیں کرے گی جس سے ایک بار پھر پاکستان کو نئی آزمائش سے گزرنا پڑے۔
امریکہ اس وقت عالمی بالا دستی ہاتھ سے نکل جانے کے خوف میں مبتلا ہے۔ سقوطِ امریکہ کی پیش گوئیاں عالمی منظر نامے پر آتی رہی ہیں، جس کے مظاہر ٹرمپ حامیوں کے کیپٹل ہلز پر حملے کے بعد دیکھے گئے کہ امریکہ اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اس لیے بعید از قیاس نہیں کہ امریکی عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک نئی مہم جوئی شروع کی جائے۔
ہاروڈ کے مؤرخ نیال فرگوسن جو کبھی امریکہ کی عالمی سطح پر تعمیری کردار کے رطب اللسان تھے، پھراندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہوئے کہ امریکہ کا انحطاط قریب تر ہے۔ ضرورت خطے کی صورتِ حال میں پیدا شدہ حرکیات کے فوری ادارک اور حکمت و دانش پر مبنی افکار کی للکار پر گوش برآواز ہونے کی ہے۔ امریکہ اور نیٹو کو ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہوش سے کام لینا ہوگا۔ جہاں تک اہلِ پاکستان اور اس کی چوکس مسلح افواج کا تعلق ہے، تو وہ وطنِ عزیز کے خلاف ہر جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ افغانستان سے کالعدم جماعت کے سربراہ کی رہائی کی خبر ان خدشات کو ابھار رہی ہے کہ آنے والے وقت میں مملکت میں انتشار اور انارکی کی نئی لہر پیدا کی جائے، تاکہ ائیر بیس کے حصول کا جواز پیدا ہوسکے۔
………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔