کسی تحریک کی کامیابی میں زمانے کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تحریک کا بنیادی نظریہ تو ایک بیج کی مانند ہوتا ہے، جس کے نمو کے لیے مناسب مٹی اور آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر زمین زرخیز اور طبعی حالات موافق ہوں، تو یہ بیج بہت جلد جڑ پکڑ لیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ننگی زمین کو سرسبز برگ و بار سے ڈھانپ دیتا ہے اور اگر زمین میں قوتِ نمو کم اور حالات غیر موافق ہوں، تو یہ بیج سالہا سال تک زیرِسطح پڑا رہتا ہے اور کسی ایسے مردِ راہ داں کا منتظر رہتا ہے، جو زمین کا سینہ گہرائی تک سینچے، دبے ہوئے بیج کو نکالے اور اسے افزائش کے مناسب مواقع مہیا کر دے۔
تاریخِ عالم میں ایسی اَن گنت مثالیں موجود ہیں کہ ایک نظریہ جو زمانۂ ماسبق میں مقبول نہ ہوسکا، کئی سو سال کے بعد تحریک پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ مثال کے طور پر "اشتمالی ریاست” کا بنیادی نظریہ، افلاطون کی مثالی ریاست کی صورت میں پیش کیا جا چکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سکندرِ اعظم کے زمانے کا مجذوب دانش ور "دیو جانس کلبی” اپنے آپ کو ’’دنیا کا شہری‘‘ کہا کرتا تھا۔ لیکن یہ نظریہ جب بیسویں صدی تک پہنچا، تو بہت جلد ایک بڑی تحریک کی صورت اختیار کرگیا۔
عورت کو مرد کے مساوی حقوق دینے کی موزوں آوازیں بیسیوں صدی میں ابھرتی دکھائی دیتی ہیں لیکن ذرا ماضیِ بعید میں جھانکیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ افلاطون سے بھی دو سو برس قبل جس دانشور نے عورت کی ذہنی صلاحیتوں کو پہچانا اور انہیں بروئے کار لانے کے لیے عملی اقدام کیے وہ ’’فیثا غورث‘‘ تھا۔ مخلوط تعلیم کو بظاہر ہماری آنکھوں کے سامنے مقبولیت حاصل ہوئی، تاہم فیثا غورث نے اپنے عہد میں بھی لڑکیوں کو اپنے درس میں شامل ہونے کی اجازت دے رکھی تھی۔
اقلیدس میں فیثا غورث کی دریافتیں گراں قدر ہیں، لیکن اس بات کو بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اس حکیم فرزانہ نے فلسفے کے دقیق مسائل کو ریاضی کی طرح کلیاتی انداز میں حل کرنے کی کوشش کی اور ہمارے عہد میں یہی انداز برٹرینڈرسل نے رائج کیا، تو فیثا غورث سے بھی زیادہ مقبولیت ملی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات نیا نظریہ اپنے داخل میں صحت مند توانائی تو رکھتا ہے، لیکن غیر مناسب زمانی حالات کی بدولت کسی بڑی تحریک کا پیش خیمہ نہیں بن پاتا اور وہ تحرک پیدا نہیں ہوتی جس کی صلاحیت اس کے بطون میں موجود ہوتی ہے، جوں ہی زمانہ نئے علوم کی روشنی میں عقلی اعتبار سے اتنی ترقی کرلیتا ہے کہ اس نظریے کی تفہیم و تعبیر کرسکے، تو اس نظریے کی دریافتِ نو سے ایک نئی تحریک پیدا ہوجاتی ہے اور پورا عالم اپنے سابقہ اعتبارات پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، چناں چہ یہ ضروری نہیں کہ تحریک ہمیشہ کسی نئے نظریے پر ہی اپنی اساس استوار کرے بلکہ بعض اوقات پرانا نظریہ بھی جب نئی روشنی میں اپنی توانا پرتیں منکشف کرتا ہے، تو یہ فضا کی مناسبت اور حالات کی موافقت سے فائدہ اٹھا کر اپنے اثرات چہار جانب بکھیرنے لگتا ہے۔
(انور سدید کے تحقیقاتی مقالہ سے اقتباس)