قومی ایوارڈ اور تنقید

دنیا میں یہ مروجہ دستور ہے کہ ہر ملک اپنے قومی ہیروز کو اپنی ثقافت، حالات اور خدمات کے مطابق خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ ہر ملک میں اس واسطے ایک طریقۂ کار متعین ہے۔ کہیں یہ فیصلے عوام کی رائے پر ہوتے ہیں اور کہیں ایک فورم یا کمیٹی اپنی سفارشات کے مطابق تجویز کرتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی سالوں سے یہی طریقۂ کار ہے۔ ہر سال چودہ اگست کو حکومت ان افراد کا اعلان کرتی ہے کہ جو اِن مختلف قسم کے ایوارڈ واسطے نامزد کیے جاتے ہیں۔ پھر 23 مارچ کو صدرِ مملکت ان کو ایک پُروقار تقریب میں یہ ایوارڈ دیتے ہیں۔ یہ ایوارڈ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اعلا کارگردگی پیش کرنے والے افراد جن میں دین و تبلیغ، سیاحت و تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی، شوبز اور شعرو ادب، اسی طرح عوامی خدمات، سرکاری خدمات وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
ہم سالوں سے یہ دیکھ رہے کہ جب بھی یہ ایوارڈ دیے جاتے ہیں، تو اس پر لازمی ایک تنازعہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگ کھل کر یہ اظہار کرتے ہیں کہ یہ ایوارڈ میرٹ پر نہیں بلکہ ذاتی پسند و نا پسند اور سیاسی اثرورسوخ کی بنیاد پر دیے گئے ہیں۔ بے شک یہ الزامات پاکستان میں رائج روایات اور معاشرتی کم زوریوں کی وجہ سے کسی حد تک صحیح بھی ہیں، لیکن گذشتہ چند سال سے بلکہ جب سے تحریکِ انصاف سیاسی طاقت بن کر نمودار ہوئی ہے، تب سے ایک نیا کلچر آگیا ہے۔ اب بنا سمجھے، بنا غور کیے، چاہیے کہ میرٹ پر اعتراض کیا جائے، شعبہ جات اور ان سے وابستہ لوگوں پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ اداکاراؤں کی تصاویر لگا کر ساتھ میں کسی عالمِ دین کی لگا رہے ہیں اور نیچے یہ جہالت بکھیر رہے ہیں کہ ’’دیکھو جی، عالمِ دین کی عزت نہیں اور شوبزکی خواتین بلکہ ساتھ انتہائی غیر اخلاقی ٹائٹل دے کر کو نوازا جا رہا ہے۔‘‘ کوئی دانش ور کسی کھیل کے کھلاڑی کی تصویر کے ساتھ کسی سماجی کارکن کی تصویر لگا کر بے چین ہے کہ دیکھو جی کھلاڑیوں کو عزت اور خدمت گاروں کو اہمیت نہیں۔ اسی طرح اور مختلف شخصیات اور شعبہ جات پر بنا جانے، بنا سمجھے اندھا دھند تنقید ہو رہی ہے۔ حالاں کہ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ حکومت ہر شعبہ سے موزوں اشخاص کا انتخاب کرتی ہے، اب وہ آپ کو پسند ہو یا نہ ہو۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سپورٹس اور شوبز اس دنیا میں ہر ملک کی پہچان بنانے میں ایک کردار ادا کرتے ہیں اور پھر عوام کو تفریح پہنچاتے ہیں۔ سو اصل مسئلہ ان کے شعبہ کو دین کی نظر سے دیکھنے اور وہ بھی بدقسمتی سے خود ساختہ دانشوری کے پیمانے پر دیکھنے کے بجائے مجوزہ حقائق کو دیکھا جائے۔ یہ بھی نہیں ہوتا کہ علمائے دین یا سماجی کارکنان کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مثلاً مولانا عبدالستار ایدھی، انصار برنی، اعتزاز حسن (ہنگو کا وہ بچہ کہ جس نے خود کش کو روکا تھا) معروف وکیل و راہنما پی پی وغیرہ کو یہ ایوارڈ دیے گئے ہیں۔ اسی طرح وہ استانی جس نے بچوں کو بچانے واسطے جان دی، یا ’’میم روتھ فاؤ‘‘ جو قوم کی ماں کا درجہ رکھتی تھیں، کو بھی ایوارڈ کے ذریعے خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ اسی طرح مختلف اوقات میں علمائے دین اور نعت خوانوں کو بھی یہ ایوارڈ دیے گئے۔
اس دفعہ معروف عالمِ دین مولانا طارق جمیل صاحب کو ایوارڈ دیا گیا۔ سو اصل بات یہی ہے کہ اب جب کھیلوں یا پرفامنگ آرٹ کی بات ہوگی، تو ظاہر ہے کہ اس شعبہ سے وابستہ شخصیات کو ہی نامزد کیا جائے گا۔ اب اس دفعہ اگر اداکارہ ریشم کو یہ ایوارڈ ملا، تو آپ یہ تنقید تو کرسکتے ہیں کہ ریشم سے زیادہ کسی اور کی خدمات ہیں، لیکن یہ کہنا کہ ایک اداکارہ کو کیوں ایوارڈ دیا گیا؟ بہت ہی نامعقول اور نا مناسب نکتۂ نظر ہے۔میرا ذاتی خیال ہے کہ عام عوام بجائے شعبہ جات کو تنقید کا نشانہ بنائیں بہتر ہے کہ وہ ان ایوارڈ کے میرٹ واسطے آواز بلند کریں۔ مثال کے طور پر ہم یہ بات کریں کہ اگر حکومت کسی عالمِ دین مثلاً علامہ طارق جمیل صاحب کو ہی ایوارڈ واسطے منتخب کر رہی ہے، تو اول اس کا میرٹ کیا ہے؟ مولانا صاحب کی خدمات کیا ہیں؟ اس کو باقاعدہ عوام کے سامنے بذریعہ میڈیا رکھیں بطورِ تجویز کنندہ نہ کہ بطور نام زد شدہ۔ پھر ایک طریقۂ کار وضع کریں کہ عوام اس بارے کیا خیالات رکھتے ہیں؟ عوام سے یہ اپیل کی جائے کہ ہم نے مذکورہ شخص کو ان وجوہات اور ان خدمات کی وجہ سے چنا ہے، لیکن اگر آپ اس کو مناسب خیال نہیں کرتے، تو آپ کوئی اور متبادل نام تجویز کریں۔ اس کے ساتھ اس کی معقول تجاویز بھی دیں، بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ حکومت تجویز کرنے سے پہلے بھی عام عوام اگر ممکن نہیں، تو کم از کم اس شعبہ سے وابستہ لوگوں کی رائے ضرور لے۔ مثال کے طور پر کسی عالم دین کو نام زد کرنے سے قبل علما کونسل کی رائے لی جائے۔
اس طرح کسی اداکار کی نام زدگی سے قبل اداکاروں اور ہدایت کاروں کی تنظیموں سے پوچھا جائے۔ پھر شاعروں اور ادیبوں واسطے ان کی تنظیمیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی کارگردگی کا ریکارڈ چیک کر لیا جائے، یعنی ایک کرکٹر کی میدان میں کیا کارگردگی رہی؟ ایک اداکار کی عوام کی پسندیدگی کیا ہے اور جن فلموں یا ڈراموں میں اس نے کام کیا ہے ان کی کامیابی کا تناسب کیا ہے؟ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ معروف اشخاص کی بین الاقوامی برادری میں عزت و مقام کتنا ہے اور کس وجہ سے ہے؟ ان کی خدمات کے نتیجہ میں ملک و قوم کو کیا فائدہ یا نقصان ہوا؟ پھر فیصلہ میرٹ پر کیا جائے۔ سو اس طریقۂ کار کے تحت اگر حکومت پر تنقید کی جائے یا عوامی دباؤ بنایا جائے، تو بات سمجھ آتی ہے لیکن محض خود سے یہ فیصلہ کرنا کہ ریشم چوں کہ ایک اداکارہ ہے اور اس وجہ سے اس کو نام زد کرنا بذاتِ خود ایک گناہِ کبیرہ اور جرمِ عظیم ہے، محض جہالت و ناسمجھی ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ صرف پاکستان میں نہیں ہوتا بلکہ باقی دنیا بشمول اسلامی دنیا جیسے مصر، مراکش، ایران وغیرہ میں بھی یوں ہی ہوتا ہے ۔
ہمارے شعبہ کے لوگ بشمول فنِ اداکاری اور کھیل کود سے وابستہ ہر شخص کی خدمات ہوتی ہیں۔ ہمارے پڑوس بھارت میں دیکھ لیں کہ کس کس کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ جو قومیں اپنے ہیروز اور خاص کر ٹیکنیشنز کی عزت نہیں کرتی (یہ بھی یاد رہے کہ فن اداکاری بھی ایک خالصتاً تکنیکی کام ہے۔ جو ہر شخص کے بس کی بات نہیں) وہ قومیں دنیا کی دوڑ میں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ ہم کو شبنم، بابرہ شریف، شمیم آرا، محمد علی، وحید مراد سے لے کر مہوش حیات اور ریشم تک اپنے فنکاروں کی صلاحتوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ خواہ مخواہ غیر ضروری طور پر اپنی جہالت کو حکمِ خدا سمجھ کر معاشرے میں انارکی اور تعصب کو پروان نہ چڑھایا جائے۔ اگر آپ بالفرض پرفارمنگ آرٹ یا جدید سپورٹس کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں، تو پھر بجائے آپ کھلاڑیوں اور فنکاروں کی اس طرح سوشل میڈیا پر بے عزتی کریں، بہتر ہے آپ یہ تحریک چلائیں کہ مجوزہ شعبہ جات کو ہمارے ملک سے ختم کر دیا جائے۔ پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ لیکن ہم پھر یہ ضرور کہیں گے کہ اسلام کی تشریح و تعلیمات کا اختیار ایک خاص سیکٹ آف سوسائٹی کو تو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ خود ہی فیصلہ کرتا پھرے اور خود ہی ہمارے قومی ہیروز کی توہین کرتا جائے۔ یہ ہر ضابطہ خواہ وہ اخلاقی ہو، دینی ہو، عمرانی ہو یا قانونی، کسی بھی لحاظ سے مناسب طرزِ عمل نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم حکومت سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لے اور سائیبر کرائم کو بس اپنی حکومت کے مخالفین تک محدود نہ کرے، بلکہ ایف آئی اے کو یہ ہدایت بھی جاری کرے کہ وہ فیس بک اور ٹوئیٹر پر جو ہمارے کھلاڑیوں خاص کر فنکاروں کی بلا وجہ توہین کی جا رہی ہے، اس کو بذریعۂ قانون سختی سے روکے۔ پچھلی بار مہوش حیات اور اب کی بار ریشم صاحبہ کی وہ درگت بن رہی ہے کہ اﷲ معاف کرے پڑھ اور دیکھ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ان بے چاری فنکاراؤں کی بس اتنی سی غلطی ہے کہ غلط یا صحیح لیکن ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت نے ان کو تمغائے حسنِ کارکردگی سے نواز دیا ہے۔
امید ہے حکومت آئندہ واسطے ایسے اقدامات ضرور کرے گی کہ جو اس جاہل اور عجیب و غریب رویہ سے لوگوں کو باز رکھے گی۔ یہی مہذب معاشروں کی پہچان ہوتی ہے اور مہذب معاشرہ ہی عزت کا حق دار ہوتا ہے۔
…………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔