رنگ روڈ یا رانگ روڈ؟

راولپنڈی اسلام کی ٹریفک کی سہولت واسطے جو رنگ روڈ بنایا جا رہا ہے اور میڈیا میں اس کا پروپیگنڈا شدو مد سے جاری ہے۔ گو کہ یہ منصوبہ بہت پرانا ہے اور 90 کی دہائی سے اس پر کام شروع ہوچکا ہے، لیکن یہ بوجوہ تاخیر کا شکار رہا۔ پھر اﷲ اﷲ کر کے اس پر عملی کام کا آغاز نواز شریف کی تیسری حکومت میں شروع ہوا۔ اس کی فیزیبلٹی تقریباً مکمل ہوئی، لیکن جب ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا، تو یہ منصوبہ ایک بار پھر تاخیر کا شکار ہوا۔ اب گذشتہ چند ماہ سے اس پر دوبارہ کام کا آغاز ہو رہا ہے۔
اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس عظیم منصوبہ میں سب سے زیادہ خوشی اور اطمینان راولپنڈی کے عوام کو ہوتا اور خصوصاً ان علاقوں کو کہ جہاں سے یہ نکل رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس روڈ کے خلاف سب سے زیادہ غصہ اور بے چینی راولپنڈی کے لوگوں میں پائی جا رہی ہے۔ راقم کو کچھ عرصہ قبل اس بات کا اندازہ تھا کہ اس میں لی گئی زمینوں کی قیمتوں پر عوام میں عمومی طور پر اعتراضات ہیں لیکن اب جب چند ماہ قبل عملی طور پر اس کا دوبارہ جائزہ لیا گیا، تو بہت ہی تلخ حقائق سامنے آئے۔ راقم چوں کہ اسی علاقہ سے ہے اور علاقہ کی ایک سماجی اور معاشرتی تنظیم ’’دوست‘‘ کا ذمہ دار بھی ہے۔ سو اس وجہ سے مقامی لوگوں نے ’’دوست‘‘ سے بھی رابطہ کیا۔ تب سے راقم نے براہِ راست اس مسئلے پر دلچسپی لینا شروع کی۔ کیوں کہ عام عوام کا رنج و غصہ انتہا پر محسوس ہوا۔ اسی دوران میں راقم کو بنیادی طور پر دو باتوں کا علم ہوا۔
ایک یہ کہ اس کے پرانے نقشے کو اچانک تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جو پرانا نقشہ آبادی سے باہر ساگری موڑ اور چھنی پل کے درمیان تھا، اس کو کچھ خفیہ عناصر کے دباؤ پر اٹھا کر اعوان آباد نامی لوکل آبادی کے عین بیچ میں لایا گیا۔ اس سلسلے میں مقامی آبادی کو نہ تو کوئی رسمی اطلاع دی گئی اور نہ ان سے کوئی مشاورت کی گئی بلکہ جب دفتر میں بیٹھ کر تمام نقشہ مکمل کر کے سروے والوں کو دیا گیا اور موقع پر نشان لگنا شروع ہوئے، تو مقامی آبادی پر انکشاف ہوا کہ اب ان کو بے گھر کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں جب راقم نے چند مزید سیاسی، صحافی اور سماجی کارکنان سے مل کر کام کیا، تو حیرت انگیز طور پر یہ پتا چلا کہ یہ بدمعاشی صرف ’’زیرو پوائنٹ‘‘ کہ جہاں روات کے قریب کے ریڈیو سٹیشن سے شروع کیا گیا ہے، وہاں تک محدود نہیں بلکہ اس قسم کے اعتراضات ریڈیو سٹیشن سے کہ جو نکتۂ آغاز ہے، سے لے کر مورتی اور سنگ جانی انٹر چینج کہ جو آخری نکتہ ہے تک کئی جگہ پر یہ زیادتی کی گئی۔
اس کے بعد دوسرا اعتراض جو راقم کو معلوم ہوا وہ اس کی قیمتوں بارے تھا۔ اول تو طے شدہ قیمتیں مارکیٹ ریٹ سے کئی گنا کم تھیں۔ مارکیٹ ریٹ کے بجائے نام نہاد ڈی سی ریٹ جو ایک سال کے انتقال شدہ رجسٹری کی بنیاد پر لگائی جاتی ہے، تو اس کی بھی واضح خلاف ورزی تھی۔ اسی سلسلے میں ایک اور ظلم یہ ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار خسرہ کی لوکیشن کے بجائے قیمتوں کا تعین مکمل موضع کی بنیاد پر کیا گیا۔ مثلاً ایک موضع میں زمین اگر مین جی ٹی روڈ؛ چک بیلی خان روڈ یا اڈیالہ روڈ پر آتی ہے، تو اس کی قیمت اور اسی موضع کی دور دراز موجود زمین کی قیمت ایک ہی حساب سے پر کنال رکھ دی گئی۔ سو اس سلسلے میں مقامی آبادی کے اندر غم و غصہ کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا۔ سو عوام نے احتجاج شروع کیا اور راقم جس سماجی تنظیم کا حصہ تھا، اس سے بھی رابطہ کیا گیا۔ راقم اور اس کے ساتھ تنظیم کے ذمہ داران نے مقامی لوگوں سے ملاقات کی اور ان کو تسلی دی۔ بجائے سڑکوں پر احتجاج کے ان کو مشورہ بھی دیا اور ساتھ دینے کا وعدہ بھی کیا کہ اربابِ اختیار سے اس بارے مذاکرات کیے جائیں۔
راقم واسطے یہ بات باعثِ حیرت تھی کہ ریاست مدینہ کے دعویداروں نے اس مسئلے کو حل کیا کرنا بلکہ اس کو سنجیدہ لینے سے ہی انکار کر دیا۔ راقم اپنے دوسرے دوستوں اور متاثرین کے ساتھ بار ہا اعلا سیاست قیادت جس میں حلقہ کے ایم این اے جناب صداقت عباسی اور دوسری طرف وفاقی وزیر خان سرور خان مزید انتظامی قیادت کمشنر ڈپٹی کمشنر اور راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی یعنی آر ڈی اے کے ذمہ داران سے متعدد ملاقاقتیں کیں، لیکن نتیجہ صفر جمع صفر رہا۔
انتہائی حیرت ناک طور پر ایسی ایسی معلومات حاصل ہوئی کہ جس سے یہ انکشاف ہوا کہ جیسے حکومت نام کی چیز ہی کوئی نہیں۔ مثلاً قانون کے مطابق متاثرین نے جو اعتراضات جمع کروائے تھے آر ڈی اے کو، آر ڈی اے اس چیز کا پابند تھا کہ وہ لوگوں کو سمن کرکے بلاتا اور ان کے اعتراضات کو سنتا۔ لیکن اس نے دفتر میں بیٹھ کر سب اعتراضات بیک جنبشِ قلم مسترد کرریا۔ حرام ہے کہ لینڈ کلیکٹر کو کسی نے رسمی پوچھا تک ہو۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ مہینوں کی تگ و دو کے بعد بھی انتظامیہ اپنے غلط اور ظالمانہ مؤقف سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں۔ حکومت اور سیاسی قیادت، اقتدار کے نشہ میں مست ہیں۔ وہ بات سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہی۔ حتی کہ راقم اس بات کا گواہ ہے کہ کمشنر سے صرف ملنے واسطے کتنی مصیبت جھیلنا پڑتی ہے۔ وہی انگریزی دور کا حاکمانہ رویہ، وہی انداز و اطوار، وہی عوام کو کم تر سمجھنے کی سوچ۔
راقم بہت دکھ سے یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہوا ہے کہ اس حکومت کے دور میں یہ انداز و اطوار بجائے مثبت ہونے کے بہت منفی ہوچکا بلکہ میں معذرت کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ریاستِ مدینہ کے دعویداروں نے عملی طور پر ’’یزید‘‘ کی ’’ریاستِ دمشق‘‘ بنا دی ہے۔ اُوپر کی سطح پر سو فیصد آمرانہ اور شہنشاہانہ رویہ اور عام عوام کو حقیر سمجھنے کی سوچ سو ان حالات میں کہ اس سے پہلے کہ عوام باقاعدہ سڑکوں پر نکل آئیں اور پنڈی اسلام آباد کو بند کر دیں۔ پھر ہر طرف آنسو گیس، پرچے، گرفتاریاں، میڈیا کا شور اور منصوبہ ہو جائے متنازعہ اور جو بین الاقوامی کنسورشیم اس میں مدد گار ہے، وہ پیچھے ہٹ جائے۔ بہتر ہے کہ وزیراعظم پاکستان اس میں خود براہِ راست دلچسپی لیں اور متعلقہ اداروں اور محکموں کو خود ہدایت کریں کہ اس عظیم منصوبہ کی آڑ میں ہونے والے ظلم سے اجتناب کریں اور عوام کے جائز اور واضح مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کریں۔
لاکھوں روپوں میں تنخواہ لینے والے بابوؤں کو ہدایت کی جائے کہ وہ دفاتر سے اٹھیں اور موقع پر جا کر جائزہ لیں۔ نہ صرف قیمتوں کے معاملے پر بے انصافی سے پرہیز کریں بلکہ موقع دیکھ کر لوگوں کے گھروں، مساجد، سکول تالابوں اور قدیم راستوں کو بچانے کی سعی کریں۔ نہیں تو دوسری صورت میں، مَیں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ عوام تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کو تیار ہیں۔ کسی بھی وقت یہ مایوسی کا لاوا پھٹنے جا رہا ہے۔ اگر ایک دفعہ عوام باہر نکل آئے، تو پھر انتظامیہ شاید بہت زیادہ مان کر بھی اس رنگ روڈ کو متنازعہ بنانے سے نہ بچا سکے۔ عین ممکن ہے کہ پھر یہ عظیم الشان منصوبہ تباہ و برباد ہو جائے۔
دوسری طرف میں تحریک انصاف کی سیاسی قیادت بالخصوص صداقت عباسی اور سرور خان صاحب کو بھی خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی عدم دلچسپی اس علاقہ میں ان کا سیاسی قبرستان بنا رہی ہے۔ عام عوام کہ جن میں میری اطلاع کے مطابق اکثریت تحریک انصاف کے ووٹرز کی ہے، میں ان کے خلاف نفرت اور غصہ کو دن بدن بڑھاوا دے رہی ہے۔ جو ان کے مقامی عہدیداران ہیں، ان سے نفرت بڑھ رہی ہے۔ کسی دن یہ حضرات اپنے ساگری سرکل پوٹھار ٹاؤن اور تحصیل راولپنڈی کے عہدیدران کو بلا کر حالات سے آگہی حاصل کریں۔ ان کو عوام کے جذبات اور خیالات کا بہتر اندازہ ہو جائے گا۔ رنگ روڈ کی آڑ میں جو زیادتی اور ظلم ہو رہا ہے، کم ازکم مَیں نے تو اپنی ذاتی زندگی میں اس سے زیادہ ہوتا دیکھا نہیں۔ کیوں کہ اگر مذکورہ سیاسی قائدین اس وہم میں ہیں کہ کچھ نہیں ہوتا، بلکہ یہ منصوبہ ان واسطے سیاسی طور پر فائدہ مند ہوگا، تو یہ ان کی غلط فہمی ہے اور یقینی طور پر بہت جلد ان کے سامنے تلخ حقائق آجائیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ میں میڈیا سے بھی یہ اپیل کروں گا کہ وہ اس خالصتاً عوامی مسئلہ پر عوام کی آواز بلند کرنے میں مدد گار ہوں۔ اس کے علاوہ حزبِ اختلاف والوں سے بھی یہ اپیل ہے کہ وہ محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہ کریں بلکہ مکمل دیانت داری سے عوام کے حقوق کی آواز بلند کریں۔
…………………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔