ہم واقعی بڑے بے قدرے واقع ہوئے ہیں

مَیں آج کی اس تحریر میں وزارتِ خارجہ کے اربابِ اختیار سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ خارجہ امور میں آپ کے معاشی اور دفاعی، سیاسی اور ثقافتی مفادات پیشِ نظر ہوتے ہیں۔ اس میں اول حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنے ملک کا تصور دوسرے ممالک میں مثبت بنا سکیں اور دوسرے ممالک کی عام عوام میں آپ کے بارے میں ایک مثبت رائے ہو۔ پھر اسی وجہ سے آپ کو مختلف معمولات میں بہتر ماحول ملتا ہے مذکرات واسطے۔ اس کی خاطر دنیا بھر کے ممالک لاکھوں ڈالر دے کر ’’لابنگ فرمز‘‘ سے معاہدے کرتے ہیں اور مذکورہ لابنگ کمپنیوں کا کام ہمیشہ سے متعلقہ ملک کے امیج کو مثبت اور خوش کن بنانا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ممالک کے سفارت خانوں کا اول مقصد مقامی ممالک میں عام عوام کو اپنے بارے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے سفارت کار اس واسطے جان لڑاتے ہیں اور عام سے کلرک یا مزدور تک بھی اپنا مقصد ضرور پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ کسی ملک کا کوئی بالکل عام آدمی ان بارے مثبت رائے کسی بھی وجہ سے رکھتا ہے، تو وہ اس کو ہر صورت اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں،لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سفارت خانے شاید اس پر بالکل توجہ نہیں دیتے۔
پچھلے دنوں میری ملاقات جب ایک سابقہ افسر سے ہوئی، تو انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے سفارت کار اس پہلو پر توجہ ہی نہیں دیتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ایسا ہوتا ہی نہیں، بلکہ اس واسطے ہم کو خود چند پالیسی میکر تاجران یا سیاست دانوں سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔ عام عوام تو خارجہ اور پاکستان جیسے ملک بارے بالکل لا علم ہیں یا پھر منفی سوچ کے حامل ہی ہیں۔
یہ بات سن کر میرے دماغ میں کچھ یادداشتیں تازہ ہوگئی۔ حالاں کہ میرا تعلق خارجہ امور سے قطعی نہیں اور سفارت کاری کی الف بے کا بھی ادراک نہیں، لیکن پاکستان سے باہر کے لوگوں سے واسطہ ضرور ہوا۔
سو آج میں ان میں سے پانچ کردار یہاں بیان کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ایسے ہزاروں لوگ دنیا میں ہوں گے، لیکن کاش ہم ایسے لوگوں کو اپنی سفارت کاری ویسے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے یا ان کو عزت دے کر ان کا بہتر استعمال ہی کر سکتے۔
سو آئیں! آپ کی ڈھیر ساروں میں سے ان پانچ کرداروں سے ملاقات کرواتے ہیں۔
٭ ولس جانسن:۔ مَیں جب کالج میں تھا، تو اکثر شام کو پنڈی لیاقت باغ سے متصل ’’لیاقت پارک‘‘ بیٹھا کرتا تھا۔ یہی میری ملاقات ایک برطانوی گورے ’’ولس جانسن‘‘ سے ہوئی۔ ولس سنہ 65ء کی جنگ کے دوران میں پہلی بار پاکستان آیا اور غیر محسوس طور پر پاکستان کا عاشق بن گیا۔ وہ نہ صرف اُردو سیکھ گیا، بلکہ بہت خوشی سے کہتا تھا کہ پاکستان میرا گھر ہے۔ ولس کو پاکستانی کھانوں اور ثقافت سے عجیب سی محبت ہو گئی۔ وہ پاکستان کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر نہایت دلیل سے بات کرتا۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ پاکستانی ایک ذہین اور مخلص قوم ہیں اور اگر اوپر سے ان کی لائین کو سیدھا کیا جائے، تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان دنیا کی قیادت نہ کرسکے۔ ولس پاکستان کی خارجہ امور میں کارگردگی سے سخت مایوس تھا۔ وہ صرف ذوالفقار علی بھٹو اور صاحبزادہ یعقوب کے علاوہ تمام وزیرِ امورِ خارجہ سے مایوس تھا۔ اس کو یہ گلہ تھا کہ وہ پورے یورپ میں پاکستان کا روشن چہرہ دیکھانا چاہتا ہے، لیکن ہمارے بابو اس سے تعاون نہیں کرتے۔
٭ عبدالرحمان:۔ یہ ریاض میں پاکستانی سفارت خانہ ہے۔ مجھے یاد نہیں کس سلسلے میں ایک تقریب ہے۔ مَیں دوستوں کے ساتھ جاتا ہوں۔ ہال میں، مَیں نے دیکھا ایک سعودی لباس میں ملبوس سعودی شخص اپنے دوست سے محوِ گفتگو ہے۔ اس کی گفتگو کا محور پاکستان ہے۔ اتنے میں تقریب شروع ہوتی ہے اور پھر سٹیج سیکریٹری ’’عبد الرحمان‘‘ کو بلاتا ہے۔ عبد الرحمان ایک عربی نظم پیش کرتا ہے اور پھر اچانک مجھے حیرت ہوئی جب اس سعودی نے شستہ اُردو میں امن کی فاختائیں اُڑاو والی نظم شروع کر دی۔ اس کے بعد عبدالرحمان نے اُردو میں پاک سعودی تعلقات پر تقریر شروع کردی۔ پاکستان کا ذکر اس والہانہ محبت سے کیا کہ مَیں محو ہوگیا۔ تقریب کے بعد میں اس کو چائے کی دعوت دیتا ہوں، لیکن وہ کہتا ہے کہ وہ مصروف ہے۔ البتہ وہ ابھی بیس منٹ مجھے دے سکتا ہے۔ المختصر، مَیں اس کے پاس بیٹھ جاتا ہوں اور وہ پاکستان سے محبت کی کہانی بیان کرتا ہے۔ آخر میں اس کا گلہ یہی ہے کہ پاکستان کے ’’بابو‘‘ کوئی تعاون نہیں کرتے۔ وہ بہت بار اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کرچکا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کی بیوی بھی پاکستان کی ہے اور اس نے یہ نہیں کہ کوئی ’’لو افیئر‘‘ کے بعد شادی کی بلکہ اس کی پاکستان سے محبت تھی کہ اس نے باقاعدہ سوچ سمجھ کر شعوری طور پر پاکستانی خاتون سے شادی کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد ایک پاکستانی پشتون خاتون سے شادی کی اور اب وہ اپنے سسرال اور بیگم سے بہت مطمئن ہے۔
٭جوڈتھ مانوریا:۔ مَیں لاہور کے علامہ اقبال ائیر پورٹ سے ابو ظہبی واسطے جہاز میں سوار ہوتا ہوں۔ میرے ساتھ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کہ وہ کار ہو یا جہاز، سیٹ بلٹ باندھنا میرے واسطے عذاب سے کم نہیں، بلکہ میں عمومی طور ’’ائیر ہوسٹس‘‘ کی بار بار ضد کے باجود بھی نہیں باندھتا۔ اگر پکڑا جاؤں، تو پھر ویسے ہی دونوں سرے ملا کر بغیر باندھے یہ دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ باندھ لیا ہے سیٹ بلٹ۔ مَیں اتحاد ایئر لائین میں جیسا ہی بیٹھتا ہوں۔ میرے ساتھ ایک پھینے ناک اور چنی آنکھوں والی خاتون ’’ہیلو‘‘ کہہ کر بیٹھ جاتی ہے۔ میرا گمان ہوتا ہے کہ یہ چین کی حسینہ ہے۔ حسبِ معمول سیٹ بلٹ باندھنے کا اعلان ہوتا ہے اور ’’ایئر ہوسٹس‘‘ مجھے متوجہ کرتی ہے اور مَیں اپنی روایتی چالاکی دِکھاتا ہوں۔ جب جہاز آسمان کی بلندیوں پر پہنچ جاتا اور بلٹ کی ضرورت نہیں رہتی، تو میرے کانوں میں اس خاتون کی آواز سنائی دیتی ہے۔ لہجہ شرق بعید والا لیکن زبان اُردو۔ جی، جیوڈتھ منوریا کہتی ہے کہ آپ نے بلٹ باندھا نہیں، لیکن کھولنے کی اداکاری خوب کی۔ مَیں بے پروائی سے کہتا ہوں، نہیں پسند مجھے۔ سو جہاز والوں کو دھوکا دیتا ہوں۔ وہ کہتی ہے، دھوکا خود کو دیتے ہو، جہاز کے عملے کا کیا نقصان؟ مَیں ناگواری سے اس کی طرف دیکھ کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ کام سے کام رکھے۔ لیکن جوں ہی میں اس کی طرف دیکھتا ہوں مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس خاتون اُردو کیسے بول رہی ہے؟ اَب میں اس سے کہتا ہوں کہ یقینا وہ کسی پاکستانی باپ کی بیٹی ہے۔ کیوں کہ مَیں ایسے بہت سے پاکستانی لوگوں کو جانتا ہوں کہ جن کی بیگمات شرقِ بعید کی ہیں۔ وہ مسکراتی ہے اور کہتی ہے بالکل نہیں بلکہ وہ ماں باپ دونوں طرف سے فلپائنی ہے اور اس کی نسل سب فلپائنی ہی ہے۔ مَیں پوچھتا ہوں کہ پھر اُردو کس طرح……؟ وہ بتاتی ہے کہ اس نے اپنی تعلیم ’’ٹوکیو‘‘ میں مکمل کی۔ وہ پاکستان کو بالکل نہیں جانتی تھی، لیکن جس دن اس کی یونیورسٹی نے کسی بھی ’’لیگویج کورس‘‘ کی آفر چھے ماہ کی کی، اسی دن پاکستان میں محترمہ بینظیر بھٹو نے بحیثیتِ وزیراعظم حلف لیا۔ سو اس نے جاپان ٹی وی پر یہ خبر سنی کہ کس طرح ایک قدامت پسند مذہبی ملک میں ایک نوجوان خاتون سربراہ بنی۔ ساتھ ہی پاکستان کے کچھ علاقوں کی جھلکیاں نظر آئیں۔ سو اس نے اسی دن فیصلہ کیا کہ وہ پاکستانی زبان میں یہ کورس کرے گی۔ لیکن جب اس نے لسٹ دیکھی، تو اس میں پاکستانی زبان نظر نہ آئی۔ جوڈتھ چند لمحوں میں پاکستان پر عاشق ہوئی تھی۔ سو اس نے اس کو پاکستان پر ظلم سمجھا اور صبح سویرے پاکستانی سفارت خانہ جا پہنچی اور ان کو لسٹ دکھائی اور یہ کہا کہ وہ اس کی شکایت کریں۔ لیکن کاؤنٹر پر موجود کلرک نے یہ فہرست دیکھ کر اس کو بتایا کہ اس فہرست میں پاکستان کی دو زبانیں یعنی پشتو اور اُردو ہیں۔ جوڈیتھ شرمندہ ہوئی۔ کیوں کہ وہاں پر لفظ ہندی تھا، لیکن پاکستانی یا پاکستانوں نہ تھا، تو اس کو بتایا گیا اور یہ بھی کہ اُردو قومی زبان ہے اور پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ جیوڈتھ نے مجھے بہت خوشی سے بتایا کہ اس کی یونیورسٹی میں اُردو کی استاد ایک بھارتی مسلم خاتون تھی، جس نے اول لیکچر میں ہی کہا تھا کہ اُردو بطور ایک اضافی مضمون کے چھے ماہ میں سیکھنا ممکن نہیں۔ البتہ وہ بنیادی امور سیکھ سکتے ہیں، لیکن جیوڈتھ نے مکمل دلچسپی لی اور اس کی استاد بھی حیران رہ گئی کہ اس نے چھے ماہ میں مکمل اُردو سیکھ لی۔
یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد وہ پرائیوٹ اپنی اس استاد کے پاس جاتی رہی اور اگلے چھے ماہ یعنی ایک سال میں اس نے اقبالؔ، غالبؔ، میرؔ، آتشؔ، قرات العین، اشفاق احمد، مجید امجدؔ، ممتاز مفتی، سعادت حسن منٹو سب سمجھ کر پڑھ لیے۔ جوڈیتھ پہلی مرتبہ پاکستان عظمی گیلانی کہ جس کی وہ فین بن گئی تھی، سے ملنے گئی۔ اس کے علاوہ فیضؔ، ریما اور جاوید شیخ کی وہ عاشق بن گئی۔ اس کے روم میں ریما اور جاوید شیخ کی تصاویر لگی تھیں جو اس نے پنڈی کے صدر بازار سے سڑک کنارے خریدی، موجود تھیں۔ اس کو اس بات پر غصہ تھا کہ مَیں عظمیٰ گیلانی کے بجائے شکیلہ قریشی، جاوید شیخ کے بجاثے مرحوم وحید مراد اور مصطفی قریشی کو جب کہ ریما کی جگہ کویتا کو کیوں پسند کرتا ہوں۔ اس بات پر اس کو مزید غصہ آیا کہ میں ان کو بھی بس رسمی پسند کرتا ہوں، جب کہ میں شوبز میں اصل فین ہالی ووڈ ادکار راجر مور کا ہوں۔ جیوڈتھ، جاوید اختر کی بھی فین تھی اور امیتابھ بچن کی بھی عاشق۔ وہ اب چوتھی مرتبہ پاکستان آئی تھی۔ وہ تقریباً مکمل پاکستان گھوم چکی تھی، خیبر، کشمیر، تھر اور بلوچستان ہر جگہ۔ اس واسطے یہ بات قابلِ اعتراض اور غصہ تھی کہ میں اس کے مقابل بیس فی صد بھی پاکستان نہ دیکھ پایا تھا۔ اس کے منھ سے بابا اقبال اور چچا غالبؔ سننا مجھے بہت خوش گوار محسوس ہوتا تھا۔ حیدر علی آتشؔ کے شعر وہ شاید ہمارے ایم اے اُردو سے زیادہ زبانی سنا سکتی تھی۔ دو گھنٹے کے سفر میں مجھے ایسا لگا جیسا میں غیر ملکی ہوں اور جیوڈتھ پاکستانی۔ آخر میں اس کا گلہ بھی پاکستانی وزارتِ خارجہ اور سفارت کاروں سے یہی تھا کہ اس عظیم خوب صورت ملک واسطے کچھ کام نہیں کرتے۔ وہ پاکستان کو خاص کر بسنت کے حوالے سے پورے مشرقِ بعید خصوصاً فلپائن میں خوب پرموٹ کرنا چاہتی تھی، لیکن کوئی اس کو لفٹ نہیں کرواتا تھا۔ وہ بہت مشکل سے ایک دفعہ چند منٹ واسطے وزیر خارجہ شاید سردار آصف احمد علی سے بہت کوشش کے بعد مل سکی، لیکن بحیثیتِ مجموعی وہ سخت مایوس تھی۔ جب طیارہ اترنے لگا، تو جیوڈتھ نے کہا کہ مجھے تم بہت اچھے لگے۔ اس مشرقِ بعید کی حسینہ کے منھ سے یہ سن کر میری باچھیں کھل گئیں لیکن اس نے اس کی فوراً دو وجوہات بتائیں۔ ایک یہ کہ میرا بالوں کا انداز جاوید شیخ والا ہے، تب یقینا میرا سر بالوں سے بھرا ہوا تھا۔ دوسری وجہ یہ بتائی کہ میں گیلانی ہوں اور عظمیٰ بھی گیلانی تھی۔
٭ حسن باقری:۔ یہ تہران کا آزادی اسکوائر کا پارک ہے۔ میرا کزن چائے کا شوقین ایک کیفے میں چائے سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ مَیں باہر نکل کر آزادی پارک گھومتا ہوں۔ تھوڑا آگے بنچ دیکھ کر بیٹھ جاتا ہوں۔ میری پشت کی طرف دو نوجوان بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ مَیں فارسی کی ابجد سے بھی واقف نہیں، لیکن ان کی گفتگو میں بار بار امام جعفر اور امام ابو حنفیہؒ کا نام سننے کو ملتا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہشاید کسی مسلک بارے گفتگو ہے اور پھر لفظ ’’پاکستان‘‘ سنا، تو متوجہ ہوا۔ سلام کہہ کر ان کو متوجہ کیا۔ ایک نوجوان جس کا نام حسن باقری تھا، اُٹھ کر آگے آگیا۔ جب مَیں نے بتایا کہ مَیں پاکستانی ہوں، تو اس نے بہت شستہ اُردو میں ’’چچا‘‘ کہہ کر مجھے سلام کیا۔ مَیں کہتا ہوں، ’’پاکستانی ہو کیا؟‘‘ تو وہ ہنس پڑتا ہے اور بولتا ہے: ’’پاکستانی نہیں لیکن پاکستان کا دوست ہوں۔‘‘ حسن باقری اُردو ذبان و ادب میں ڈگری ہولڈر تھا اور بین الاقوامی لسانیات کے شعبہ میں اردو کا استاد۔ اس کی پاکستان سے محبت کی کہانی کا آغاز تب ہوا جب سکول کی تعلیم کے دوران میں فارسی کلاسوں میں اس کا تعارف علامہ اقبالؔ سے ہوا۔ اقبالؔ بارے پڑھتے جانتے اسے معلوم ہوا کہ اقبال مصورِ پاکستان تھے۔ پھر سکول کے بعد حسن باقری نے اُردو ذبان سیکھی پڑھی۔ پھر وہ روز بہ روز پاکستان کی محبت کا شکار ہوگیا۔ میرے واسطے یہ بات باعثِ حیرت تھی کہ حسن باقری مغلیہ دور سے ایران اور اس خطے کے تعلقات بارے آگاہ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پاک ایران کے سفارتی تعلقات کے ہر پہلو سے آگاہ تھا۔ دونوں ممالک کے اوپر اور نچلی سطح کے دوروں سے آگاہ تھا۔ وہ اقبالؔ کے علاوہ ڈاکٹر قدیر اور اشفاق احمد کا فین تھا۔ اس نے مجھے ایک ماہر سفارت کار کے طور پر یہ بات سمجھائی کہ پاک ایران تعلقات کی نوعیت دوستوں نہیں، بھائیوں کی طرح ہونا کیوں ضروری ہے! وہ پاکستان سیون شریف قلندر کے مزار پر دو بار آچکا تھا۔ لیکن المختصر وہ بھی پاکستان کے گورنمنٹ آفیشل سے مایوس تھا۔ اس کی یہ رائے تھی کہ پاکستان کے سفارت کار اگر کام پروفیشنل کریں، تو ایران کی ہر گلی میں ایک حسن باقری موجود ہے۔ باقری تین دفعہ پاکستان آچکا تھا اور پاکستانی عوام کی سادہ طبیعت اور حسِ مزاح کا قائل تھا۔ مجموعی طور پر مَیں نے حسن باقری کو پاکستان کا ایک سچا دوست پایا۔
٭ میری یا ماری جانیل؛۔ یہ آزربیجان کے درالحکومت باکو کی ایک سرد دوپہر ہے۔ مجھے ایک تاریخی سیاحتی مقام پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں میری ملاقات اس عجیب شخصیت سے ہوئی۔ مَیں اپنے خیالوں میں گم جا رہا تھا کہ ایک نسوانی آواز سنائی دی: ’’اے یو پاکسٹانی!‘‘ مَیں نے دیکھا تو تین چار عدد بیبیاں تھیں۔ میرے دیکھتے ہی دوسری بولی: ’’انڈین!‘‘ لیکن پہلی نے پھر کہا: ’’پاکستانی!‘‘ مَیں نے جواب نہیں دیا اور ان کی چال ڈھال سے اندازہ لگایا کہ وہ رشین ہیں۔ مَیں نے کہا: ’’یو ریشن؟‘‘ تو وہ بی بی بولی: ’’نو، آسٹریلین!‘‘ تب مَیں نے بتایا: ’’می پاکستانی!‘‘ وہ کھل کر ہنسی اور بولی کہ ’’یس آئی نو!‘‘ پھر اپنی ساتھی سے بولی کہ وہ پاکستانیوں کو چال سے پہچان لیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ خالہ نے پاکستانی شلوار قمیص پہنا ہوا تھا۔ میں نے اس کو چائے کی رسمی دعوت دی جو اس نے بہت پُرجوش طریقے سے ’’شور شور‘‘ کہتے ہوئے قبول کر لی اور ہم قریب کیفے بیٹھ گئے۔ اس نے شلوار قمیص اور پاکستانی کلچر کے کھانوں کی بہت تعریف کی، لیکن ایک بات بہت حیرناک تھی کہ خالہ کا ’’میری‘‘ یا ’’مری جانیل‘‘ کچھ ایسا ہی نام تھا، مجھ سے زیادہ وہ پاکستان بارے جانتی تھی۔ خالہ کو صادقین سے لے کر فیضؔ تک جہانگیر خان سے لے کر عمران خان تک، حتی کہ فلمساز سید نور تک مجھ سے زیادہ پتا تھا، لیکن یہاں عجیب و غریب بات یہ ہوئی کہ خالہ کی پسند اور میری پسند بالکل ایک جیسی تھی۔ مثلاً میری طرح میری کی بھی چند پسندیدہ شخصیات یہ تھیں: ظہیر عباس، وقار یونس، حسن سردار، جہانگیر خان، گبیریلا سباٹینی، ایلن بورڈر، جیف تھامسن، جسٹن ٹوڈو، نوم چومسکی، راجر مور اور سندیب پاٹل وغیرہ۔ کیوی وزیراعظم جیسنڈا الڈرین کے ہم دونوں فین تھے۔ کیا یہ بات عجیب نہ تھی کہ میری مجھ سے زیادہ محترمہ بینظیر بھٹو بارے جانتی تھی۔ سیاست، جمہوریت، دین بارے مکمل یکسوئی تھی۔ کشمیر اور فلسطین بارے ہمارا مؤقف ایک جیسا تھا۔ یہ سب جان کر مَیں نے کہا: ’’میم اگر ہم ایک معاشرے میں ہوتے، تو بہت اچھے بزنس پارٹنر یا دوست ہوتے۔‘‘ اس پر 60 سالہ میری نے قہقہہ لگایا اور کہا: ’’نہیں، ہم شاید میاں بیوی ہوتے۔‘‘ ایک دم میرے منھ سے نکلا: ’’چلو، اب سہی۔‘‘ میری نے ایک دم قہقہہ لگایا اور کہا: ’’میرا خاوند اور بچے مجھے مار دیں گے۔‘‘ پھر رُکی اور ہنس کر بولی، ’’لیکن تم کو فکر نہیں۔‘‘ مَیں نے کہا: ’’میری بیوی اور بچے بھی بہت جذباتی ہیں۔‘‘ خالہ نے قہقہہ لگایا اور کہا: ’’اسی لیے وہ بھی، خاص کر تمھاری بیوی بھی تم کو نہیں بلکہ مجھے ہی مار دے گی۔ کیوں کہ پاکستانی نفسیات یہی ہے۔‘‘ مجھے حیرت ہوئی اس کی بات پر۔ لیکن رُکیں ایک مزید حیرت کا سمندر یہ کہ خالہ آج تک پاکستان نہیں گئی۔ صرف کتب، گوگل اور یو ٹیوب اس کا اثاثہ ہیں۔ یا پھر برطانیہ اور آسٹریلیا میں رہنے والی صرف چند پاکستانی شخصیات۔ البتہ خالہ عمران خان سے لے کر محترمہ بینظیر بھٹو تک سب سے مل چکی ہے۔ صادقین سے خاص لگاؤ رکھتی ہے۔ مَیں شاید میری کی باتوں پر یقین نہ کرتا، لیکن اس کے جسم پر موجود شلوار قمیص اس کا منھ بولتا ثبوت تھا۔ شاید یہ عجیب واقعات انسان کو حیرت زدہ کرنے واسطے کافی ہیں اور یہ یقین دلانے واسطے کہ اس کائنات کا کوئی رب بھی ہے، جو حقیقی قادرِ مطلق ہے۔
گو کہ میری نے اس بات کا اظہار تو نہ کیا کہ وہ پاکستان واسطے کام کرنا چاہتی ہے، یا ہمارے لوگ اس سے تعاون نہیں کرتے لیکن میری پاکستان سے لازوال محبت رکھتی تھی اور اس جیسی شخصیات سے رابطہ کرنا ہماری سفارتی ضرورت ضرورت ہے۔
……………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔