ڈی آئی جی صاحب، اپنے ہونے کا احساس دلائیں!

جنابِ والا! اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں ٹریفک کی بھرمار کی وجہ سے ٹریفک پولیس کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بسا اوقات میں کڑھتا ہوں، جب کوئی نودولتیا قانون کی دھجیاں اُڑانے کے بعد روک لیا جاتا ہے اور وہ فون گھما کر کسی ایم پی اے، ایم این اے یا اس قبیل کی کسی دوسری "مہان ہستی” کو فون کڑکا کے ٹریفک وارڈن کو تھماتا ہے۔ دوسرے ہی لمحے جب وارڈن صاحب کا چہرہ اُتر جاتا ہے، تو میرے جیسے "نان سرٹیفائڈ” صحافی کا کڑھنا تو بنتا ہے۔
جنابِ والا! رواں ماہ کے وسط میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر میری طرح دیگر لوگوں حتی کہ آپ صاحبان نے بھی دیکھا ہوگا کہ ایک گاڑی نشاط چوک میں پولیس کا اشارہ توڑ کر بھاگ نکلتی ہے، جسے پکڑ کر روک لیا جاتا ہے۔ گاڑی سے اترتے ہی ایک شخص پولیس اہلکار پر چڑھ دوڑتا ہے اور اس کی اچھی خاصی دھلائی کر دیتا ہے۔ گاڑی سے دوسرا شخص بھی نکل کر بڑی دیدہ دلیری سے پولیس اہلکار کی پٹائی کرتا ہے۔ اس موقعہ پر مجھے "ورلڈ ریسلنگ فیڈریشن” (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کا وہ مقابلہ یاد آیا، جس میں جب ایک ریسلر اپنے حریف کو مار مار کر تھک جاتا ہے، تو اپنے ساتھی کو تالی دے کر میدان میں اتارتا ہے اور حریف کا بھرکس نکالنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔
شنید ہے کہ پولیس اہلکار کی دھلائی کرنے والے دونوں پہلوانوں کو مذکورہ کشتی کے بعد دھر لیا گیا تھا، اب ان کی پوزیشن کیا ہے؟ یہ آپ صاحبان ہی کو پتا ہوگا۔ کیوں کہ شائد ہمارے "سرٹیفائڈ” رُفقا کو قانون کا مضحکہ اُڑانے میں دلچسپی زیادہ ہے اور کسی ملزم یا مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں کم۔ یا آپ صاحبان کو چاہیے کہ مذکورہ پہلوانوں کو اگر کوئی سزا ملی بھی ہے، تو اس حوالہ سے پریس بریفنگ ہی دے جاتے۔ پشتو کہاوت کے مصداق "سہ ژرندہ پسہ وہ، او سہ دانے لمدے وے” کچھ آپ صاحبان کی اپنی مصروفیت زیادہ ہے اور کچھ مقامی میڈیا کے اپنے تقاضے ہیں۔ ایسے میں اگر ہم "نان سرٹیفائڈ” صحافی کچھ رقم کرنے کی کوشش بھی کریں، تو نتیجہ ہمارے بچپن کے اس ببل گم والے مشہور ٹی وی اشتہار جیسا ہی نکلتا ہے، جس میں ایک بچہ کہتا ہے: "بی پی ببل بار جیسی بڑی ببل بار نہ ہو، تو ان چھوٹوں کو کون پوچھے!”
جنابِ والا! اس حوالہ سے اب ایک اور ایسا واقعہ آج صبح (26 جنوری 2020ء) کو گلشن چوک میں پیش آیا، جس میں ایک دکان دار کو تجاوزات ہٹانے کا کہا گیا، تو جواباً اس نے باوردی پولیس کو ہجوم کے درمیان گریبان سے پکڑا اور کسی ریسلر کی طرح اُٹھا کر سڑک پر دے مارا۔ اہلکار کی عینک دور جا گری۔ اُس بے چارے کو اس مارا ماری میں کچھ دِکھ نہیں رہا تھا۔ ایک لمحے کو میرا خون کھول اٹھا، مگر وہ ریسلر نما مشٹنڈا کچھ زیادہ ہی تگڑا تھا، اس لیے خون کے گھونٹ پینے میں ہی عافیت جانی۔
جنابِ والا! اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس طرح کی چھوٹی موٹی باتوں پر لوگ قانون کو ہاتھ میں لیتے رہے اور باوردی پولیس اہلکاروں کی اسی طرح دھنائی ہوتی رہی، تو وہ دن دور نہیں جب ملاکنڈ ڈویژن میں جنگل کا قانون رائج ہوگا اور آپ صاحبان اپنے مضبوط حصار میں لیے جانے والے سردی میں گرم اور گرمی میں سرد دفاتر تک محدود رہیں گے۔ رہی بات ہم عوام کی، تو ہم تو  ہیں ہی "بلڈی سویلین”، پورا ملک ہماری خون پسینے کی کمائی سے چلتا ہے، دھونس بھی ہم پر جمائی جاتی ہے، اٹھوایا بھی ہمیں جاتا ہے اور غائب بھی ہمیں کیا یا کرایا جاتا ہے۔
جنابِ والا، آمدم برسرِ مطلب! اپنے ہونے کا احساس دلائیے۔ 30، 35 ہزار روپیہ لینے والا یہ معمولی پولیس اہل کار آپ کی اولاد جیسا ہے۔ مجھے آج اس معصوم کی ہوا میں اُڑتی عینک عجیب محسوس ہوئی۔ یہ محض ایک عینک نہیں بلکہ پورا پولیس ڈیپارٹمنٹ ہوا میں اُڑا ہے، اور آگے بھی اُڑتا رہے گا۔
جنابِ والا! یہ "نان سرٹیفائڈ” صحافی ہاتھ جوڑ کے کہتا ہے، کبھی کبھار اپنے گرم دفتر سے نکل کر بازار بھی گھوم آیا کریں، ہم عوام جائیں بھاڑ میں مگر اپنی وردی اور محکمے کا بھرم تو قائم رکھیں!
………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔